• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

اشرف غنی نے مرتے دم تک لڑنے کا عہد کیا لیکن فرار ہوگئے، انٹونی بلنکن

شائع November 1, 2021
انٹونی بلنکن نے کہا کہ میں اشرف غنی کے ساتھ کئی ہفتوں، کئی مہینوں تک مصروف رہا ہوں — فائل فوٹو: فیس بک
انٹونی بلنکن نے کہا کہ میں اشرف غنی کے ساتھ کئی ہفتوں، کئی مہینوں تک مصروف رہا ہوں — فائل فوٹو: فیس بک

واشنگٹن: امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ سابق افغان صدر اشرف غنی نے مرتے دم تک لڑنے کا وعدہ کیا تھا تاہم طالبان کے آنے پر وہ کابل سے فرار ہوگئے۔

اس کے علاوہ رواں ہفتے کے آخر میں ایک امریکی تھنک ٹینک ’ہڈسن انسٹی ٹیوٹ‘ نے افغانستان میں کارروائیوں کے لیے پاکستانی فضائی حدود کے استعمال کے لیے ایک باضابطہ معاہدے پر ہونے والے امریکا، پاکستان مذاکرات کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ٹاک شو ’سی بی ایس فیس دی نیشن‘ میں ایک حالیہ انٹرویو میں افغانستان کے لیے امریکا کے ساتھ نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ جو بائیڈن انتظامیہ کابل میں حکومت کے خاتمے کو روکنے کے لیے مزید کچھ کر سکتی تھی۔

مزید پڑھیں: سقوط کابل سے قبل بائیڈن اور اشرف غنی میں فون پر آخری بات کیا ہوئی تھی؟

اتوار کو نشر ہونے والے پروگرام میں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن سے سوال کیا گیا کہ کیا انہوں نے ذاتی طور پر اشرف غنی کو کابل میں رہنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی تھی تو انہوں نے کہا کہ ’وہ ہفتہ (14 اگست) کی رات اشرف غنی کے ساتھ فون پر بات کر رہے تھے اور ان پر کابل میں نئی حکومت کو اقتدار کی منتقلی کے منصوبے کو قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے، یہ حکومت طالبان کی قیادت میں ہوتی اور اس میں افغان معاشرے کے تمام افراد شامل ہوتے‘۔

انہوں نے بتایا کہ اشرف غنی نے ان سے کہا کہ ’وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں اور اگر طالبان ساتھ نہیں دیں گے تو وہ موت تک ان کے مقابلے کے لیے تیار ہیں اور اگلے ہی دن وہ افغانستان سے فرار ہوگئے‘۔

واضح رہے کہ طالبان نے 15 اگست کو کابل پر قبضہ کیا تھا جب اشرف غنی افغانستان سے فرار ہوگئے تھے۔

انٹونی بلنکن نے کہا کہ ’میں اشرف غنی کے ساتھ کئی ہفتوں، کئی مہینوں تک مصروف رہا ہوں‘۔

یہ بھی پڑھیں: سابق صدر اشرف غنی نے افغان قوم سے معافی مانگ لی

ان سے جب سوال کیا گیا کہ کہ کیا انہوں نے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتے تھے تو اعلیٰ امریکی سفارت کار نے کہا کہ محکمہ خارجہ ہر اس کام کا جائزہ لے رہا ہے جو امریکی انخلا کے معاہدے کے بعد سے امریکا نے کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس جائزے میں ’وہ اقدامات شامل ہوں گے جو ہم نے اپنی انتظامیہ کے دوران کیے کیونکہ ہمیں پچھلے دو سالوں سے ہر ممکن سبق سیکھنا ہے اور پچھلے 20 سالوں سے بھی‘۔

اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ یہ امریکا کی سب سے طویل جنگ تھی، امریکی سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے طویل ترین جنگ کا خاتمہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا کہ امریکیوں کی ایک اور نسل کو افغانستان میں لڑنا اور مرنا نہیں پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ جب یہ سب معاملہ حل ہو جائے گا تو یہی امریکی عوام کی خواہش ہوگی اور یہ ہمارے مفاد میں ہے اور اسی دوران ہم اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں‘۔

دوسری جانب ہڈسن کے جائزے میں پاکستان اور امریکا کے فضائی رسائی کے ممکنہ معاہدے پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان ’انسداد دہشت گردی کے معاہدے کو پاکستان اور امریکا کے قریبی تعاون کی علامت کے طور پر پیش کرے گا‘۔

مزید پڑھیں: اشرف غنی کے خلاف 16 کروڑ ڈالر چوری کا الزام، ان کے ہی محافظ نے تصدیق کردی

ہڈسن کی ایک اور رپورٹ، جو جائزے کے ساتھ جاری کی گئی تھی، میں نشاندہی کی گئی کہ کئی ’امریکی مبصرین نے پاکستان کے ساتھ علیحدگی اختیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تاہم یہ ایک بہت بڑی غلطی ہوگی‘۔

رواں ہفتے کے آغاز میں امریکی انڈر سیکریٹری برائے دفاع کولن کاہل نے کانگریس کو بتایا تھا کہ پاکستان نے امریکا کو اپنی فضائی حدود تک رسائی دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور دونوں فریق اس رسائی کو کھلا رکھنے پر بھی بات کر رہے ہیں۔

انہوں نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا تھا کہ ’پاکستان ایک چیلنجنگ ایکٹر ہے لیکن وہ نہیں چاہتے کہ افغانستان دہشت گرد حملوں، بیرونی حملوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنے‘۔

تبصرے (1) بند ہیں

عرفان Nov 02, 2021 03:00am
سر آپ بھی تو بھاگے ہں-

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024