امریکا، افغانستان کو امدادی پیکج دے ورنہ وہ داعش کی پناہ گاہ بن جائے گا، عمران خان
اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ امریکا کو افغانستان کو امدادی پیکج دینا ہوگا یا کسی ایسے ملک کے خاتمے کا سامنا کرنا پڑے گا جو داعش کے عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ بن جائے گا۔
برطانوی آن لائن خبر رساں ادارے مڈل ایسٹ آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ واشنگٹن اس چیلنج کو پورا کرے کیونکہ ملک، جہاں امریکا کی زیر قیادت ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے منسلک تنازع میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے ہیں، ایک مرتبہ پھر بھاری قیمت ادا کرے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہ واقعی نازک وقت ہے اور امریکا کو خود کو اکٹھا کرنا ہوگا کیونکہ امریکا میں لوگ صدمے کی حالت میں ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ کسی طرح کی جمہوریت، قوم کی تعمیر یا آزاد خواتین کا تصور کر رہے تھے اور اچانک انہیں معلوم ہوا کہ طالبان واپس آگئے ہیں اس لیے ان میں بہت غصہ، صدمہ اور حیرت ہے، جب تک امریکا، قیادت نہیں کرے گا ہم پریشان ہیں کہ افغانستان میں افراتفری ہوگی اور ہم اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے‘۔
عمران خان نے کہا کہ امریکا کے پاس افغانستان میں مستحکم حکومت کی حمایت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں تھا کیونکہ طالبان ہی خطے میں داعش سے لڑنے کا واحد آپشن تھے۔
افغانستان میں داعش کی علاقائی وابستگی، جسے اسلامک اسٹیٹ صوبہ خراسان کے نام سے جانا جاتا ہے، نے طالبان کے خلاف لڑائی کی ہے اور حالیہ مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن میں شمالی شہر قندوز میں اہل تشیع برادری سے منسلگ مسجد پر بمباری جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں 20 سالہ امریکی جنگ اختتام پذیر، طالبان کا جشن
عمران خان نے کہا کہ ’دنیا کو افغانستان کے ساتھ مشغول ہونا چاہیے کیونکہ اگر وہ اسے تنہا کرتے ہیں تو طالبان میں سخت گیر لوگ بھی موجود ہیں اور یہ آسانی سے 2000 کے طالبان کے پاس واپس جا سکتا ہے اور یہ ایک تباہی ہو گی‘۔
واضح رہے کہ طالبان اب بھی امریکی محکمہ خزانہ کے پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں، جو اس گروپ کو امریکی سینٹرل بینک میں موجود 9 ارب ڈالر سے زائد کے اثاثوں تک رسائی سے روکتے ہیں۔
’پریشانی ہے کہ 1989 کا منتشر افغانستان دوبارہ نہ لوٹ آئے'
وزیراعظم نے سویت یونین کی واپسی کے بعد ہونے والی خانہ جنگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر وہ اس طرح افغانستان کو چھوڑ دیں گے تو میری پریشانی یہ ہے کہ افغانستان پیچھے جاتے ہوئے 1989 کا افغانستان بن سکتا ہے جہاں انتشار کے دوران 2 لاکھ افغان ہلاک ہوگئے تھے‘۔
عمران خان نے کہا کہ ’جو بائیڈن سن نہیں رہے تھے، ہم دونوں میں ابھی تک کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے 2008 میں اس وقت کے امریکی سینیٹرز جو بائیڈن، جان کیری اور ہیری ریڈ کو خبردار کیا تھا کہ وہ افغانستان میں ایک دلدل پیدا کر رہے ہیں جس کا کوئی فوجی حل نہیں ہے تاہم انہوں نے نہیں سنا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’دو سال بعد پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یہی پیغام امریکی صدر براک اوباما کو بھی دیا تھا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تاہم بدقسمتی سے انہوں نے اپنے جرنیلوں کی بات سنی اور آپ جانتے ہیں کہ جرنیل ہمیشہ کیا کہتے ہیں، ہمیں مزید فوج اور مزید وقت دیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان کے صوبہ قندوز کی مسجد میں دھماکا، 55 افراد جاں بحق
انہوں نے انٹرویو میں بتایا کہ ’ہمیں طالبان کے پر امن طریقے سے کابل پر قبضے کو دیکھ کر بہت اطمینان ملا کیونکہ ہمیں خون کی ہولی کھیلے جانے کی توقع تھی لیکن جو ہوا وہ اقتدار کی پرامن منتقلی تھی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تاہم ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ ہم اس کے لیے قصوروار ٹھہرائے جارہے ہیں، 3 لاکھ افغان فوجیوں نے بغیر کسی لڑائی کے ہتھیار ڈال دیے، واضح طور پر ہم نے انہیں ہتھیار ڈالنے کے لیے نہیں کہا تھا‘۔
طالبان کی جامع حکومت سازی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ’یہ جامع حکومت نہیں ہے، یہ حکومت ایک عبوری حکومت ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان پڑوسی ریاستوں، خاص طور پر تاجکستان اور ازبکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے جو افغانستان کے اندر بڑی تعداد میں نسلی اقلیتیں ہیں تاکہ طالبان کو نمائندگی بڑھانے کی ترغیب دی جا سکے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’انہیں ایک جامع حکومت کی ضرورت ہے کیونکہ افغانستان ایک متنوع معاشرہ ہے‘۔
