• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

ٹی ایل پی کو مزید قانون شکنی پر کوئی رعایت نہیں دی جائے گی، قومی سلامتی کمیٹی

شائع October 29, 2021
وزیراعظم نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا تھا— فوٹو بشکریہ وزیر اعظم آفس
وزیراعظم نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا تھا— فوٹو بشکریہ وزیر اعظم آفس

قومی سلامتی کمیٹی نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی ایل پی کو مزید قانون شکنی پر کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔

اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی کا مارچ جاری، رینجرز نے وزیر آباد کے قریب ’ریڈ لائن‘ لگادی

اجلاس کے بعد جاری اعلامیے کے مطابق وفاقی وزرا، مشیر قومی سلامتی، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، ڈی جی آئی ایس آئی، آئی بی اور ایف آئی اے اور دیگر سینئر سول و عسکری حکام اجلاس میں شریک تھے۔

بیان میں کہا گیا کہ کمیٹی کو ملک کی داخلی صورت حال اور ٹی ایل پی کے احتجاج کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کسی بھی گروپ یا عناصر کو امن و عامہ کی صورت حال بگاڑنے اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

بیان کے مطابق اجلاس میں ٹی ایل پی کے احتجاج کے دوران جان و مال کو نقصان پہنچانے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور کمیٹی نے عزم ظاہر کیا کہ قانون کی عمل داری میں خلل ڈالنے کی مزید کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔

بیان میں کہا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے پولیس کی پیشہ ورانہ کارکردگی اور تحمل کو خراج تحسین پیش کیا، جن کے 4 اہلکار شہید اور 400 سے زیادہ زخمی ہوئے۔

کمیٹی نے اعادہ کیا کے تحمل کا مطلب ہر گز کمزوری نہ سمجھا جائے، پولیس کو جان و مال کے تحفظ کے لیے دفاع کا حق حاصل ہے۔

اجلاس کے دوران کہا گیا کہ ریاست پر امن احتجاج کے حق کو تسلیم کرتی ہے لیکن ٹی ایل پی نے دانستہ طور پر سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا اور اہلکاروں پر تشدد کیا، یہ رویہ قابل قبول نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرنے والے کالعدم تنظیم کے 32 اراکین گرفتار کرلیے، فواد چوہدری

کمیٹی نے کہا کہ ریاست آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہ کر مذاکرات کرے گی اور کسی قسم کے غیر آئینی اور بلا جواز مطالبات تسلیم نہیں کرے گی۔

بیان کے مطابق وزیر اعظم اور قومی سلامتی کمیٹی کے اراکین نے امن و عامہ کی صورتحال برقرار رکھنے کے دوران شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے لیے تعزیت کی اور کہا کے شہید اہلکاروں کے اہل خانہ کو معاوضہ اور ان کی کفالت یقینی بنائی جائے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ حکومت قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی ہر قسم کی امداد اور پشت پناہی جاری رکھے گی کیونکہ یہ عوام کا تحفظ کر رہے ہیں۔

کمیٹی نے کہا کہ کسی بھی پچھلی حکومت یا کسی وزیر اعظم نے ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ اور اسلاموفوبیا کے تدارک کے لیے اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر اتنا کام نہیں کیا، جتنا اس حکومت اور موجودہ وزیراعظم نے کیا۔

بیان میں کہا گیا کہ حکومت نے کامیابی سے ان مسائل کو اقوام متحدہ، او آئی سی، یورپی یونین اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر اجاگر کیا اور رحمت اللعالمین اتھارٹی کے قیام کا بنیادی مقصد بھی اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈے کو رد کرنا ہے۔

اجلاس کے بعد جاری اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے ٹی ایل پی کی طرف سے ناموس رسالت کے غلط اور گمراہ کن استعمال کی شدید مذمت کی، جس کی وجہ سے فرقہ واریت کو ہوا ملتی ہے اور ملک دشمن عناصر فائدہ اٹھاتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ اربوں مسلمان حضرت محمد ﷺ کی ذات اقدس سے محبت کرتے ہیں اور عقیدت رکھتے ہیں لیکن کسی بھی دوسری اسلامی ریاست میں املاک اور عوام کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔

