شادی شدہ خواتین کو شناختی کارڈ پر والد یا شوہر کا نام رکھنے کا اختیار مل گیا
اسلام آباد: نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے چیئرمین طارق ملک نے اعلان کیا ہے کہ اب شادی شدہ خواتین کو شناختی کارڈ پر اپنے والد یا شوہر میں سے کسی ایک کا نام رکھنے کا اختیار حاصل ہوگا۔
دیہی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر چیئرمین نادرا طارق ملک نے کھُلی کچہری کا انعقاد کیا جس میں صرف خواتین کے شناختی کارڈ کی رجسٹریشن سے متعلق مسائل سنے اور انہیں حل کرنے کے احکامات جاری کیے۔
انہوں نے 14ویں سالانہ دیہی خواتین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پالیسی ختم کردی ہے اور اب خواتین کے پاس اختیار ہو گا کہ وہ شناختی کارڈ پر شوہر کا نام رکھتی ہیں یا والد کا۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل نادرا میں خواتین کی رجسٹریشن کے لیے ایسا کوئی قانون موجود نہیں تھا کہ شادی شدہ ہونے کی صورت میں شوہر کا نام لکھوانا لازمی ہو لیکن غیر اعلانیہ طور پر اس پالیسی پر عمل درآمد جاری تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نادرا نے شناختی کارڈ کی تجدید کیلئے آن لائن نظام متعارف کروادیا
تاہم انہوں نے اعلان کیا کہ اس غیر اعلانیہ پالیسی کو ختم کردیا گیا ہے جس کے بعد خواتین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ چاہیں تو اپنے خاندانی نام، والد کے نام یا شوہر کے نام کے ساتھ رجسٹریشن کروائیں، یہ ان کی مرضی ہے کسی مرد کی مرضی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب کریک ڈاؤن کیا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ کون اس پالیسی پر عمل نہیں کررہا۔
ڈان نیوز ٹی وی سے بات کرتے ہوئے نادرا کے عہدیدار نے بتایا کہ اس سے قبل نکاح کے اندراج اور ازدواجی حیثیت کی تبدیلی کے بعد ایک نیا خاندان شروع ہونے کی وجہ سے شادی شدہ خواتین کے شناختی کارڈ پر ولدیت کے بجائے شوہر کا نام لکھا جاتا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اب خواتین کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ ازدواجی حیثیت تبدیل ہونے کے بعد بھی اپنے شناختی کارڈ پر والد کا نام برقرار رکھ سکیں۔
نادرا سے جاری بیان کے مطابق چیئرمین طارق ملک نے کہا کہ مستقبل میں وہ خواتین جو شناختی کارڈ پر اپنے والد کا نام رکھنا چاہتی ہیں وہ صرف 100 روپے فیس میں اپنی ازدواجی حیثیت میں ترمیم کروا سکیں گی۔
مزید پڑھیں: نادرا کی جانب سے شہریوں کو ویکسینیشن سرٹیفکیٹ نہ ملنے کی شکایات
کھلی کچہری سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نادرا نے کہا کہ پاکستانی آبادی کا بڑا حصہ دیہی علاقوں میں آباد ہے اور وہاں خواتین کو ملازمت اور مزدوری کے لیے شناخت کا نہ ہونا، غیر مساوی اجرت، سماجی و معاشرتی حقوق اور مالیاتی خدمات (سروسز) تک رسائی کے فقدان جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے گزشتہ دور میں نادرا میں مردوں کی 65 فیصد رجسٹریشن کے مقابلے میں خواتین کی رجسٹریشن میں 104 فیصد اضافہ کیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نادرا کی خواتین رجسٹریشن کی آگاہی مہم اتنی مؤثر رہی ہے کہ نادرا کا خواتین عملے پر مبنی پہلا سینٹر مردان میں قائم کیا گیا تو تین ہزار خواتین اس سینٹر پر قلیل عرصے میں رجسٹرڈ کی گئیں۔
چیئرمین نادرا نے بتایا کہ سال 2017 سے رجسٹریشن میں صنفی فرق کو 19 فیصد سے گھٹا کر 10 فیصد کیا جاچکا ہے اور خواتین کی رجسٹریشن کو بڑھانے کے لیے مختص ایک نیا انکلیوزیو ڈپارٹمنٹ قائم کیا گیا جس کی سربراہ ایک خاتون ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نادرا میں تصحیح، تصدیق اور تجدید کا نیا نظام لارہے ہیں، وزیر داخلہ
انہوں نے کہا کہ خواتین کی رجسٹریشن کو بڑھانے کے لیے موبائل رجسٹریشن وین کے ساتھ خواتین عملے پر مبنی مخصوص 18 رجسٹریشن سینٹرز قائم کیے گئے ہیں اور ملک بھر میں خاص طور پر پسماندہ علاقوں میں خواتین رجسٹریشن کی آسانی کے لیے 264 موبائل وین مختص کی گئی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین کی رجسٹریشن بڑھانے کے لیے جمعہ کو خواتین کا دن رکھا گیا ہے جبکہ ضلعی سطح پر خواتین کی رجسٹریشن بڑھانے کے لیے 258 سینٹرز ہفتہ کے دن بھی کھلے رہیں گے تاکہ گھر کے مرد کے ساتھ جاکر آسانی سے رجسٹریشن کروا سکیں۔
طارق ملک کا کہنا تھا کہ کووڈ نے خواتین کو سب سے زیادہ متاثر کیا، مائیکرو فنانس اور فنٹیک سروسز مثلاً جاز کیش، ایزی پیسہ جیسی سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے لیے قانونی شناخت لازمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری نئی پاک آئی ڈی ایپ کی بدولت بائیومیٹرک تصدیق اب موبائل کے ذریعے ممکن ہے جس کے ذریعے ہم نےبرانچ لیس بینکنگ اور مالی شمولیت کو فروغ دیا۔