بلوچستان کے مختلف علاقوں میں 5.9 شدت کا زلزلہ، 20 افراد جاں بحق
بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں 20 افراد جاں بحق اور 300 سے زائد زخمی ہوگئے۔
صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق زلزلہ جمعرات کی علی الصبح 3 بجے آیا جس کی شدت 5.9 ریکارڈ کی گئی۔
ضلع ہرنائی کے ڈپٹی کمشنر سہیل انور نے ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد کی تصدیق کی اور بتایا کہ ہلاکتیں گھروں کی چھتیں گرنے کے باعث ہوئیں جبکہ مرنے والوں میں 6 بچے بھی شامل ہیں۔
ڈپٹی کمشنر سہیل انور کے مطابق 100 سے زائد کچے مکانات منہدم جبکہ بڑی تعداد میں مکانات کو نقصان پہنچا جس میں سرکاری عمارات بھی شامل ہیں، جس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جب زلزلہ آئے تو کیا کرنا چاہیے؟
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ میں ریسکیو ورکرز کے حوالے سے بتایا گیا کہ مرنے والوں میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں، زخمیوں کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں سڑک پر فون کی روشنی کے ذریعے اسٹریچرز پر ان کا علاج کیا گیا۔
قومی زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کا مرکز صوبے کے ضلع ہرنائی کے قریب 15 کلومیٹر گہرائی میں تھا۔
پی ڈی ایم اے کی ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا کہ زلزلے کے جھٹکے کوئٹہ، سبی، پشین، مسلم باغ، زیارت، قلعہ عبداللہ، سنجوانی، ژوب اور چمن میں بھی محسوس کیے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ زلزلے کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا درست اندازہ ابھی نہیں ہوسکا۔
نجی چینل 'جیو نیوز' سے بات کرتے ہوئے پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل نصیر احمد نے بتایا کہ پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات ہوئے ہیں، ہرنائی کے 15 کلومیٹر تک کے علاقے میں مکانات تباہ ہوگئے ہیں اور ریسکیو ٹیمیں امدادی کارروائیوں میں حصہ لے رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: کوئٹہ اور گردونواح کے علاقوں میں زلزلہ
دوسری جانب صوبائی وزیر داخلہ ضیااللہ لانگو نے بتایا کہ 5 سے 6 اضلاع بڑے پیمانے پر متاثر ہوئے اور اعداد و شمار اکٹھے کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اموات اور زخمیوں کی سب سے بڑی تعداد ضلع ہرنائی میں رپورٹ ہوئی جبکہ تشویشناک مریضوں کو کوئٹہ منتقل کیا جارہا ہے۔
سیکیورٹی فورسز امدادی کارروائیوں میں مصروف
دوسری جانب پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ 'آئی ایس پی آر' سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ سیکیورٹی فورسز زلزلے سے متاثرہ علاقے ہرنائی میں امدادی کارروائیوں کے لیے پہنچ گئی اور زلزلے سے متاثرہ آبادی کے لیے ضروری خوراک اور شیلٹرز بھجوادیے گئے ہیں۔
بیان میں بتایا گیا کہ آرمی ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس ضروری طبی دیکھ بھال میں ادویات کے ساتھ سول انتظامیہ کی مدد کر رہے ہیں۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 9 شدید زخمیوں کو پاک فوج کے ایوی ایشن ہیلی کاپٹر کے ذریعے کوئٹہ پہنچایا گیا۔
علاوہ ازیں نقصانات کا جائزہ لینے اور ردِ عمل کے لیے آئی جی ایف سی بلوچستان (شمالی) ہرنائی پہنچ گیا ہے اس کے ساتھ شہریوں کی تلاش اور بچاؤ ٹیم کو راولپنڈی سے روانہ کیا جا رہا ہے تاکہ امدادی سرگرمیوں میں تیزی لائی جا سکے۔
امدادی کارروائیاں جاری ہیں، وزیراعلیٰ
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان علیانی نے بتایا کہ ہرنائی میں تمام امدادی کارروائیاں اور انخلا کا عمل جاری ہے۔
ٹوئٹر پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ میڈیکل، مقامی انتظامیہ اور ڈیزاسٹر منیجمنٹ ٹیموں کو ہائی الرٹ اور فعال کردیا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ خون، ہنگامی امداد، ہیلی کاپٹر اور دیگر تمام اشیا کا بندو بست کرلیا گیا ہے اور تمام محکمے اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں بھی کوئٹہ اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں 5.1 شدت کا زلزلہ محسوس کیا گیا تھا جس کے باعث عوام میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔
اس سے قبل سال 2017 میں بلوچستان کے ساحلی علاقوں گوادر، پسنی مکران میں 6.3 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس کے نتیجے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی تھی۔
مزید پڑھیں: بلوچستان زلزلہ: ہلاکتوں کی تعداد 515 تک پہنچ گئی
البتہ سال 2013 ستمبر کے مہینے میں ضلع آوران میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔
مذکورہ زلزلے کی شدت 7.7 ریکارڈ کی گئی تھی جس سے آوران کے 80 فیصد سے زائد کچے مکانات تباہ ہوگئے تھے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کے زلزلے سے متعلقہ حادثات میں خواتین اور بچو سمیت 515 افراد جاں بحق جبکہ 600 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