کمیٹی نے کہا کہ ٹی ایل پی کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کا منفی تاثر گیا ہے۔

ٹی ایل پی کے حوالے سے کہا گیا کہ ٹی ایل پی نے ماضی میں بھی متعدد مرتبہ پر تشدد احتجاج کا راستہ اختیار کیا، جس سے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچا اور ریاست کی حکمرانی کو چیلنج کیا گیا۔

کمیٹی نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے متفقہ طور پر اس عزم کو دہرایا کہ ریاست کی خودمختاری کو کسی بھی اندرونی یا بیرونی خطرات سے محفوظ رکھا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ٹی ایل پی کے ساتھ صرف آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے مذاکرت کیے جائیں گے۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی کا اسلام آباد مارچ، تصادم میں 4 پولیس اہلکار شہید، درجنوں زخمی

قومی سلامتی کمیٹی نے کہا کہ ٹی ایل پی کو مزید قانون شکنی پر کوئی رعایت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی کسی قسم کے ناجائز مطالبات تسلیم کیے جائیں گے، ریاست کی حکمرانی کو چیلنج کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی۔

اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے ہدایت کی کہ عوام کے جان و مال کے تحفظ اور ریاست کی حکمرانی کو قائم رکھنے کے لیے تمام اقدامات یقینی بنائے جائیں۔

دوسری جانب ٹی ایل پی کے ہزاروں کارکنان، کاروں، بسوں اور پیدل گوجرانوالہ سے اسلام آباد کی جانب مارچ کرتے ہوئے رواں دواں ہیں جبکہ کراچی میں تنظیم کے شرکا نے ریلی نکالی اور کراچی پریس کلب پہنچ کر اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کی۔

ٹی ایل پی کے مارچ میں شامل شرکا نے رات گرینڈ ٹرنک روڈ المعروف جی ٹی روڈ پر جنرل بس اسٹینڈ کے قریب پڑاؤ ڈالا تھا اور وزیرداخلہ کی جانب سے مارچ روکنے یا نتائج کا سامنا کرنے کی دھمکی کے باوجود صبح دوبارہ اپنی ریلی شروع کردی۔

تقریباً 5 ہزار شرکا پر مشتمل ریلی وزیر آباد کی جانب بڑھ رہی ہے اور اس دوران رک کر نمازِ جمعہ بھی ادا کی گئی۔

ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ 2 سیکیورٹی پوائنٹس پر ٹی ایل پی اور پولیس کے مابین بڑا تصادم ہونے کا خطرہ ہے، یہ سیکیورٹی پوائنٹس دریائے چناب اور جہلم پر قائم کیے گئے تھے جو مارچ کے اسلام آباد پہنچنے کا واضح راستہ ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس مرتبہ رینجرز کمان کی قیادت کرے گی جبکہ پولیس ان کی معاونت کرے گی۔

پولیس ذرائع کے مطابق جمعہ کے روز رینجرز اور پولیس کے ہزاروں اہلکاروں چناب ٹول پلازہ پر تعینات کیا گیا، سیکیورٹی اہلکاروں کے پاس مسلح بکتر بند گاڑیاں اور فسادات سے نمٹنے کے آلات موجود ہیں۔

چناب ٹول پلازہ سے تقریباً 500 میٹر کے فاصلے پر پنجاب رینجرز نے ایک 'ریڈ لائن' کو نشان زد کیا ہے اور ساتھ ہی ایک نوٹس لگا کر مظاہرین کو متنبہ کیا گیا کہ وہ لائن کی خلاف ورزی نہ کریں ورنہ نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ٹی ایل پی احتجاج کا پس منظر

