نیب کے دفاتر کو وائٹ کالر کرائم کیسز پر کارروائی سے روک دیا گیا
اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے اپنے تمام علاقائی بیوروز کو لکھا ہے کہ وہ تمام وائٹ کالر کرائم کیسز پر کارروائی کو اس وقت تک کے لیے روک دیں جب تک کہ وزارت قانون نئے جاری کردہ نیب (دوسری ترمیم) آرڈیننس 2021 کی چند اہم شقوں کی تشریح یا وضاحت نہ کرے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 12 اکتوبر کو لکھے گئے خط میں نیب کے تمام علاقائی سربراہان سے کہا گیا ہے کہ وہ اس معاملے پر اپنی رائے دیں۔
خط میں کہا گیا کہ ’قومی احتساب (دوسری ترمیمی) آرڈیننس 2021 مورخہ 6 اکتوبر 2021 کے نفاذ کے نتیجے میں نیب ہیڈکوارٹرز، وزارت قانون و انصاف سے رہنمائی طلب کر رہا ہے اس لیے تمام امور کے فیصلے کو وزارت قانون و انصاف سے مشورہ ملنے تک معطل رکھا جائے گا‘۔
مزید پڑھیں: نیب کے ڈائریکٹر جنرل کو بیورو کا نائب چیئرمین مقرر کردیا گیا
نیب نے کہا کہ ’علاقائی بیوروز سے درخواست کی جاتی ہے کہ اگر اس موضوع پر کوئی تبصرہ/ان پُٹ ہو تو جلد از جلد فراہم کریں‘۔
آرڈیننس کے تحت نیب کے زیر تفتیش بہت سے مقدمات کو دیگر متعلقہ فورمز اور عدالتوں کو بھیجنا ہوگا اور اس کی وجہ سے علاقائی بیوروز نے ملزمان سے ان کے مقدمات نیب سے دوسرے فورمز پر منتقل کرنے کے حوالے سے درخواستیں وصول کرنا شروع کردی ہیں‘۔
آرڈیننس کی پیروی کرتے ہوئے احتساب عدالت اسلام آباد نے ایک کیس سیشن کورٹ کے حوالے کیا۔
خیال رہے کہ 6 اکتوبر کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت قومی احتساب (ترمیم 2) آرڈیننس (این اے او) 2021 کا اجرا کیا تھا۔
مذکورہ آرڈیننس کے تحت آرڈیننس 1999 کے سیکشن 4 میں ترمیم کی گئی ہے۔
آرڈیننس کے مطابق اس کا اطلاق وفاقی، صوبائی اور مقامی ٹیکسز/لیویز کے معاملات اور وفاقی اور صوبائی کابینہ کے فیصلوں پر نہیں ہوگا جبکہ کمیٹیاں اور ذیلی کمیٹیاں قانون کے دائرہ کار میں نہیں آئیں گی۔
یہ آرڈیننس مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی)، نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی)، قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک)، سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے فیصلوں پر لاگو نہیں ہوگا۔
اس کے علاوہ 1999 کے آرڈیننس کے سیکشن 5 میں بھی ترمیم کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: نیب کا نئے احتساب آرڈیننس کو نافذ کرنے کا عزم
نئے آرڈیننس کے تحت صدر مملکت، چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) کی مشاورت سے احتساب عدالتیں قائم کریں گے۔
احتساب عدالت کے جج کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے نامزد کیا جائے گا جن کی عمر 68 سال سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور ان کا تقرر تین سال کی مدت کے لیے کیا جائے گا۔
صدر کو اختیار ہوگا کہ وہ احتساب عدالت کے جج کو دوبارہ چیف جسٹس کی مشاورت سے ہٹائے۔
آرڈیننس 1999 کے سیکشن 6 میں بھی ترمیم کی گئی جس کے تحت صدر، وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے چیئرمین نیب کا تقرر کریں گے۔
اگر کسی نئے چیئرمین نیب کے تقرر پر اتفاق رائے نہ ہو تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جائے گا۔
اس صورت میں قومی اسمبلی کے اسپیکر ایک کمیٹی تشکیل دیں گے جس میں حکومت اور اپوزیشن بینچز کی برابر نمائندگی ہوگی۔
آرڈیننس کے مطابق چیئرمین نیب کے عہدے کی مدت چار سال ہوگی۔
آرڈیننس میں مزید کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 209 کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز کو ہٹانے کا طریقہ کار چیئرمین نیب پر لاگو ہوگا۔
اس کے علاوہ بیورو کے سربراہ کو نئی ترمیم کے تحت اپنی مدت پوری ہونے کے بعد مزید چار سال کے لیے مقرر کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ (سبکدوش ہونے والے) چیئرمین اس وقت تک اپنے فرائض انجام دیں گے جب تک کہ دوسرا چیئرمین مقرر نہیں ہوتا۔
نئی ترمیم کے ذریعے سیکشن 31 ڈی ڈی کو بھی شامل کیا گیا جس کے تحت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کی منظوری کے بغیر بینک یا مالیاتی ادارے کے کسی بھی بورڈ کے خلاف کوئی کارروائی/تحقیقات نہیں ہو سکتی۔