ادب کا نوبل انعام جیتنے والے افریقی مہاجر کی کہانی
سوئیڈش اکیڈمی نے اس سال ادب کے نوبل انعام کے حوالے سے لکھا کہ ’سال 2021ء کا ادبی نوبل انعام زنجبار میں پیدا ہونے والے اور برطانیہ میں مقیم ناول نگار عبد الرزاق گرناہ کو نوآبادیاتی اثرات اور مختلف ثقافتوں اور براعظموں کے درمیان پھنسے پناہ گزینوں کے مستقبل کے حوالے سے کام پر دیا گیا ہے‘۔
یہ انعام اب تک 118 افراد کو دیا جاچکا ہے جن میں 90 سے زیادہ افراد کا تعلق یورپ اور شمالی امریکا سے ہے۔ 72 سالہ عبد الرزاق یہ انعام جیتنے والے دوسرے ایسے فرد ہیں جن کا تعلق ذیلی صحرائی افریقہ سے ہے۔ اس سے قبل نائجیریا کے وول سوینکا (Wole Soyinka) نے 1986ء میں ادب کا نوبل انعام جیتا۔ اس سے قبل اک طویل عرصے تک نائجیریا کے ہی چینوا آچیبے (Chinua Achebe) نوبل انعام کی دوڑ میں رہے لیکن انہیں یہ انعام نہ مل سکا۔
اپنی کتابوں میں وول سوینکا، چینوا آچیبے اور عبد الرزاق گرناہ نے افریقہ سے متعلق ثقافتی معاملات کی کھوج کی ہے اور سوال اٹھایا ہے کہ لوگوں کی اچھی نیت کے باوجود خطے کے حالات اس قدر خراب کیوں ہوگئے؟ لیکن تمام لوگ اچھے نہیں تھے اور نوآبادیاتی دور سے قبل اور اس کے بعد سماجی ڈھانچے اور لوگوں کے اذہان بہت زیادہ غیر مساوی اور اکثر متشدد تھے۔
عبد الرزاق گرناہ کی زندگی اور ان کے مشرقی افریقی ملک زنجبار کی تاریخ مغربی افریقہ کی اس تاریخ سے ملتی جلتی ہی ہے جو وول سونیکا اور چینوا آچیبے نے بہت عمدہ طریقے سے لکھی ہے۔
میں یہاں ایک اور مقبول افریقی لکھاری نگوگی وا تیونگو (Ngugi wa Thiong’o) کا ذکر کرتا جاؤں جن کا تعلق کینیا سے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ان تمام لکھاریوں کو اپنی عملی زندگی کا بڑا حصہ یورپ اور امریکا میں گزارنا پڑا۔ ان میں سے صرف وول سوینکا ہی افریقہ واپس آئے۔
عبد الرزاق گرناہ 10 ناولوں کے علاوہ کئی مختصر کہانیوں اور کچھ حقیقت پر مبنی ادبی تحریروں کے مصنف ہیں۔ انہوں نے زیادہ تر اپنے ملک زنجبار کی 500 سالہ تاریخ کے بارے میں لکھا ہے۔ اس عرصے میں پرتگالی سیاحوں اور تاجروں کی آمد سے لے کر ہندوستان کے اثر و رسوخ، عرب، جرمن اور برطانوی نوآبادی رہنے کا دور بھی شامل ہے۔
1964ء کے خونی انقلاب کے بعد زنجبار برطانیہ کی زیرِ نگرانی ایک یونین میں شامل ہوگیا جسے ٹینگانیکا (Tanganyika) کہا جاتا تھا۔ بعد میں اس نئی ریاست کا نام جمہوریہ تنزانیہ ہوگیا۔ عبد الرزاق گرناہ کی طرح تنزانیہ کی موجودہ صدر سامیہ حسن کا تعلق بھی زنجبار سے ہے اور وہ تنزانیہ کی پہلی خاتون صدر ہیں۔
عبد الرزاق گرناہ کو اس وقت ملک چھوڑنا پڑا جب 1856ء سے یہاں حکومت کرنے والی عرب بادشاہت کو 1964ء کی خونی بغاوت کے نتیجے میں ختم کردیا گیا۔ اس کے بعد عرب اور جنوبی ایشیائی افراد افریقیوں کے بدلے کا نشانہ بنے۔ تاہم گرناہ کے بچپن کی اکثر یادیں اچھی ہی ہیں جن میں ایک مصروف بندرگاہ کے قریب واقع ان کا گھر بھی ہے جہاں وہ بڑے ہوئے۔ وہاں سے سمندر اور تاحدِ نگاہ آسمان کا نظارہ کیا جاسکتا تھا اور وہاں ہر طرف لوگ ہی لوگ ہوتے تھے۔
عرب اور ہندوستانی نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمان مصنف عبد الرزاق گرناہ خود کو افریقی سمجھتے ہیں۔ تاہم تمام سیاہ فام افریقی صورتحال کو اس نظر سے نہیں دیکھتے۔ عبد الرزاق کی طرح کینیا سے تعلق رکھنے والے مرحوم مورخ پروفیسر علی مزروعی بھی عرب شکل و صورت کے تھے۔ انہوں نے بھی افریقی ثقافت کے لیے بہت کام کیا ہے لیکن ہر کوئی ان دونوں افراد کو مکمل طور پر اس زمین کا بیٹا نہیں سمجھتا۔ یقینی طور پر انہیں لوگوں سے یہ سن کر افسوس ہوتا ہوگا کہ وہ افریقی نہیں ہیں۔
