پینڈورا پیپرز: اسے کسی حقیقی تبدیلی کی علامت کیوں نہیں سمجھنا چاہیے؟
آج سے لگ بھگ 5 سال پہلے پانامہ پیپرز جاری ہوئے جن کے نتیجے میں پاکستان میں حکومت کی تبدیلی عمل میں آئی اور دنیا بھر میں ایک عدم اطمینان کی فضا بھی پیدا ہوئی۔ پانامہ پیپرز کے بعد آف شور فنڈز اور شیل کمپنیوں کے انتظام کرنے والے اداروں پر ان کے صارفین کی جانب سے دباؤ ڈالا جانے لگا کہ وہ اس کام کی رازداری کو مزید بہتر بنائیں۔
ہوسکتا ہے کہ کچھ جگہوں پر اس حوالے سے تیار کی گئی حکمتِ عملی کارگر بھی رہی ہو لیکن سوئٹزرلینڈ، پانامہ، دبئی، موناکو، کیمن آئی لینڈ اور سنگاپور جیسی جگہوں کو پینڈورا پیپرز نے ایک بار پھر عیاں کردیا ہے۔
یہ دستاویزات انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کو فراہم کی گئیں اور سیکڑوں صحافیوں نے تقریباً 18 ماہ کی محنت کے بعد کم و بیش ایک کروڑ 20 لاکھ دستاویزات کی چھان پھٹک کی۔
تاہم اس کے نتیجے میں جو تصویر سامنے آتی ہے وہ کچھ زیادہ حیران کن نہیں ہے۔ آف شور ملکیتوں کے ذریعے سے ٹیکس سے بچنا اب کوئی نئی بات نہیں رہی۔ جن لوگوں کے پاس وسائل ہوتے ہیں ان کی جانب سے بیرون ملک جائیدادیں خریدنا اب ایک عام بات بن چکی ہے۔
مزید پڑھیے: پینڈورا پیپرز اور پاکستانی
ان لوگوں کے پاس اس قسم کی ’سرمایہ کاری‘ کے لیے کروڑوں اور کچھ معاملوں میں اربوں ڈالر کہاں سے آئے یہ ایک الگ کہانی ہے۔ اگرچہ رشوت، کک بیکس اور منی لانڈرنگ کو اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن یہ سب اس وقت قابلِ قبول ہوجاتا ہے جب معمول کے استحصال کے ذریعے وہ توازن حاصل کرلیا جائے جو سرمایہ دارانہ نظام کو برقرار رکھتا ہے۔
ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں دولت کی تفاوت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کے باوجود بھی پینڈورا پیپرز میں امریکا کے امیر ترین ارب پتی افراد کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی دولت کو چھپانے کے پابند نہیں ہیں۔ انہیں بارہا یہ نشاندہی کروائی جاتی ہے کہ انہوں نے اپنے ذمے واجب الادا مکمل ٹیکس ادا نہیں کیا لیکن شاید ہی ان پر کبھی اس بات کا اثر ہوا ہو۔
پینڈورا پیپرز میں صرف ان لوگوں کو شرمندہ کیا گیا ہے جن کے پاس اپنے دفاع کے لیے کچھ زیادہ بہانے نہیں ہیں۔ ان میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ یہ دفاع جائز ہے بشرطیکہ انہیں اخلاقیات کی کوئی پرواہ نہ ہو۔
تاہم اخلاقیات اور بڑی حد تک غیر منظم نیو لبرل ازم دو مختلف چیزیں ہیں۔ سرمایہ دارانہ تناظر میں اس تقسیم کو عبور نہیں کیا جاسکتا۔ پینڈورا پیپرز میں جن ممالک کے لوگوں کے نام آئے ہیں ان میں سے اکثر ممالک کے حکمرانوں نے ان الزامات پر تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ان دستاویزات میں کابینہ کے دو وزرا سمیت سیکڑوں پاکستانیوں کے نام آنے کے بعد عمران خان نے بھی تحقیقات کے لیے ایک سیل تشکیل دیا ہے۔
اس قسم کی تحقیقات کا وعدہ کئی دیگر سربراہانِ حکومت نے بھی کیا ہے لیکن ان تحقیقات کا شاز ہی کوئی معنی خیز نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ بہت ہی شرمندگی کا باعث ہوتا ہے کہ جب کرپشن کے خلاف باتیں کرنے والے خود اس قسم کے مسائل میں الجھتے ہیں۔
اگر حکمران خود ان الزامات کا شکار نہ ہوں جیسا کہ عمران خان کے معاملے میں ہوا ہے تو پھر وہ اچھی نیت پر مبنی اشارے دے سکتے ہیں۔ تاہم اگر معاملہ اس کے برعکس ہو جیسا کہ پراگ، نیروبی، عمان، کیو، ماسکو اور باکو میں ہے تو ہمیں سخت اور اشتعال پر مبنی انکار دیکھنے کو ملتا ہے۔
مزید پڑھیے: پینڈورا پیپرز میں شامل عالمی رہنماؤں پر ایک نظر
آندریج بابیس چیک ری پبلک کے وزیرِاعظم اور دوسرے امیر ترین فرد ہیں۔ انہوں نے واضح طور پر ایک پیچیدہ آف شور نظام کو استعمال کرتے ہوئے 2009ء میں فرانس میں ایک پُرتعیش گھر خریدا۔ انہوں نے نامعلوم قوتوں پر اگلے ہفتے ہونے والے انتخابات سے پہلے انہیں کمزور کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
یوکرین کے ولودیمیر زیلینسکی کے ترجمان نے بھی کہا ہے کہ زیلینسکی نے 2019ء میں اقتدار میں آنے سے قبل اپنی آف شور کمپنی خاموشی سے اپنے دوست کو منتقل کرکے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔
کینیا اور آذربائیجان کے صدور نے اب تک اپنے دفاع میں خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ دوسری جانب روسی صدر پیوٹن کے ترجمان نے ان دستاویزات کی صداقت پر سوال اٹھایا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ روسی صدر کے کئی قریبی افراد نے کچھ مشکوک معاہدوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔ ان افراد میں سویتلانا کریوانوگکھ کا نام بھی شامل ہے جنہیں مبیّنہ طور پر پیوٹن کی بیٹی کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔
جہاں جہاں پوشیدہ دولت کا ذکر آتا ہے وہاں لاعلمی کا اظہار کرنا صدر پیوٹن کے ردِعمل کا حصہ بن گیا ہے۔ لیکن آخر اردن کے شاہ عبد اللہ نے کیلیفورنیا اور لندن میں کئی ملین ڈالر کے مکانات کی خریداری کو پوشیدہ کیوں رکھا حالانکہ ان کی اعلی عدالت نے واضح طور پر کہا ہے کہ مغربی میڈیا کی خبریں ’غلطیوں اور مبالغہ آمیز حقائق پر مبنی ہیں‘۔ اس سوال کے جواب کے طور پر ’سیکیورٹی‘ کو جواز بنایا گیا ہے۔
دوسری جانب برطانیہ میں زیادہ تر توجہ آذربائیجان کے بدعنوان حکمران خاندان کی زیرِ ملکیت جائیداد کی تاج برطانیہ کو منافع بخش فروخت اور محمد امرسی جیسے اہم ٹوری ڈونرز کی سرگرمیوں پر ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹونی اور کلیری بلیئر نے ایک آف شور کمپنی خرید کر اور 3 لاکھ پاؤنڈ ٹیکس بچا کر لندن میں 65 لاکھ پاؤنڈ کی جائیداد خریدی جو جزوی طور پر ایک بحرینی وزیر کے خاندان کی ملکیت میں تھی۔
مزید پڑھیے: پینڈورا پیپرز میں شامل 300 بھارتیوں میں سچن ٹنڈولکر اور انیل امبانی بھی شامل
دیکھا جائے تو ایک طرح سے یہ سب جائز معلوم ہوتا ہے اور اصل مسئلہ بھی یہی ہے۔ آخر شیل کمپنیاں جو بعض اوقات کئی پردوں میں چھپی ہوتی ہیں وہ جائز کیوں ہیں؟ ہوسکتا ہے کہ کسی آف شور اکاؤنٹ کے لیے قابلِ قبول وجہ موجود ہو لیکن یقینی طور پر انہیں ریگولیٹر کے سامنے بیان کیا جانا چاہیے۔
پینڈورا پیپرز نے ہماری معلومات میں مزید اضافہ کیا ہے اور جس نے بھی انہیں لیک کیا ہے وہ ہماری جانب سے شکریہ کا حقدار ہے۔ تاہم اسے یا مستقبل کے کسی اور پینڈورا بکس کو حقیقی تبدیلی کی علامت سمجھنا حقیقت سے کچھ زیادہ ہی پُرامید ہونے کے مترادف ہوگا۔
یہ مضمون 06 اکتوبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