گزشتہ برس میں فرانس میں سرکاری سطح پر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر مسلم دنیا میں سخت ردعمل آیا تھا خاص طور پر پاکستان میں بھی اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی اور تحریک لبیک پاکستان نے اسلام آباد میں احتجاج کیا تھا جسے حکومت کے ساتھ 16 نومبر کو معاہدے کے بعد ختم کردیا گیا تھا۔

تاہم مطالبات کی عدم منظوری پر تحریک لبیک نے 16 فروری کو اسلام آباد میں مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا تھا، بعدازاں مہلت ختم ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے مطالبات کی عدم منظوری اور معاہدے پر عملدرآمد نہ کیے جانے پر تحریک لبیک نے حکومت کو 20 اپریل کی ڈیڈ لائن دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی کا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان

تاہم 12 اپریل کو سعد رضوی کو امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے لاہور سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔

ان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس نے بعد ازاں پر تشدد صورت اختیار کرلی تھی جس کے پیشِ نظر حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کردی تھی۔

حافظ سعد حسین رضوی کو ابتدائی طور پر 3 ماہ تک حراست میں رکھا گیا اور پھر 10 جولائی کو دوبارہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایک وفاقی جائزہ بورڈ تشکیل دیا گیا جس میں 23 اکتوبر کو ان کے خلاف حکومتی ریفرنس لایا گیا۔

قبل ازیں یکم اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے سعد رضوی کی نظر بندی کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے خلاف حکومت نے اپیل دائر کی تھی لیکن لاہور ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ ابھی تک تشکیل نہیں دیا گیا۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی کا اسلام آباد مارچ، تصادم میں 4 پولیس اہلکار شہید، درجنوں زخمی

بعد ازاں حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے 12 اکتوبر کو سنگل بینچ کے حکم پر عمل درآمد معطل کردیا تھا اور ڈویژن بینچ کے نئے فیصلے کے لیے کیس کا ریمانڈ دیا تھا۔

تاہم 19 اکتوبر کو عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر نکالے گئے جلوس کو کالعدم جماعت نے اپنے قائد حافظ سعد رضوی کی رہائی کے لیے احتجاجی دھرنے کی شکل دے دی تھی۔

بعدازاں 3 روز تک لاہور میں یتیم خانہ چوک پر مسجد رحمت اللعالمین کے سامنے دھرنا دینے کے بعد ٹی ایل پی نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

21 اکتوبر کو کالعدم تحریک لبیک پاکستان نے لاہور میں 3 روز تک دھرنا دینے کے بعد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کارکنوں کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ سے روکا گیا تو ٹی ایل پی نے پلان ’بی‘ بھی تیار کرلیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: ٹی ایل پی اور پولیس میں جھڑپیں، 3 اہلکار شہید، متعدد زخمی

23 اکتوبر کو لاہور میں کالعدم ٹی ایل پی کے قائدین اور کارکنوں کے پولیس کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔

دو روز قبل بھی مریدکے اور سادھوکے کے قریب ٹی ایل پی کے مشتعل کارکنوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کم از کم 4 پولیس اہلکار جاں بحق اور 263 زخمی ہوگئے تھے۔

حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے لیکن دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔

حکومت واضح طور پر اعلان کر چکی ہے کہ وہ پاکستان میں فرانسیسی سفارت خانے کو بند کرنے کے ٹی ایل پی کے مطالبے کو پورا نہیں کر سکتی، ساتھ ہی انکشاف کیا تھا کہ ملک میں فرانس کا کوئی سفیر نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: لاہور: سعد رضوی کی رہائی کیلئے ’ٹی ایل پی‘ کے کارکنوں کا دھرنا، پولیس ہائی الرٹ

اس کے علاوہ کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ ٹی ایل پی کو عسکریت پسند تنظیم قرار دیا جائے گا اور اسے کچل دیا جائے گا جیسا کہ اس طرح کے دیگر گروپس کو ختم کر دیا گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024