افغان سفارتکاروں نے پاکستان میں ذمہ داریاں سنبھال لیں
اسلام آباد: طالبان کی جانب سے مقرر کردہ 'سفارت کاروں' نے پاکستان میں افغان سفارت خانے اور قونصل خانوں کا چارج سنبھال لیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس پیشرفت سے واقف حکام نے کہا کہ سردار محمد شکیب نے اسلام آباد میں افغان سفارت خانے میں فرسٹ سیکریٹری کے طور پر کام شروع کر دیا ہے۔
حافظ محب اللہ، ملا غلام رسول اور ملا محمد عباس کو افغانستان کے پشاور، کوئٹہ اور کراچی کے قونصل خانوں میں تعینات کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: افغان سفیر کی بیٹی پر تشدد، وزیر اعظم کی ملزمان کی فوری گرفتاری کی ہدایت
سردار محمد شکیب اسلام آباد میں افغان ناظم الامور ہوں گے۔
یاد رہے کہ اسلام آباد میں افغان سفارتخانے میں جولائی کے بعد سے کوائی سفیر موجود نہیں ہے جب گزشتہ حکومت کے آخری سفیر نجیب اللہ علی خیل اپنی بیٹی سلسلہ علی خیل کے مبینہ اغوا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تنازع کی وجہ سے ملک چھوڑ گئے تھے۔
وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق سردار محمد شکیب کو جاننے والے طالبان کے ارکان کا کہنا ہے کہ وہ صوبہ زابل سے تعلق رکھنے والے پشتون ہیں اور جنوبی قندھار میں محکمہ اطلاعات و ثقافت میں خدمات انجام دے چکے ہیں جس کے ساتھ ساتھ وہ طالبان کے ایک میگزین سے بھی وابستہ رہے ہیں۔
انہوں نے قاری یوسف احمدی کے نام سے طالبان کے ترجمان کے طور پر بھی کام کیا تھا اور پاکستان میں گرفتار بھی ہوئے تھے اور بعد میں کئی سال تک پشاور میں مقیم رہے۔
دریں اثنا قونصل خانوں میں تعینات حکام قونصل جنرل کے طور پر کام کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان کا جنم سے عروج تک کا سفر
واضح رہے کہ پاکستان، طالبان کو جائز حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کرتا تاہم پھر بھی اس نے تعینات کیے گئے 'سفارت کاروں' کو ویزے جاری کیے ہیں۔
افغان سفارت خانے میں نئے عملے کے تقرر کے حوالے سے دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک انتظامی معاملہ ہے اور اس کا مقصد سفارت خانے کو اپنے فرائض انجام دینے کے قابل بنانا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین موجود ہیں اور یہاں ویزا کے مسائل بھی ہیں‘۔
اس دوران ایک اور عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ ویزوں کے اجرا میں سہولت کا مطلب طالبان حکومت کو تسلیم کرنا نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے طالبان کے ایک سینئر رہنما کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے ابھی تک ہمیں ایک جائز حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے لیکن ہم نے یہ انتظامات عوامی سہولیات کے لیے کیے ہیں‘۔