’پاکستان کو غیر معذرت خواہانہ طریقے سے دنیا کے سامنے اپنا بیانیہ پیش کرنے کی ضرورت ہے‘
مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہا کہ پاکستان کو ’غیر معذرت خواہانہ‘ انداز سے اپنا بیانیہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد میں قومی بیانیے سے متعلق سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اس سے متعلق اپنے نقطہ نظر کا خاکہ 3 الفاظ میں پیش کیا: 'فعال غیر معذرت خواہانہ اور حقیقت پسندانہ'۔
ان کا کہنا تھا کہ ورچوئلی ہم جب بھی رابطہ کریں یہ 3 اصول ہمیں ہر اس جگہ لے جاسکتے ہیں جہاں ہم جانا چاہیں، پاکستان کے لیے شرمانے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیوں کہ ہمارے پاس کچھ چھپانے کے لیے نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان سے مذاکرات کیلئے افغان قیادت پر زور دے رہے ہیں، مشیر قومی سلامتی
ان کا مزید کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے پاکستان سے متعلق مغربی بیانیے کو اس حد تک جذب کر لیا ہے کہ اندرونی طور پر بھی یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا پاکستان کا بیانیہ درست ہے؟
مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ یہ ان کے لیے ’سر چکرانے‘ والی صورتحال ہے کیوں کہ ان کے مطابق پاکستان کے پاس یہ بتانے کے لیے ایک ’حقیقی کہانی‘ تھی کہ ملک کیا کر رہا تھا اور کس کے لیے کھڑا تھا اور اس کے لیے معذرت خواہانہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اصل میں ایک کہانی ہے جو قابل یقین، منطقی [اور] سچی ہے، جسے ہمیں دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ ہم کون ہیں اور ہم کس کے لیے کھڑے ہیں۔
ان مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے کہ جو انہوں نے شناخت کیے معید یوسف کا کہنا تھا کہ سب سے اہم چیز جس نے مجھے سب سے زیادہ پریشان کیا اور اب بھی کرتی ہے وہ ’پاکستان میں رابطے کے طریقوں میں، مقامی سے زیادہ عالمی، غیر معذرت خواہانہ طور پر اپنا نقطہ نظر پیش کرنے میں شرمانے کا عنصر ہے۔
مزید پڑھیں: افغان طالبان سے ملاقات پر بھارت کو شرم آنی چاہیے، مشیر قومی سلامتی
انہوں نے سوال کیا کہ جب پاکستان کے پاس سنانے کو کہانی ہے اور جانتا تھا کہ اسے کیسے بتانا ہے تو پھر جذباتی نہیں بلکہ زیادہ غیر معذرت خواہانہ طور پر، یہ بات چیت کیوں نہیں کی گئی کہ واضح کیا جائے کہ پاکستان فلاں فلاں کام کرنے جا رہا ہے کیونکہ یہ ہمارے اسٹریٹجک مفادات میں ہے۔
دیگر مسائل کی وضاحت کرتے ہوئے معید یوسف نے کہا کہ پاکستان جدید پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا جیسے ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے تیز رفتار اسٹریٹجک مواصلات میں دوسرے ممالک سے پیچھے تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی حد تک شاید آج بھی تعلقات عامہ کی ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں کہ پریس ریلیز [اور] چیزوں کا اپنے وقت پر جواب دینا۔
معید یوسف کے مطابق ایک اور مسئلہ ’اپنی زبان دوسروں سے بولنا اور دوسروں سے اسے سمجھنے کی توقع کرنا‘ ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہر موقع پر ہر سامعین کے سامنے ایک ہی بیانیے اور گفتگو کے نکات ہر جگہ استعمال نہیں کیے جا سکتے۔
انہوں نے کہا کہ مواد سے ہٹ کر یہ بھی اہم ہے کہ کون اسے پہنچا رہا ہے اور کس طرح پہنچا رہا ہے۔
مشیر قومی سلامتی نے ایک اور مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے سوال کیا کہ پاکستانیوں کی آواز کیوں زیادہ کیوں نہیں سنی جا رہی اور کیوں زیادہ لوگ اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں لکھ رہے یا پیش نہیں کر رہے، پاکستان کو سمجھنے والے کتنے پاکستانی اہم دارالحکومتوں میں تھنک ٹینکس میں شامل ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ باہر کے نقطہ نظر کے بجائے ملک کے مقامی اور اندرونی تناظر کو سمجھنے والے افراد کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ مغربی دنیا نے 20 سال سے پاکستان کی ایسی تصویر پیش کی ہے جیسے پاکستان افغانستان میں کسی حل کے بجائے مسئلہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ اب جو کچھ افغانستان میں ہوچکا اس کے بعد بھی اگر مغربی لوگوں سے بات کریں تو انہوں نے یہ بیانیہ اپنے لیے اتنی مرتبہ دہرالیا ہے کہ وہ اسے حقیقت مانتے ہیں اور آپ چاہے کچھ بھی کرلیں دوسرے فریق کو سمجھانا ورچوئلی نا ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے لیے سوال یہ نہیں ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا اس سے کچھ کیوں نہیں سیکھا؟ وہ زیادہ انصاف پسند کیوں نہیں؟ وہ پاکستان کے ساتھ منصفانہ کیوں نہیں؟ بلکہ مجھے جس سوال کا جواب دینا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے بہتر کیوں نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: قومی سلامتی کمیٹی کا خطے کے پیچیدہ حالات میں پرامن، مستحکم افغانستان کے عزم کا اعادہ
ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کیا ہے؟ ہمارے ملک کی حقیقت ویسی کیوں پیش نہیں کی جاتی جیسی کی جانی چاہیے؟
واشنگٹن میں سابق سفیر سے ایک ملاقات کا احوال سناتے ہوئے انہوں نے کہا میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ جب کوئی واشنگٹن سے پاکستان آکر واپس جاتا ہے تو اس کا پاکستان کے حوالے سے بیانہ مختلف ہوتا ہے۔
انہوں نے وہ بہت منفی اور حقیقت سے دور چیزیں سوچ کر آتے ہیں اور جب واپس جاتے ہیں کہتے ہیں یہ بالکل مختلف ہے، میری آنکھیں کھل گئیں۔
معید یوسف نے کہا کہ حقیقت اور تاثر کا یہ وہ فرق ہے جس سے ہم نبرد آزما ہیں۔
ہمارا قومی بیانیہ
مشیر قومی سلامتی نے قومی بیانیے پر بھی اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک واحد بیانیے کی کوشش کرنے پر یقین نہیں رکھتے، بیانیہ ہمیشہ حقیقت کا عکاس ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور دیگر ممالک کس طرح بھارت کی جانب اشارہ کرتے ہیں، اس میں فرق ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا ماڈل ہماری صحیح حقیقت کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے جبکہ ان کا ماڈل دوسروں کو بدنام کرنے کے لیے جعلی خبروں کا ایک پورا عالمی نیٹ ورک بنانا ہے۔
جب آپ برطانیہ میں اڑتے ہوئے طیاروں کو پنجشیر میں پاکستان کے طیاروں کی طرح اڑتے ہوئے دکھائیں گے تو اس کے لیے آپ کو بدنام اور شرمسار کیا جائے گا۔
بیانیے کے لیے درکار شرائط
مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ بیانیہ تخلیق کرنے کے لیے کچھ پیشگی شرائط درکار ہوتی ہیں جن میں ایک ’پوری حکومت کا یکساں مؤقف ہونا ہے‘۔
انہوں نے واضح کیا کہ آپ کا بیانیہ ایسا نہیں ہوسکتا جس میں آپ جو کچھ دنیا کو بتارہے ہوں اس کے حوالے سے فطری طور پر متضاد ہوں، بہتر تعاون کا مطلب بہتر تنائج ہیں۔
معید یوسف نے مزید کہا کہ قومی بیانیے کو اگر عوام کی حمایت نہ حاصل ہو تو اسے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
مزید پڑھیں: بھارت اب پورے خطے کے لیے خطرہ بن چکا ہے، معید یوسف
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ان اہم معاملات پر قومی مباحثے کی ضرورت ہے:
ایک اسلامی ملک کی حیثیت سے کردار
تنوع میں اتحاد
ہر ایک کے لیے انسانی فلاح
پاکستان کی جمہوری اور وفاقی نوعیت
پاکستان کا اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن کے لیے مؤقف
انہوں نے مزید کہا کہ بنیادی طور پر معیشت، قومی سلامتی اور شناخت کا ایک چارٹر — یہ تینوں قومی مکالمے ضروری ہیں تاکہ اس عوامی مکالمے کو قومی بیانیے میں لایا جاسکے۔
معید یوسف نے اس بات کو دہرایا کیا کہ پاکستان کو اپنے آپ کو اس کہانی پر قائل کرنے کی ضرورت ہے جو دنیا کو سننی ہے، ہمیں صرف یہ بات یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی طاقت کو سمجھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وقت کے ساتھ ہر ناقد کو شکست ہوگی ایک بھی ایسی چیز نہیں ہے جس سے پاکستان دنیا کو آگاہ نہ کر رہا ہو [اور] ایسی کوئی چیز نہیں جس کے بارے میں ہمیں معذرت خواہ ہونا چاہیے یا اس سے باز رہنا چاہیے۔