عبد الرزاق گرناہ 18 سال کی عمر میں برطانیہ آئے تھے۔ انہوں نے کینٹربری میں یونیورسٹی آف کینٹ سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور ریٹائرمنٹ تک اسی یونیورسٹی میں انگریزی اور مابعد نوآبادیات ادب کے پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ان کے تجربات اور خاص طور پر افریقہ سے متعلق تجربات ان کے کام پر بھی اثر انداز ہوئے اور انہوں نے کئی افراد، خاندانوں اور خاص طور پر نئے ملک میں نئی زندگی شروع کرنے والوں کو پیش آنے والے تضادات کا ذکر کیا ہے۔
اپنی کتابوں میں انہوں نے مہاجرین کی زندگیوں میں موجود بنیادی مسائل کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اگر ایسے لوگ نئی جگہ کو واقعی اپنا گھر بنا پاتے ہیں تو وہ ایسا کس طرح کرتے ہیں۔
1987ء میں شائع ہونے والے ان کے پہلے ناول ’میموری آف ڈیپارچر‘ (Memory of Departure) ایک نوجوان کے بارے میں ہے جو ایک نامعلوم افریقی ملک سے کینیا ہجرت کر جاتا ہے۔ 1994ء میں بُکر پرائز کے لیے نامزد ہونے والی ان کی کتاب ’پیراڈائز‘ (Paradise) کے مرکزی کردار کو بھی ایک امیر عرب تاجر کے ہاتھوں فروخت کردیا جاتا ہے اور یوں جب جنگِ عظیم اوّل کا خطرہ منڈلارہا ہوتا ہے تو وہ ایک چھوٹے سے گاؤں سے ایک بڑے ساحلی شہر منتقل ہوجاتا ہے۔
2001ء میں شائع ہونے والی کتاب ’بائے دی سی‘ (By the Sea) میں زنجبار کا ایک فرنیچر بیچنے والا پناہ کی تلاش میں لندن کے گیٹوک ایئرپورٹ پر اترتا ہے۔ اسی طرح 2014ء میں شائع ہونے والی کتاب ’دی لاسٹ گفٹ‘ (The Last Gift) کا کردار مشرقی افریقہ سے تعلق رکھنے والا ایک مہاجر ہوتا ہے جو ناروچ میں بستر مرگ پر موجود ہوتا ہے۔
عبد الرزاق گرناہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مہاجرین نئے علاقوں میں خالی ہاتھ نہیں آتے۔ وہ اپنے ساتھ معلومات، صلاحیت، توانائی اور امید لیے آتے ہیں جو نئے آنے والوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے لیے بھی مفید ہوتی ہیں جو شاید ہی زندگی میں اپنے گاؤں یا علاقے سے باہر گئے ہوں۔
ایک خاص انداز میں گرناہ براہِ راست موجودہ دور کے غیر حل شدہ مسائل کی سیاست کی جانب چلے جاتے ہیں، جن میں زبردستی اور اپنی مرضی سے ہونے والی ہجرت شامل ہے۔
جب صحافیوں نے نوبل پرائز دینے والے ادارے سوئیدش اکیڈمی سے سوال کیا کہ کیا اس طرح گرناہ کے ایوارڈ جیتنے کے امکانات میں اضافہ ہو ہوسکتا ہے؟ تو اس ادارے کی نوبل کمیٹی کے سربراہ آندریس آلسن نے اس سوال کا براہِ راست جواب دینے کے بجائے کہا کہ کام کی ادبی حیثیت کو دیکھا جائے گا۔ تاہم انہوں نے اس بات کو ضرور تسلیم کیا کہ اچھا ادب ایک ہی وقت میں مخصوص وقت اور مقام پر حالات حاضرہ کو بھی جگہ دے سکتا ہے اور آفاقی و لامحدود بھی ہوسکتا ہے۔
ذاتی طور پر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ عبد الرزاق گرناہ کے کام میں جن مسائل کا ذکر ہے وہ 1960ء اور 1970ء کی دہائی سے متعلق تھے۔ اس وقت ہم نوجوان تھے اور ہم نوآبادیاتی دور کے بعد ایک بہتر دنیا کی تعمیر کے لیے سماجی اور سیاسی معاملات کو بہت تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھتے تھے۔