'پاک فوج، ٹی ٹی پی کے درمیان خونی تنازع میں 80 ہزار جانیں ضائع ہوئیں'
وزیر اعظم نے کہا کہ ’حکومت میں داخلے پر پابندی صرف سابقہ حکومت کے اراکین پر لاگو کی گئی ہے جو بدعنوانی میں ملوث تھی‘۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کو وقت دیا جانا چاہیے، انہوں نے درست بیانات دیے ہیں اور ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے، اگر ہم ان پر پابندی لگا کر کیا کرلیں گے؟ سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ ان کو اپنی بات پر چلنے کی ترغیب دی جائے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تاہم اگر آپ انہیں مجبور کرتے ہیں تو میں انسان کی فطرت کو دیکھتے ہوئے تصور کروں گا کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں گے‘۔
انہوں نے کہا کہ تحریک کے اندر واضح طور پر مختلف دھڑے اور چند مسائل پر واضح قیادت کا فقدان ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان کی آمد کے بعد افغانستان کے معاشی چیلنجز اور ان کا حل
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ نازک اور سیاسی طور پر حساس مذاکرات میں مصروف ہے جسے اکثر پاکستانی طالبان کہا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ٹی ٹی پی اور پاکستانی فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سائیڈ لائن میں خونی تنازع کا سامنا کیا ہے جس میں 80 ہزار سے زائد جانیں ضائع ہوچکی ہیں'۔
ٹی ٹی پی، جسے پانچ سال قبل قبائلی علاقوں سے نکال دیا گیا تھا، نے فوج کے ساتھ نئی جھڑپوں کے ساتھ اپنی مہم کا دوبارہ آغاز کردیا تھا۔
ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کے لیے دو شرائط رکھی ہیں، قبائلی علاقوں میں شرعی قوانین اور قیدیوں کی رہائی جبکہ حکومت پاکستان کا اصرار ہے کہ ان علاقوں میں صرف آئین پاکستان ہی لاگو ہوتا ہے۔
عمران خان نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ ٹی ٹی پی 50 گروپس پر مشتمل ہے اور وہ ان عناصر سے صلح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اب ہم ان لوگوں سے بات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن میں صلح ہو سکتی ہے، میرا ماننا ہے کہ ہر انتشار بالآخر بحث کی میز پر ختم ہو جاتی ہیں‘۔
'افغانستان میں ڈرون حملوں کے مسلسل استعمال کی مذمت کرتے ہیں'
انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت نے پاکستان سے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین کے اندر سے پاکستان پر حملے کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں پر کابل میں سابق حکومت کے دور میں ان حملوں کی حمایت کا الزام عائد کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اب ہمیں ان لوگوں سے بات کرنی ہے جن سے ہم صلح کر سکتے ہیں تاکہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور عام شہریوں کی طرح زندگی گزار سکیں‘۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں شکست 20 سال کی غلطیوں کا مجموعی نتیجہ ہے، امریکی فوجی سربراہ
عمران خان نے امریکا کی جانب سے افغانستان میں ڈرون حملوں کے مسلسل استعمال کی مذمت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ دہشت گردی سے لڑنے کا سب سے برا طریقہ ہے، ایک گاؤں میں مٹی کے گھر پر ڈرون حملہ کرنا اور توقع کرنا کہ وہاں کوئی جانی نقصان نہیں ہوگا، زیادہ تر ڈرون حملوں میں غلط لوگوں کو نشانہ بنایا گیا‘۔
پاکستان کا امریکا کو افغانستان سے داعش کے آپریشن کی اجازت دینے کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے 2001 میں افغانستان پر امریکی قیادت میں ہونے والے حملے کے بعد سے پاکستان کی طرف سے ادا کی جانے والی انسانی اور مالی قیمت کا بتایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی ملک نے ہم جیسی بھاری قیمت ادا نہیں کی، 8 ہزار پاکستانی مارے گئے، معیشت تباہ ہو گئی اور 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، ہمیں دنیا کی سب سے خطرناک جگہ کہا جاتا تھا، 35 لاکھ لوگ اندرونی طور پر بے گھر ہو گئے‘۔
عمران خان نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ امریکی انخلا کے علاقائی اثرات کیا ہوں گے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ چین ابھرتی ہوئی قوت ہے جس نے اس خلا میں قدم رکھا اور پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ کونسا ملک تھا جو مدد کے لیے آیا؟ یہ چین تھا جس نے ہماری مدد کی، آپ ہمیشہ ان لوگوں کو یاد رکھتے ہیں جو مشکل وقت میں آپ کی مدد کرتے ہیں‘۔
تبصرے (2) بند ہیں