اپنے بزرگوں کی آخری سانس تک قدر کیجیے
بعض اوقات ایسے بھی مواقع آتے ہیں جب دادی ہمیں نہ کوئی جواب دیتی ہیں اور نہ ہی کوئی اشارہ کرتی ہیں، انہیں دیکھ کر بس کسی بے حرکت قد آدم تصویر کا گمان ہونے لگتا ہے۔
کبھی کبھار جب ان کی پڑ پوتیاں حوریہ، امامہ یا ثانیہ ان کے ہاتھ کو بوسہ دیتی ہیں تو ان کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں اور جھریوں زدہ چہرے پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔ 7 یا 8 برس کی عمر میں بھی وہ جانتی ہیں کہ دادی کا وجود کس قدر اہم ہے۔ کبھی کبھار وہ کسی بات کا جواب نہیں دیتیں، مگر جب دیتی ہیں تو ان کے الفاظ لرزتے ہیں۔ کسی دن وہ یخنی مزے لے لے کر کھاتی ہیں تو کسی دن بچے کی طرح منہ بنا کر بیٹھ جاتی ہیں۔
ان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے اور انہیں کس چیز کی ضرورت ہے یہ جاننے کے لیے بات چیت کا کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔ 90 برس کی عمر تک تو ان میں جواب دینے کی سکت ہوتی تھی لیکن اب تو کبھی کبھار اپنی بے چینی کا اظہار چہرے کے تاثرات یا بمشکل آہ بھر کر ہی کرپاتی ہیں۔
زمان و مکان کی ناقابلِ عبور گہری رکاوٹوں کے باعث ایک دُوری سی حائل ہے، اور ہم انہیں ایک ایسی کھائی میں اترتے دیکھتے ہیں جہاں رابطے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے۔ شکر ہے کہ کسی مرض کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی ہے اور ان کی حیات کے دھیرے دھیرے بجھتے دیے کی لو کو سہارا دینے کے لیے ہم سب خاندان والے یکجا ہوگئے ہیں۔
ماو ڈن لٹریری پرائز کے فاتح ژو ڈاکسن بڑھتی عمر کے نقصانات پر مبنی اپنی کتاب The Sky Gets Dark, Slowly میں خبردار کرتے ہیں کہ 60 برس کی عمر کے بعد آسمان پُراسرار طریقے سے سیاہ تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ روشنی ماند پڑنا شروع ہوجاتی ہے پھر آپ ٹھیک اسی طرح بستر پر لیٹ جاتے ہیں جس طرح آپ اپنی پیدائش کے بعد بستر پر لٹائے گئے تھے۔
بڑھتی عمر کے ساتھ پیش آنے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے ژو کے بیان کردہ انتباہات، تفصیلات اور تجاویز دراصل وہ حالات و واقعات ہیں جن کا ہم سب کو آگے چل کر سامنا کرنا ہے۔
وہ بڑی حساسیت کے ساتھ بڑی عمر اور عمر رسیدگی کی پیچیدہ، پوشیدہ اور جذباتی جہانوں کو کھنگالتے ہیں۔ بڑھتی عمر ضروری نہیں کہ ہمیشہ اپنے ساتھ بیماری بھی لائے نہ ہی اسے بوجھ کے طور پر لینا چاہیے کہ جب خاندان والے گھر کے ایک متحرک فرد کو دھیرے دھیرے الگ تھلگ سا محسوس کرنے لگتے ہیں۔
ٹوٹی ہڈیوں، دُکھتے جوڑ اور سُستی و کاہلی کے امکانات کے علاوہ ژو نے تنہائی، عدم توجہی، محبت کے جذبات سے محرومی، دوسروں کی محبت اور چاہت سے محرومی، اور ضروریات اور خواہشات کو ایک طرف رکھ دینے سے بھی خبردار کیا ہے کیونکہ عمر رسیدگی کی خاموشی گمراہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ، 'زندگی میں ایسا وقت بھی آئے گا جب ہمیں 'ممتا' کی ضرورت ہوگی مگر ہمیں بانہوں میں لینے یا بہلا کر کھلانے اور پلانے کے لیے ماں نہیں مل سکے گی'۔