میں کئی مرتبہ تنزانیہ کا دورہ کرچکا ہوں اور طالب علم، یونیورسٹی کے استاد اور سفارت کار کے طور پر وہاں طویل قیام بھی کر چکا ہوں۔ یہ وہ دور تھا جب تنزانیہ میں سوشلسٹ ترقی کی ایک نئی قسم اُجامہ کا تجربہ کیا جارہا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہمیں اکثر احساس ہوتا تھا کہ اس ملک میں ترقی رک چکی ہے اور یہاں اس حوالے سے کوئی بحث بھی نہیں کی جارہی ہے۔ خاص طور پر زنجبار کے حوالے سے تو یہ بات بالکل درست محسوس ہوتی تھی۔
زنجبار میں ترقی کرنے کی صلاحیت ہونے کے باوجود وہ ایک چھوٹی جگہ تھی اور کسی ایسی متنوع جگہ سے بہت دُور تھی جس کا ذکر عبد الرزاق گرناہ نے اپنے آبائی علاقے کی تاریخ میں کیا تھا۔ لیکن پھر عبد الرزاق ادبی نوبل انعام جیت گئے۔ واضح رہے کہ یہ انعام تاریخ یا سماجی علوم میں نہیں تھا کیونکہ نوبل انعام میں یہ شعبے موجود ہی نہیں ہے
عبد الرزاق گرناہ بہت سادہ اور آسان زبان کا استعمال کرتے ہیں جس میں کبھی کبھی ان کی مادری زبان سواہلی کا اثر بھی دیکھا جاسکتا ہے، بعض اوقات اس میں کچھ مذاق بھی شامل ہوتا ہے۔
عبدالرزاق گرناہ کے لیے انعام کا اعلان ہوا تو آندریس آلسن نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عالمگیریت سے بہت پہلے بھی زنجبار ایک متنوع خطہ تھا۔ اگر زبان کے حوالے سے دیکھا جائے تو شاید یہ بات درست بھی ہو۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ 30 فیصد سواہلی زبان عربی ماخذات پر مشتمل ہے، اس میں پرتگالی، ہندی اور اردو کے بھی کاگی الفاظ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں افریقی بانتو اور نلوٹک زبان کے الفاظ بھی شامل ہیں۔
یہاں میں عبد الرزاق اور دیگر ایسے لکھاریوں کے کام میں زبان کے مسئلے پر توجہ دلوانا چاہوں گا جو انگریزی میں تو لکھتے ہیں لیکن ان کی مادری زبان انگریزی نہیں ہوتی۔ یہ افراد اپنے ممالک پر قبضہ کرنے والوں کی زبان میں لکھتے ہیں اور ساتھ ہی ان پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ نگوگی وا تیونگو نے کیکویو زبان میں کام کیا ہے، عبد الرزاق بھی اگر اپنے آبائی علاقے میں رہتے تو شاید سواہلی میں ہی لکھتے۔ وول سوینکا اور چینوا آچیبے بھی اگر کینیا میں ہی رہتے تو شاید یوروبا اور اگبو میں ہی لکھتے۔ لیکن پھر یہ بات بھی ہے کہ عبد الرزاق گرناہ اور دیگر اس انگریزی تعلیم کی ہی تو پیداوار ہیں۔ اور پھر عبد الرزاق نے لکھنا ہی برطانیہ ہجرت کے بعد شروع کیا۔ یوں انگریزی زبان بھی ان کے لیے مادری زبان سے قریب تر ہی ہے۔
پاکستان میں بھی کئی نامور مصنفین موجود ہیں جو انگریزی زبان میں لکھتے ہیں اور اپنی انگریزی اور اس پس منظر پر فخر بھی کرتے ہیں اور وہ کچھ غلط بھی نہیں کرتے۔ یہ معاملات براہِ راست ثقافتی تبدیلی اور شناخت کے مسائل سے جڑے ہیں۔ یعنی ہم کیا ہیں اور ہمیں کیا ہونا چاہیے اور یہ بھی کہ لکھاری اپنے کام کے ذریعے کن لوگوں تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ سے زیادہ کتابوں کا ایسی زبانوں میں ترجمہ ہونا چاہیے جن زبانوں میں لوگ انہیں آسانی سے پڑھ سکیں۔
’پیراڈائز‘ اور ’دی لاسٹ گفٹ‘ کا پہلے ہی سوئیڈش زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے جنہیں ایک چھوٹے ناشر، سیلینڈرز فلاگ (Celanders Förlag) نے شائع کیا ہے۔ عبد الرزاق کے نوبل انعام جیتنے کے بعد ممکن ہے کہ اس ادارے کو اب مالی فائدہ پہنچے بشرطیہ کہ کوئی بڑا ادارہ نوبل انعام جیتنے والے عبد الرزاق کی اب تک نامعلوم کتابوں سے پیسہ نہ کمالے۔
یہ مضمون 24 اکتوبر کو ڈان بکس اینڈ آتھرز میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں