کے-الیکٹرک کا ستمبر کیلئے 3 روپے 45 پیسے فی یونٹ اضافی لاگت کا مطالبہ
اسلام آباد: کے الیکٹرک کی جانب سے ماہ ستمبر کے لیے صارفین سے 3 روپے 45 پیسے وصول کرنے کے مطالبے پر نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے مہنگے درآمدی ایندھن کی زیادہ مانگ کے باعث موسم سرما کے سستے ٹیرف کی صورت میں ہنگامی صورتحال کے بارے میں سوال کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیئرمین نیپرا توصیف ایچ فاروقی کی صدارت میں ہونے والی عوامی سماعت میں ریگولیٹر نے یہ سوالات بھی اٹھائے کہ طلب میں اضافے کے فروغ کے لیے 12 روپے 96 پیسے فی یونٹ کی تین سال پرانی شرح کیوں پیش کی جا رہی ہے جبکہ بجلی کی اصل لاگت اور اس کے مختلف اجزا بشمول مختلف ایندھن کے اخراجات میں بے پناہ تبدیلی آچکی ہے۔
ریگولیٹر نے کے-الیکٹرک کی پٹیشن باضابطہ عوامی سماعت کے لیے 3 نومبر کو مقرر کردی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی کے شہری اگست میں استعمال شدہ بجلی کے 94 کروڑ 30 روپے اضافی ادا کریں گے
کے الیکٹرک کا کہنا تھا کہ تمام ذرائع سے حاصل ہونے والے ایندھن کی قیمت ریفرنس ٹیرف سے نمایاں طور پر زیادہ ہے اس لیے اسے آئندہ بلنگ ماہ میں 6 ارب 63 کروڑ 90 لاکھ روپے اضافی ریونیو حاصل کرنے کے لیے 3 روپے 54 پیسے ایندھن کی اضافی لاگت وصول کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
نیپرا نے وفاقی حکومت کی 2 درخواستوں پر سماعت کی جو ملک بھر میں نومبر سے فروری تک گھریلو، تجارتی اور عمومی خدمات کے بجلی کے صارفین کو بڑھتی ہوئی کھپت پر سرمائی ترغیبی پیکج فراہم کرنا اور ڈسکو کی طرز پر اکتوبر 2023 تک کے ای کے صنعتی صارفین کے لیے اسی طرح کے پیکج کی توسیع سے متعلق ہیں، ریگولیٹر نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
جب ریگولیٹر کے اعلیٰ حکام نے سوالات اٹھائے کہ کیا سرمائی ٹیرف پیکج اور اس سے متعلق مالیاتی سیٹلمنٹ کے میکانزم پر کافی سوچ بچار کی گئی تھی تو یہ بظاہر بجلی کی کھپت کی حوصلہ افزائی کے حکومتی اقدام کی حمایت کے لیے کے-الیکٹرک انتظامیہ کو ترغیبی پیکج کا حصہ بننے پر آمادہ کرتا دکھائی دیا کیوں کہ کے الیکٹرک نے اصرار کیا کہ اس کے اپنے توسیعی منصوبوں اور طلب میں اضافے کی وجہ سے اس کی کھپت بڑھے گی۔
مزید پڑھیں:موسم سرما میں بجلی کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے یکساں رعایتی ٹیرف منظور
چیئرمین نیپرا نے سوال کیا کہ کیا یہ پیکیج تصفیے کو ڈراؤنا خواب نہیں بنائے گا؟ جبکہ وہ خود بھی غیر یقینی کا شکار تھے کہ اگر ملک میں گیس کی قلت ہوئی تو کمپنیز کس طرح بجلی کی زیادہ طلب کو پورا کریں گی جبکہ سردیوں میں پانی کی دستیابی بھی کم ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایسی صورتحال نہیں ہونی چاہیے کہ جہاں ہمیں طلب میں اضافہ ملے لیکن ہمارے پاس بجلی نہ ہو اور اس سے بھی بڑا بحران پیدا ہوجائے‘۔
جس پر حکومتی ٹیم نے کہا کہ سال 2020-2019 میں اسی طرح کے پیکج سے گھریلو، تجارتی کھپت میں 16 سے 18 فیصد اضافہ ہوا تھا جس کی بنیاد پر حکومت رواں برس اسی پیکج پر واپس آئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈسکوز کی ستمبر کیلئے فیول چارجز میں 53 فیصد اضافے کی درخواست
اس حوالے سے بتایا گیا کہ گیس کی قیمتوں کے لیے بجلی کا لوڈ منتقل کرنے سے متعلق بھی ایسا ہی اقدام زیر غور ہے جو صارفین کو 2-3 سال میں لاگت کی وصولی کے ساتھ نئے حرارتی سامان حاصل کرنے میں مدد دے گا۔
کے الیکٹرک نے اصرار کیا کہ اس کی اصل مارجنل لاگت اور خصوصی ترغیبی ٹیرف میں بہت بڑا فرق ہے جس کے نتیجے میں زیادہ سبسڈی کی ضرورت ہوگی۔
کے ای کے چیف فنانشل آفیسر نے پینل کو بتایا کہ اس کے کثیر سالہ ٹیرف (ایم وائی ٹی) میں میکرو اکنامک کنڈیشنز اور جی ڈی پی گروتھ ریٹ کی صورت میں پہلے ہی اس کی طلب میں اضافہ شمار کیا گیا ہے اور نیپرا کو ایم وائی ٹی میں ایڈجسٹمنٹ کی اجازت دینی چاہیے۔