ژو نے اس حالت سے نمٹنے کے لیے geriatric care (بوڑھے بالغوں کی نگہداشت) کی طبی اصطلاح کا استعمال کیا ہے۔ کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز پاکستان (سی پی ایس پی) کے قائم مقام صدر ڈاکٹر محمد شعیب شافی کہتے ہیں کہ، 'اب تک ہمارے معاشرے میں بزرگوں کی نگہداشت قریبی رشتہ داروں کا فریضہ بنی ہوئی ہے۔ اہلِ خانہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن بدلتی سماجی آبادیت اور مدتِ حیات کے ساتھ اب بزرگوں کے لیے ایک باقاعدہ پیشہ ورانہ نگہداشت کو متعارف کروانا ضروری ہوگیا ہے اور ہم سی پی ایس پی میں اس خصوصی نگہداشت کو متعارف کروا رہے ہیں'۔
اس اقدام پر ملنے والے ردِعمل پر خاصے پُرجوش نظر آنے والے ڈاکٹر شافی کہتے ہیں کہ، 'بین الاقوامی طبی کمیونٹی geriatric care کو نہایت اہم گردانتی ہے۔ سی پی ایس پی کے تربیت یافتہ geriatric ماہرین کو عمر رسیدہ بالغان کو درپیش ان مختلف مسائل میں مدد کی غرض سے تربیت فراہم کی جاتی ہے جن کا اظہار اکثر عمر رسیدہ افراد نہیں کرپاتے اور جس کی وجہ سے وہ مسائل نظر انداز ہوجاتے ہیں'۔
'جب آپ ذیابیطس یا سینے کے انفیکشن جیسے کئی مختلف مسائل کا سامنا کررہے ہوتے ہیں اس وقت ہر مسئلے کو الگ طریقے اور پوری حساسیت سے نمٹنا ضروری ہوتا ہے اس لیے خصوصی مہارت اور اعتماد سازی نگہداشت کے بنیادی جزو بن جاتے ہیں۔'
اب تک کسی بھی پاکستانی طبی ادارے میں geriatric care کو ایک مضمون کی حیثیت نہیں دی گئی ہے۔ چونکہ عمر رسیدہ افراد کی نگہداشت کو ثقافتی اصول اور مذہبی فریضہ تصور کیا جاتا ہے لہٰذا اس کے لیے مطلوب پیشہ ورانہ مہارت کی ضرورت کو بھی محسوس نہیں کیا جاتا۔
ایبٹ آباد انٹرنیشنل میڈیکل انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر ڈاکٹر جہانگیر خان کہتے ہیں کہ، 'اس وقت ایک عام اندازے کے مطابق پاکستان کی آبادی کے صرف 10 فیصد حصے کو geriatric care مطلوب ہے لیکن یہ تعداد تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے'۔
وہ کہتے ہیں کہ، 'ہمارے پوسٹ گریجویٹ امتحانات میں اس مہارت کے بارے میں صرف خانہ پری کے طور پر سوالات شامل کیے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں اسے ایک اسپیشلٹی کے طور پر نہیں لیا جاتا اور نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ (دوسری طرف) برطانیہ میں بنیادی طبی کورسز کی تکمیل کے بعد طبی پیشہ وروں کو 6 ماہ کی روٹیشن پالیسی کے ذریعے geriatric care کا تجربہ کروایا جاتا ہے'۔
ڈاکٹر جہانگیر مزید بتاتے ہیں کہ 'geriatric نرسنگ کے ذریعے جسمانی امراض اور ادویات کی عمومی نگرانی پر تو توجہ دی جاسکتی ہے لیکن اس کے ساتھ نفسیاتی اعتبار سے بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ جسم کے اعضا اپنی صلاحیت کی آخری حد پر کام کر رہے ہوتے ہیں اور ہر فرد پر ادویات کا ری ایکشن مختلف ہوسکتا ہے۔ ہم طبی مسائل کے بارے میں معلومات کے پھیلاؤ کے لیے میڈیا کا استعمال کرتے ہیں مگر کوئی بھی عمر رسیدہ افراد کی ذاتی اور عوامی ضروریات کے بارے میں بات نہیں کرتا۔ آنے والے برسوں میں geriatric care کو عمر رسیدہ افراد کے مختلف طبی مسائل کے لیے ایک جامع شعبے کے طور پر اہمیت ملے گی اور اس حوالے سے عوامی آگاہی بھی بڑھے گی'۔
دادی کو نیبولائز کرنا ہو، چمچ سے کھانا کھلانا ہو، یا سونے کے معمولات میں ان کی مدد کرنا ہو، مطلب یہ کہ ان کے 'وجود کو باقی رکھنے' کے لیے دراصل ہمارا پورا گھرانہ اپنی توانائی خرچ کرتا ہے۔
دوسری طرف 93 سالہ ریٹائرڈ سرکاری ملازم مہتاب علی کا خیال رکھنے کے لیے 24 گھنٹے ایک خدمت گار موجود رہتا ہے اور انہیں بار بار ہسپتال لے جایا جاتا ہے۔ بستر پر طویل عرصے تک لیٹنے کی وجہ سے کسی دن جسم پر ہونے والے زخم رسنے لگتے ہیں تو کبھی انہیں سانس لینے میں تکلیف، مسلسل کھانسی یا نہایت کمزوری کی شکایت ہوتی ہے۔
بیوی اور بچوں پر مشتمل گھرانے کے فرد علی کی طبیعت بگڑتی جا رہی ہے، geriatric care کی پیشہ ورانہ سروس کے ذریعے ان کی حالت میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے لیکن ایسی سروس دستیاب ہی نہیں ہے۔ ہسپتال میں بھرتی ہوجانے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ وہاں جنرل فزیشن ان کا علاج عام مریضوں کے طور پر ہی کرے گا، چنانچہ ان کی طبیعت میں بگاڑ پیدا کرنے والے مخصوص مسائل نظر انداز ہوجائیں گے۔
پاکستانی ڈاکٹرز اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جتنا ضروری یہ معاملہ ہے کہ دادی اور ان کے ہم عمروں کے معیارِ زندگی کو بہتر اور خوشحال بنانے کے لیے کیا کرنا چاہیے، بالکل اسی طرح یہ بھی اہم معاملہ ہے کہ یہ کیسے کرنا چاہیے۔
وہیل چیئر پر پوری احتیاط سے بٹھانے یا طویل وقت بستر پر سونے کے باعث ہونے والے زخموں سے بچانے کے لیے انہیں کروٹ بدلنے میں مدد کرنے، یا کپڑے بدلتے وقت سانس لینے میں کسی قسم کی تکلیف پر محتاط نظر رکھنے، کبھی کبھار ان کی طرف دیکھ کر مسکرا دینے یا محبت بھرا اشارہ کرنے سے ان کی طبیعت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان کی پسندیدہ خوشبو کا اسپرے کرنا اور سانس لینے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے نیبولائز کرنا بھلے ہی چھوٹے کام ہیں لیکن جس شخص کا خیال رکھا جا رہا ہے اور جو خیال رکھ رہا ہے، یہ کام دونوں کو ہی فائدہ پہنچاتے ہیں۔
دادی کی دنیا کا سیاہ ہوتا آسمان اور ہماری اپنی پُرجوش زندگیاں ایک مخصوص رفتار پر رواں دواں ہیں، مگر ہمارا یقین ہے کہ جو خاموشی ان کی زندگی پر طاری ہوچکی ہے اس کے باوجود ان میں محبت اور نگہداشت کے جذبات، درد اور خوشی کے شعور، اپنی بات کہنے اور دوسروں کی سننے کی اہم انسانی ضرورت کی اہمیت برقرار ہے۔ جب تک عمر رسیدہ شخص کی سانسیں چلتی ہیں تب تک انسانی تعلق اہمیت رکھتا ہے۔
دادی کے گھر والوں اور خیال رکھنے والوں کو ہر حال میں اپنا یہ رویہ قائم رکھنا ہوگا چاہے دادی کی طرف سے کوئی ردِعمل آئے یا نہ آئے۔ آپ ہی بتائیے کہ اگر عمر رسیدہ افراد کو مناسب geriatric care کی فراہمی اور تھوڑی ہمدردی ملے تو کیا پھر بھی ہمیں بوڑھوں کے لیے مخصوص گھروں کی ضرورت پڑے گی؟
یہ مضمون 3 اکتوبر کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں