وزارت خزانہ نے مزید مہنگائی کے حوالے سے متنبہ کردیا
اسلام آباد: رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ کے دوران بغیر کسی تبدیلی کے مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 0.9 فیصد ریکارڈ کرتے ہوئے وزارت خزانہ نے متنبہ کیا ہے کہ شرح مبادلہ، اجناس کی فراہمی اور موسمی حالات ملک میں قیمتوں اور نقل و حمل کے اخراجات بڑھا سکتے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کے اکنامک ایڈوائزرز ونگ نے اپنے ماہانہ اکنامک اپڈیٹ اینڈ آؤٹ لُک میں کہا کہ تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے، شرح مبادلہ میں کمی اور زیر انتظام قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ کے اثرات قیمتوں اور نقل و حمل کی لاگت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
وزارت کا کہنا تھا کہ ملک میں معاشی سرگرمیوں کی بحالی ہوئی تھی لیکن اشیا کی بین الاقوامی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ مقامی قیمتوں کے ساتھ ساتھ مقامی کرنسی پر بھی دباؤ ڈال رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ستمبر میں مہنگائی کی شرح 9 فیصد ریکارڈ
وزارت نے کہا کہ قیمتوں کی مؤثر نگرانی کے ساتھ حکومت کے ترقی کے حامی اقدامات سے عام لوگوں کو ریلیف ملنے کی امید ہے۔
ساتھ ہی وزارت خزانہ نے وضاحت کی کہ ملک کی افراط زر کی شرح بنیادی طور پر مانیٹری اور سپلائی سائیڈ کے اثرات سے چلتی ہے جس میں اشیا کی مقامی اور بین الاقوامی قیمتیں، ڈالر کی شرح تبادلہ، موسمی صورتحال اور معاشی ایجنٹس کی توقعات شامل ہیں، ساتھ ہی ان اشاریوں کی مستقبل کی پیش رفت پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔
رواں سال مئی سے ستمبر تک سالانہ مہنگائی میں کمی کا رجحان دیکھا گیا لیکن حال ہی میں تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ، شرح مبادلہ میں کمی اور زیر انتظام قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ دیکھنے میں آئی۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں سالانہ بنیادوں پر مہنگائی میں 14.48 فیصد اضافہ
وزارت نے کہا کہ لوگوں کے روزگار کے تحفظ کے لیے خوراک کی مقامی منڈیوں میں ضروری اشیا کی ہموار فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کی کوششیں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں اور اگر اکتوبر میں کوئی اضافی محرکات نہیں ہوئے تو سالانہ مہنگائی میں کمی آسکتی ہے۔
مجموعی طور پر اکتوبر اور اس کے بعد کی مرکزی پیش گوئی ایک وسیع غیر یقینی کی حد کے اندر سالانہ مہنگائی میں کمی کے رجحان کی بحالی کو ظاہر کرتی ہے۔
آؤٹ لُک میں کہا گیا کہ اکتوبر میں مہنگائی کی شرح ستمبر میں مشاہدہ کی گئی سطح سے نیچے رہنے کی توقع ہے، لیکن امکان کی حد وسیع ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف سے معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں، شوکت ترین
وزارت خزانہ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ جب وفاقی کمیٹی برائے زراعت کے حالیہ اجلاس میں جائزہ لیا گیا تو سال 2021 کے لیے خریف کی بڑی فصلوں کے ابتدائی پیداواری تخمینے حوصلہ افزا تھے، ساتھ ان پُٹ کی دستیابی تسلی بخش رہے گی کیونکہ آئندہ ربیع 22-2021 کے سیزن کے لیے گندم اور دیگر فصلوں کے لیے سرٹیفائیڈ بیجوں کو یقینی بنایا جائے گا۔
چنانچہ اس کی وجہ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ کوئی بھی منفی موسمیاتی جھٹکا نہ لگنے کی صورت میں زراعت کا شعبہ اپنے 3.5 فیصد کے ہدف کو عبور کر لے گا۔
دوسری جانب بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ انڈیکس کے ذریعے پیمائش کی جانے والی صنعتی سرگرمی بیرونی حالات سے زیادہ متاثر ہوئیں۔
ایل ایس ایم سائیکل اہم تجارتی شراکت داروں میں روانی سے ریکوری کی جانب گامزن ہے لیکن چونکہ اس کا فوکس مرکزی صنعتی سیکٹر ہے، مکمل جی ڈی پی نہیں اس لیے یہ پاکستان کی اہم برآمدی منڈیوں میں جی ڈی پی کے سلسلہ وار جزو سے کچھ زیادہ غیر مستحکم ہے۔