گوانتاناموبے سے مزید 2 قیدیوں کی رہائی کی منظوری
امریکا کی بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘ میں موجود 39 میں سے 2 قیدیوں کی رہائی کی منظوری دے دی گئی ہے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق انٹراجنسی پیریڈک ریویو بورڈ نے یمنی اور افغان قیدی کی سیکیورٹی انتظامات کے ساتھ منتقلی کی توثیق کردی ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستانی شہری سمیت 10 افراد گوانتاناموبے سے رہائی کے منتظر
تاہم امریکی حکام کی جانب سے نہیں بتایا گیا کہ افغان قیدی اسد اللہ نور گل کو کہا بھیجا جائے گا۔
اسد اللہ نور گل 2007 سے امریکی جیل گوانتاناموبے میں قید تھا۔
اس ضمن میں اُمید ظاہر کی گئی کہ افغان قیدی کی افغانستان میں منتقلی سے قبل طالبان سے معاہدہ درکار ہوگا۔
بورڈ نے کہا کہ یمنی قیدی اسلام الکاظمی کو خلیج فارس کے ایک ملک عمان میں منتقل کیا جائے گا جہاں وہ بحالی کے پروگرام کا حصہ بنے گے جو سابق امریکی صدر اوباما انتظامیہ کے دوران قائم کیا گیا تھا۔
بورڈ نے 7 اکتوبر کو اسلام الکاظمی کی منتقلی کی منظوری دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: گوانتانامو جیل سے 4 قیدیوں کی سعودی عرب منتقلی
قیدیوں کی رہائی کی منظوری کا فیصلہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب چند ہفتے قبل قیدیوں کی منتقلی سے متعلق امور کی نگرانی کرنے والے محکمہ خارجہ کے اہلکار جان ٹی گاڈفری نے عمان، متحدہ عرب امارات اور لندن کا دورہ کیا۔
اسلام الکاظمی کو دبئی سے جنوری 2003 میں گرفتار کیا گیا اور ان پر اسامہ بن لادن کے سیکیورٹی گارڈ ہونے کا الزام تھا۔
دوسری جانب اسلام الکاظمی کے وکیل نے بتایا کہ وہ ’اچھی حالت‘ میں ہیں اور منتقلی کے تمام مراحل کو جلد از جلد مکمل کیے جانے کا امکان ہے۔
علاوہ ازیں گوانتاناموبے کی جیل میں 39 جنگی قیدیوں میں سے 12 کی رہائی کی منظوری کا امکان ظاہر کیا گیا۔
تاہم اس حوالے سے کہا گیا کہ امریکا کی جانب سے 12 قیدیوں کو ان کے ممالک میں بیرون ملک روانگی سے متعلق پابندی کے نفاذ کے بعد مذکورہ رہائی کی منظوری دے دی جائے گی۔
مزید پڑھیں: 20 سال سے گوانتاناموبے میں قید پاکستانی کی دہائی
مزید 12 قیدی، فوجی کمیشن کی کارروائیوں میں ہیں جن میں سے 6 پر بڑے مقدمات ہیں۔
دیگر 15 قیدیوں کو ’جنگ کا قانون‘ کے تحت قیدیوں کے طور پر رکھا گیا ہے جو ہمیشہ کے لیے قیدی رہیں گے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے منصب سنبھالنے کے وقت اس جیل میں 40 قیدی موجود تھے اور جولائی 2021 کو مراکش کے ایک قیدی کی رہائی کے بعد قیدیوں کی تعداد کم ہو کر 39 رہ گئی تھی۔
گوانتاناموبے جیل کا معاملہ کیا ہے؟
خیال رہے کہ نیویارک میں 11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے کے بعد ریپبلکن پارٹی کے رہنما اور سابق امریکی صدر جارج بش نے کیوبا کے جزیرے گوانتانامو بے میں یہ جیل بنوائی تھی۔
سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق گوانتاناموبے میں 2001 کے بعد 40 ممالک کے 750 افراد کو قیدی بنایا گیا تھا۔
ان قیدیوں کو انتہائی خطرناک قرار دے کر کسی بھی قسم کی قانونی مدد کے بغیر گوانتاناموبے میں ہمیشہ کے لیے قید کیا گیا تھا اور یہاں ان کے ساتھ انتہائی انسانیت سوز رویہ اختیار کیا گیا۔
2008 میں ڈیموکریٹک پارٹی کے براک اوباما امریکا کے صدر بنے تو انہوں نے یہ عقوبت خانہ بند کرنے کا اعلان کیا، اوباما کا کہنا تھا کہ گوانتانامو بے پر سالانہ 15 کروڑ امریکی ڈالر خرچ ہو رہے ہیں لہذا اس کو بند کرکے اس رقم کی بچت کی جا سکتی ہے۔
لیکن 2016 میں صورتحال یکسر بدل گئی اور ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مہم کے دوران ہی نہ صرف گوانتانامو بے کو جاری رکھنے کا اعلان کیا بلکہ اس میں مزید افراد کو قید کرنے کا بھی عندیہ دیا۔
بعدازاں صدارت سنبھالنے کے بعد ایک حکم نامے کے تحت انہوں نے سابقہ امریکی صدر براک اوباما کے احکامات کو بھی معطل کردیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر ’ڈینی ایواتار‘ نے اس معاملے پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کی تاریخ، غیر قانونی حراست اور انصاف کی فراہمی میں بے قاعدگی کے باعث گوانتانامو بے میں کسی نئے قیدی کو منتقل نہیں کیا جانا چاہیے۔
خیال رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جیمس میٹیس اور دیگر ایجنسیوں کے سربراہان کو 90 دن میں جنگی قیدیوں کی گوانتانامو بے منتقلی کے حوالے سے اپنی سفارشات مرتب کرکے پیش کرنے کا کہا گیا تھا۔
اس سلسلے میں امریکی حکام کا کہنا تھا کہ شام میں موجود امریکی اتحادیوں کی جانب سے قید داعش کے کارندوں کو ممکنہ طور پر اس جیل میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔
پنٹاگون چیف نے اس بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ مجھے پورا یقین ہے کہ گوانتانامو بے میں ایک بھی قیدی کے ساتھ جینیوا کنوینشن کی قرارداد کے خلاف کسی قسم کا سلوک نہیں کیا جائے گا۔