• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

500 یا زائد ڈالرز کی خریداری کیلئے بائیو میٹرک تصدیق لازمی قرار

شائع October 7, 2021
ڈالر کے مقابلے روپے کی گراوٹ پر قابو پانے کے لیے اسٹیٹ بینک پہلے ہی کئی اقدامات اٹھا چکا ہے— فائل فوٹو: اے پی پی
ڈالر کے مقابلے روپے کی گراوٹ پر قابو پانے کے لیے اسٹیٹ بینک پہلے ہی کئی اقدامات اٹھا چکا ہے— فائل فوٹو: اے پی پی

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدنے پر ایک اور پابندی عائد کرتے ہوئے تمام افراد کے لیے اوپن مارکیٹ سے 500 یا اس سے زائد ڈالر خریدنے پر بائیومیٹرک تصدیق لازمی قرار دے دی۔

دوسری جانب بدھ کے روز ڈالر کی قیمت 171 روپے کی نئی بلند ترین سطح پر جاپہنچی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک سے جاری بیان میں کہا کہ 'ایکسچینج کمپنیوں کے لیے لازمی ہوگا کہ وہ 500 ڈالر یا اس سے زائد کی کرنسی فروخت اور ترسیلات زر پر بائیومیٹرک تصدیق کریں'۔

یہ بھی پڑھیں: 2022 میں ڈالر 180 روپے تک پہنچ جائے گا، فِچ ریٹنگز

مرکزی بینک کے مطابق اس سے قبل کوئی بھی شخص قومی شناختی کارڈ کی ایک نقل فراہم کرکے ایکسچینج کمپنیوں سے ڈالر حاصل کرسکتا تھا، یہ شرط 22 اکتوبر 2021 سے لاگو ہوگی۔

یہ بڑا قدم بظاہر ملک سے افغانستان میں ڈالر کے اخراج کو روکنے کے لیے اٹھایا گیا ہے جس نے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی طلب میں نمایاں اضافہ اور شرح تبادلہ کو غیر مستحکم کیا۔

امریکی ڈالر کی زیادہ طلب کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی تیزی سے گراوٹ پر قابو پانے کے لیے اسٹیٹ بینک پہلے ہی کئی اقدامات اٹھا چکا ہے۔

اس سے قبل ایکسچینج کمپنیاں میڈیا کے ذریعے اس بات کو اجاگر کرچکی ہیں کہ افغانستان کے لیے ڈالرز کا بہاؤ بہت زیادہ ہے جبکہ فچ ریٹنگ کمپنی نے بھی حال ہی میں اس مسئلے کو شرح تبادلہ کو غیر مستحکم کرنے کی ایک وجہ قرار دیا ہے۔

مزید پڑھیں: انٹربینک میں ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح 170 روپے پر پہنچ گیا

اسٹیٹ بینک کے اقدامات کے مطابق افغانستان جانے والے ہر شخص کو زیادہ سے زیادہ ایک ہزار ڈالر فی دورے کی اجازت ہوگی، جس کی سالانہ حد 6 ہزار ڈالر ہے۔

مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ سرکلر میں کہا گیا کہ ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے غیر ملکی کرنسی کے لین دین میں شفافیت کو بڑھانے اور نقد غیر ملکی کرنسی کے ناپسندیدہ اخراج کو روکنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے کچھ ریگولیٹری اقدامات متعارف کرائے ہیں۔

بینک کے مطابق ایکسچینج کمپنیاں 10 ہزار ڈالر اور زائد کی غیر ملکی نقد کرنسی کی فروخت اور بیرونِ ملک ترسیلات زر بھیجنے کا عمل صرف چیک کے ذریعے وصول ہونے والی رقوم کے عوض یا بینکاری ذرائع سے کریں گی۔

اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ ’یہ ریگولیٹری اقدامات ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے غیر ملکی کرنسی کی فروخت کی دستاویزات کو بہتر بنانے اور غیر ملکی کرنسی کے ناپسندیدہ اخراج کو چیک کرنے میں مدد کریں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سربراہ ملک بوستان کا کہنا تھا کہ 500 ڈالرز یا زائد کی خریداری پر بائیومیٹرک تصدیق کی شرط سے اوپن مارکیٹ سے خریداری کم کرنے میں مدد ملے گی جو اسٹیٹ بینک کے ساتھ ساتھ حکومت کا بھی ہدف ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان سے غیر ملکی کرنسی کے غیر ضروری اخراج کو روکنے کے لیے فی کس ایک ہزار ڈالر افغانستان لے جانے کی شرط انتہائی ضروری تھی تاکہ شرح تبادلہ مستحکم ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ جولائی کے بعد سے جیسے ہی افغانستان میں سیاسی صورتحال تبدیل ہوئی، پاکستان میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوا اور شرح بڑھ گئیں۔

ملک بوستان نے کہا کہ اس سے قبل ایکسچینج کمپنیاں اپنے سرپلس کا 90 فیصد بینکوں میں جمع کروا رہی تھیں، اب ہم تقریباً 50 فیصد بینکوں میں جمع کراتے ہیں جبکہ 50 فیصد فروخت ہوچکے ہیں۔

ایف آئی اے کی کرنسی کے غیر قانونی کاروبار کے خلاف تحقیقات

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے غیر ملکی کرنسی کی معروف کمپنی کے مبینہ غیر قانونی کرنسی کے کاروبار کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: غیرقانونی کرنسی کاروبار کے خلاف کریک ڈاؤن میں 15 ملزمان گرفتار

ایف آئی اے کے ڈائریکٹر عامر فاروقی نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے پراچا ایکسچینج کمپنی کے مالک ظفر پراچا کو تفتیش کے لیے اسٹیٹ بینک سرکل پر بلایا۔

انہوں نے یہ واضح کیا کہ کمپنی کے مالک کو حراست میں نہیں لیا گیا تھا، ایف آئی اے نے ڈالر کا کاروبار کرنے والی کمپنی کا گزشتہ ایک ماہ کا ریکارڈ حاصل کیا ہے۔

ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ انہوں نے ڈالر کی قیمت میں حالیہ اضافے کے بعد تمام ایکسچینج کمپنیوں کے معاملات کی تحقیقات شروع کی ہیں کیونکہ اطلاعات تھیں کہ کچھ عناصر منافع کمانے کے لیے ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ اور کرنسی کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024