پاکستان کی اہم ترین خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی تعیناتی کا عمل کیا ہے؟
پاک فوج کی اعلیٰ سطح پر تبدیلی عام طور پر انتہائی بحث طلب ہوتی ہے اور اس حوالے سے سیاسی حلقوں کی جانب سے دعوے بھی سامنے آتے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی بطور ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) حالیہ تعیناتی مختلف انداز میں توجہ کا مرکز بن گئی اور اس کے نتیجے میں سول اور عسکری قیادت کے درمیان تعلقات کے حوالے سے سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔
مزید پڑھیں: ھیں: لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نئے ڈی جی آئی ایس آئی تعینات
یہ معاملہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب پاکستان کو ایک نازک صورت حال کا سامنا ہے جیسے کہ ملک اپنے ہمسایہ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد سامنے آنے والے معاملات سے نمٹنے اور خطے میں ہونے والی پیش رفت کےمطابق اقدامات کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
حکومت نے کئی دن گزر جانے کے بعد تاحال آئی ایس آئی کی تعینات کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا۔
وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کو بتایا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کچھ عرصے کے لیے بطور آئی ایس آئی سربراہ اپنا کام جاری رکھیں کیونکہ افغانستان میں سنجیدہ صورت حال کا سامنا ہے۔
ملک میں پیدا ہونے والی صورت حال نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے حوالے سے حتمی رائے کس کی ہوتی ہے؟ آئی ایس آئی کس کو جواب دہ ہے؟ کیا آئی ایس آئی کا سربراہ ایک سویلین ہوسکتا ہے؟
آئی ایس آئی سربراہ کی تعیناتی کا عمل کیا ہے؟
ڈان ڈاٹ کام سے بات کرنے والے تجزیہ کاروں کا موقف اس معاملے پر واضح تھا کہ آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی باقاعدہ عمل نہیں ہے، کم ازکم سرکاری سطح پر ایسا کچھ نہیں ہے۔
اسلام آباد میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر فہد حسین کا کہنا تھا کہ ہمیں باقاعدہ نظام کے حوالے سے جو معلومات ملی ہیں وہ پی ٹی آئی کے رہنما عامر ڈوگر کا بیان ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نوٹیفکیشن میں تاخیر: آئی ایس آئی سربراہ سے متعلق اجلاس جلد ہونے کا امکان
عامر ڈوگر نے ڈان کو گزشتہ روز وضاحت کی تھی کہ وزیراعظم کو تین ناموں کی سمری بھیج دی جائے گی اور ان میں سے جو مناسب ہوگا اس کا انتخاب کیا جائے گا۔
فہد حسین نے کہا کہ ‘یہ روایتی معلومات ہیں کہ آئی ایس آئی کا سربراہ وزیراعظم کو رپورٹ کرتا ہے اور انتظامی حکم کے ذریعے تعینات ہوتا اور آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کی صوابدید ہے’۔
ڈان کے سینئر رپورٹرباقر سجادکا کہنا تھا کہ اس حوالے سے باقاعدہ کوئی قواعد نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘قاعدہ یہ ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف اس عہدے کے لیے ناموں کے حوالے سے وزیراعظم سے مشاورت کرتے ہیں اور وہ تجویز کرتے ہیں کہ اس عہدے کے لیے بہتر امیدوار کون ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جب دونوں کے درمیان اتفاق رائے ہو تو وزیر دفاع آئی ایس آئی کے چیف کی تعیناتی کے لیے ناموں ایک سمری وزیراعظم کو بھیجتا ہے’۔
تجزیہ نگار زاہد حسین کا کہنا تھا کہ اختیارات کی منتقلی یا آئی ایس آئی چیف کے عہدے پر تعیناتی آرمی چیف کرتا ہے، عام مشق ہے کہ انٹیلی جنس سربراہ کی تعیناتی وزیراعظم کرتے ہیں کیونکہ ادارہ وزیراعظم کو رپورٹ کرتا ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جب وزیراعظم فیصلہ کرتا ہے کہ خفیہ ایجنسی کا سربراہ کون ہوگا تو یہ آرمی چیف کا اختیار ہوتا ہے کہ کب ایک عہدیدار کا تبادلہ کیا جائے اور ایک عہدہ دیا جائے۔
مزید پڑھیں: ’ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی وزیراعظم کا اختیار ہے، قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے‘
زاہد حسین کا کہنا تھا کہ ‘جنرل فیض کے تبادلے کا فیصلہ قواعد کے مطابق تھا لیکن وزیراعظم کا فیض کو چیف رکھنے کے لیے اصرار درست نہیں تھا’۔
کیا ڈی جی آئی ایس آئی ایک سویلین ہوسکتا ہے؟
تجزیہ کاروں کے مطابق ایک سویلین کی انٹیلی جنس چیف کے طور پر تعیناتی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، تاہم کوئی کوٹہ نہیں ہے کہ کتنے سویلین یا مسلح افواج کے عہدیدار خفیہ ایجنسی میں ہوں گے۔
زاہد حسین نے یاد دلایا کہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو نے ریٹائرڈ جنرل شمس الرحمٰن کلہو کو تعینات کیا تھا جو اس وقت فوج کے حاضر سروس جنرل نہیں تھے اور ان کو سویلین شمار کیا جاتا تھا۔
