فلسطینیوں نے یروشلم سے انخلا میں تاخیر کی پیشکش مسترد کردی
یروشلم: فلسطینی خاندانوں نے یہودی آباد کاروں کی طرف سے یروشلم سے ان کی بےدخلی میں تاخیر کی پیشکش کو مسترد کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یروشلم کے علاقے شیخ جراح کے 4 خاندانوں کا کہنا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ ان کے انصاف ملنے اور اپنے گھروں اور اپنے وطن کے حق میں ان کے یقین پر منحصر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ غیر منصفانہ معاہدے پر سر تسلیم خم کرنے کے بجائے وہ اپنی حالت زار کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر بیداری پیدا کرنے کے لیے فلسطینی سڑکوں کا رخ کریں گے۔
مزید پڑھیں: یروشلم: زمین کی ملکیت کے تنازع پر جھڑپوں میں 22 فلسطینی زخمی
شہر میں ہونے والی پیشرفت پر قریبی نظر رکھنے والے اسرائیلی حقوق کے گروپ ’ار امیم‘ کے مطابق اسرائیل کی سپریم کورٹ کی طرف سے گزشتہ ماہ پیش کی گئی تجویز سے انہیں محفوظ کرایہ دار بنادیا جاتا جس سے وہ کم از کم اگلے 15 سالوں کے لیے کسی بھی بے دخلی اور مسمار کیے جانے کے حکم کو روک دیا جاتا۔
اس معاہدے سے یہ خاندان اسرائیلی عدالتوں میں اپنے کیس پر بحث جاری رکھنے کے قابل ہوتے تاہم انہیں کم از کم عارضی طور پر آباد کاروں کی جائیدادوں کی ملکیت کی تصدیق کرنے پر مجبور کیا جاتا جس سے خاندانوں کا مقدمہ آگے بڑھنے سے کمزور ہوسکتا ہے اور آباد کاروں کو کرایہ ادا کرنا پڑتا۔
یہ چار خاندان یروشلم کے ان درجنوں خاندانوں میں شامل ہیں جنہیں یہودی آباد کار تنظیموں کی طرف سے بے دخلی کا خطرہ ہے۔
آباد کار ایک اسرائیلی قانون کا استعمال کر رہے ہیں جو انہیں ان جائیدادوں کا دعویٰ کرنے کی اجازت دیتا ہے جو 1948 کی جنگ سے قبل یہودیوں کی ملکیت تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں، اسرائیلی پولیس کے درمیان جھڑپ میں سیکڑوں افراد زخمی
فلسطینی جنہوں نے ایک ہی تنازع میں گھر، جائیدادیں اور زمینیں کھو دی ہیں ان کو واپس لینے کا حق نہیں ہے۔
آباد کاروں کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا تاہم یروشلم کے ڈپٹی میئر اریح کنگ جو ایک شدت پسند یہودی ہیں، نے کہا کہ انہوں نے یہ پیشکش قبول کر لی ہے۔
یہ خاندان، جو اصل میں اسرائیل کے رہنے والے ہیں، کہتے ہیں کہ اردن کی حکومت نے 1948 میں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد انہیں وہ زمین دی تھی جس پر بعد میں ان کے پناہ گزینوں کی حیثیت کے بدلے میں ان کے گھر بنائے گئے تھے اور وہ تب سے وہاں رہ رہے ہیں۔
اسرائیل نے اس معاملے کو ایک پرائیویٹ ریئل اسٹیٹ تنازع کے طور پر پیش کیا ہے تاہم فلسطینی اور انسانی حقوق کے گروپس اسے فلسطینی باشندوں کو یروشلم سے باہر دھکیلنے اور شہر کی شناخت کو تبدیل کرنے کی ایک مربوط کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