نور مقدم قتل کیس میں باقاعدہ کارروائی کا آغاز، پہلے گواہ کا بیان قلمبند
اسلام آباد کی سیشن کورٹ میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے جہاں پہلے باضابطہ گواہ پولیس سب انسپکٹر نے اپنا بیان قلمبند کرا دیا ہے۔
سماعت کے دوران عدالت نے قتل کے مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کے لیے سرکاری وکیل کا بھی تقرر کیا اور ان کی نمائندگی شہریار خان کریں گے۔
مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کی والدہ کی درخواست ضمانت منظور
ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے سماعت کی جس کے دوران ظاہر اور اس کے والد ذاکر جعفر سمیت پانچ گرفتار ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا، ظاہر کی والدہ عصمت آدم جی اور تھراپی ورکس کے چھ ملازمین سمیت ضمانت پر رہا تمام ملزمان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
نور مقدم کے خاندان کے وکیل شاہ خاور نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عدالت میں تین رسمی گواہ موجود ہیں جن میں شکایت کنندہ کی درخواست دینے والے عابد لطیف ہیں، پہلی ایف آئی آر درج کرنے والے سب انسپکٹر محمد رضا ہیں اور انگلیوں کے نشانات اکٹھے کرنے والے بشارت شامل ہیں۔
حلف اٹھانے کے بعد سب انسپکٹر محمد رضا کی گواہی ریکارڈ کی گئی اور بعد میں ملزم کے وکیل نے ان سے جرح کی۔
سماعت کے دوران مرکزی ملزم ظاہر مسلسل بولتے رہے اور عدالتی کارروائی میں خلل ڈالتے رہے تاہم عدالتی احکامات پر پولیس حکام نے انہیں خاموش کرایا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: استغاثہ کو عصمت ذاکر کی حد تک شواہد پیش کرنے کی ہدایت
پولیس اہلکار کی گواہی مکمل ہونے کے بعد عدالت نے مزید پانچ گواہوں بشارت، لطیف، نقشہ ساز عامر شہزاد، کمپیوٹر آپریٹر مدثر اور اقصیٰ رانی کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔
دریں اثنا آدم جی کے وکیل اسد جمال نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے لیکن ان کے نام پر رجسٹرڈ مکان کو حکام نے سیل کر دیا ہے۔
جج نے ملزم کی والدہ سے پوچھا کہ آپ کو گھر جانے سے کس نے روکا ہے جس انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسر نے ہدایت کی تھی۔
انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ آپ تفتیشی آفیسر کو حکم دے دیں کہ مجھے گھر میں رہنے تاکہ بعد میں کوئی الزام نہ لگ جائے۔
کیس کی سماعت 27 اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔
نور مقدم قتل کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔
ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس کے تحت ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
بعدازاں عدالت میں پیش کردہ پولیس چالان میں کہا گیا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کے باعث نور مقدم نے جان بچانے کی 6 کوششیں کی جو ناکام رہیں۔
وقوعہ کے روز 20 جولائی کو ظاہر جعفر نے کراچی میں موجود اپنے والد سے 4 مرتبہ فون پر رابطہ کیا اور اس کے والد بھی اس گھر کی صورتحال اور غیر قانونی قید سے واقف تھے۔
یہ بھی پڑھیں: نور مقدم نے جان بچانے کیلئے 6 مرتبہ فرار ہونے کی کوشش کی، پولیس
چالان میں کہا گیا کہ نور کی جانب سے ظاہر سے شادی کرنے سے انکار پر 20 جولائی کو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد مبینہ قاتل نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، چالان میں ملزم کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں اس نے قتل کا اعتراف کیا۔
ملزم نے بتایا کہ نور نے اس کی شادی کی پیشکش مسترد کردی تھی جس پر اس نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، جبری قید پر وہ انتہائی غصے میں آگئیں اور ظاہر کو نتائج سےخبردار کیا۔
مقتولہ نے ظاہر کو دھمکی دی کہ پولیس میں جا کر اس کے خلاف شکایت درج کروائیں گی، بیان کے مطابق ملزم نے اپنے والدین کو واقعے سے آگاہ کیا اور ملازمین کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیں نہ نور کو گھر سے باہر جانے دیں۔
چالان میں کہا گیا کہ نور کمرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور گھر کے مرکزی دروازے کی طرف بھاگیں لیکن سیکیورٹی گارڈ افتخار نے انہیں باہر نہیں جانے دیا، یہ وہ موقع تھا جب ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔
مزید پڑھیں: نور مقدم کیس: تھراپی ورکس کے مالک کی ظاہر جعفر کے خلاف اندراجِ مقدمہ کی درخواست
کال ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے چالان میں کہا گیا کہ نور کو قتل کرنے سے قبل ظاہر نے دوپہر 2 بج کر 21 منٹ، 3 بجے، 6 بج کر 35 منٹ اور شام 7 بج کر 29 منٹ پر اپنے والدین سے رابطہ کیا۔
دوسری جانب شوکت مقدم کی درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ان کے پوچھنے پر ظاہر جعفر نے کال کر کے بتایا کہ نور اس کے ساتھ موجود نہیں۔
تاہم 20 جولائی کو رات 10 بجے انہیں کوہسار پولیس اسٹیشن سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی قتل ہوگئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب میں اس گھر پہنچا تو اپنی بیٹی کی گلا کٹی لاش دیکھی جس کے بعد پولیس میں شکایت درج کروائی‘۔
25 جولائی کو پولیس نے نور مقدم کے قتل کے مشتبہ ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کیا تھا جنہیں بعد میں عدالت نے جیل بھیج دیا تھا۔
اس کے علاوہ اس کیس میں تھراپی ورکس کے مالک اور ملازمین بھی گرفتار ہوئے جنہیں عدالت نے 23 اگست کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
مقامی عدالت سے ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن 29 ستمبر کو ہائی کورٹ نے بھی ملزم کے والدین کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی تھی۔
جس پر انہوں نے 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