باقر سجادکا کہنا تھا کہ فرضی طور پر کہہ رہا ہوں کہ کوئی پابندی نہیں ہے کہ ایک سویلین خفیہ ایجنسی کا سربراہ نہ بن سکے۔
انہوں نے کہا کہ ‘آئی ایس آئی کی قیادت میں سویلین پوزیشن ہے لیکن اس میں حاضر سروس جنرلز ممکن ہیں لیکن مجھے یقین نہیں ہے کہ اگر اس عہدے کے لیے کوئی خاص کوٹہ مقرر ہے’۔
آئی ایس آئی کس کے ماتحت ہے؟
ریٹائرڈ ایئرمارشل شہزاد چوہدری نے ایک ٹی وی شو میں کہا کہ آئی ایس آئی وزیراعظم کے احکامات ماننے کی پابند ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'لیکن اس کے اندر کام کرنے والے لوگ چیف آف آرمی اسٹاف کی پیروی کرنے کے پابند ہیں، جب آرمی چیف ایک برگیڈیئر یا میجرجنرل کی تعیناتی کرتا ہے جبکہ سیکریٹری کابینہ کو آگاہ کیا جاتا ہے اور اس کے لیے وزیراعظم کی اجازت ضروری نہیں ہے'۔
انہوں نے بتایا کہ 'ادارہ وزیراعظم کو جوابدہ ہے لیکن اس کے ملازمین 30 سے 40 فیصد مستقل ہیں اور ان میں چند روٹیشن میمں ہوتے ہیں، اسی لیے مدت دو یا تین سال بعد ختم ہوجاتی ہے'۔
شہزاد چوہدری نے کہا کہ 'آئی ایس آئی کے سربراہ دو سے تین سال تک خدمات انجام دیں گے، بے شک یہ تعیناتی وزیراعظم کی خواہش پر ہوتی ہے'، تین یا چار آپشنز وزیراعظم کے پاس جاتے ہیں اور وہ ان میں سے ایک امیدوار کا چناؤ کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب مدت تقریباً مکمل ہونے کے قریب پہنچ جاتی ہے، تو وزیراعظم کو چیف آف آرمی اسٹاف آگاہ کریں گے اور امیدواروں کا نیا پینل بھیج دیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف یا پوسٹنگ کرنے کی اتھارٹی تبادلے کی ضروت سے آگاہ نہ کرے، موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی اگلے عہدے کے اہل ہیں۔
ریٹائرڈ ایئرمارشل نے کہا کہ 'یہ ایک سائیکل، ایک عمل ہے اور اس عمل کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں'، کہ فوج کے اندر ایک نظام ہے کہ ہر ایک عہدے پر افسر کو کیا کرناچاہیے۔
شہزاد چوہدری نے بتایا کہ 'غیر ضروری طور پر پیالی میں طوفان برپا کیا گیا ہے'۔
قانونی عمل کیا ہے؟
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کابینہ اجلاس کے بعد کہا کہ نئے سربراہ کی تعیناتی کے حوالے سے قانون پر عمل کیا جائے گا لیکن تجزیہ کاروں کے خیال میں اس حوالے سے کوئی متعین قوانین نہیں ہیں۔
فہد حسین کا کہنا تھا کہ 'فواد نے کہا کہ قانون پر عمل کیا جائے گا لیکن اگر یہ واضح ہو کہ قانونی عمل کیا ہے، انہوں نے اس کی نشان دہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ اب تک واضح نہیں ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یا ہم بحث کو سمیٹ سکتے ہیں جو قانونی عمر پر کی جارہی ہے، ہم یہ بھی مکمل کر سکتے ہیں جب قانونی عمل پر اب پابندی کی جائے گی، تو کیا اس سے پہلے قانون پر عمل نہیں کیا گیا تھا'۔
باقر سجاد نے کہا کہ ضروری نہیں ہے کہ وزیراعظم اس تعیناتی پر حتمی رائے دیں، 'تاہم، تعیناتی کے لیے ان کی رضامندی ضروری ہے'۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی کے عمل سے متعلق کسی تحریری ضابطے سے میں آگاہ نہیں ہوں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مسلح افواج میں تعیناتیوں اور تبادلوں کے طریقہ کار کے حؤالے سے پہلے سے عمل ہونے والے قواعد پر ابہام پیدا ہوا ہو۔
اگست 2019 میں وزیراعظم نے جنرل باجوہ کو بطور آرمی چیف ان کی ریٹائرمنٹ سے تین ماہ پہلے ہی توسیع دے دی تھی، تقریباً ایک دہائی بعد دوسری مرتبہ تھا کہ ملک کے اعلیٰ ترین جنرل کی روایتی مدت میں توسیع کردی گئی تھی۔
اس معاملے کو بھی عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا، جہاں جنرل قمر باجوہ کو عارضی طور پر کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی جبکہ پارلیمان کو اس معاملے پر قانون بنانے کی ہدایت کی تھی۔
بعد ازاں جنوری 2020 میں پارلیمان نے ایک اہم بل منظور کرلیا جو وزیراعظم کو آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی دوبارہ تعیناتی اور مدت میں توسیع کے لیے بااختیار کرتا ہے اور اس کے ساتھ طویل عرصے سے جاری متنازع کہانی کا انجام ہوا تھا۔
کئی سوالات کی بدستور موجودگی کے باوجود آج وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان مشاورت مکمل ہوچکی ہے اور نئی تعیناتی کا عمل زیر تکمیل ہے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ 'سول-ملیٹری قیادت نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ تمام ادارے ملک کے استحکام، عزت اور ترقی کے لیے متحد ہیں'۔
دوسری جانب سیاسی حلقے ابھی تک نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے اعلان سے متعلق نوٹیفکیشن کے اجرا کا انتظار کر رہے ہیں۔
اس خبر کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