طالب علم سے بدفعلی کیس: مفتی عزیز الرحمٰن، بیٹوں پر فرد جرم عائد
لاہور کی سیشن کورٹ نے مدرسے کے طالب علم سے بدفعلی کے کیس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سابق رہنما مفتی عزیر الرحمٰن اور اس کے 5 بیٹوں سمیت تمام 7 ملزمان پر فرد جرم عائد کر دی۔
جوڈیشل مجسٹریٹ رانا راشد نے کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت عدالت نے مفتی عزیر الرحمٰن اور اس کے بیٹے الطاف الرحمٰن، عتیق الرحمٰن، عطا الرحمٰن، وصی الرحمٰن اور لطیف الرحمٰن سمیت جرم میں ایک مبینہ معاون عبد اللہ پر فرد جرم عائد کی۔
تاہم مفتی عزیز الرحمٰن سمیت تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: طالبعلم سے بدفعلی: مفتی عزیز الرحمٰن کا اعتراف جرم سے انکار، جیل منتقل
عدالت نے آئندہ سماعت پر سرکاری وکیل کو گواہان کو پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 18 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کردی۔
واقعے کا پس منظر
خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں مفتی عزیز الرحمٰن کو ایک لڑکے سے مبینہ بدفعلی کرتے دیکھا گیا تھا جس کے بعد طالبعلم کی شکایت پر پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 377 (غیر فطری جرائم) اور دفعہ 506 (مجرمانہ دھمکی دینے کی سزا) کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔
17 جون کو درج پہلی انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق متاثرہ طالب علم نے بتایا کہ اسے جامعہ منظور الاسلامیہ میں 2013 میں داخلہ ملا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ امتحانات کے دوران مفتی عزیز الرحمٰن نے ان پر اور ان کے دوست طالب علم پر امتحان کے دوران کسی اور کو امتحان دلانے کا الزام لگایا تھا اور ساتھ ہی مجھ پر وفاق المدارس میں 3 سال تک امتحانات دینے پر پابندی عائد کردی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: طالبعلم کے ساتھ مبینہ بدفعلی: مفتی عزیز الرحمٰن کے خلاف مقدمہ درج
شکایت کنندہ نے مزید کہا تھا کہ انہوں نے مفتی عزیز الرحمٰن سے معاف کردینے کی التجا کی لیکن مفتی عزیز الرحمٰن نے کہا کہ اگر جنسی حرکتوں سے انہیں 'خوش' کردوں تو کچھ سوچ سکتے ہیں۔
شکایت کنندہ نے مزید کہا تھا کہ ان کے پاس جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، مفتی عزیز الرحمٰن نے دعویٰ کیا تھا کہ ان پر پابندی ختم ہوجائے گی اور امتحانات میں بھی پاس ہو جاؤ گے۔
شکایت کنندہ کے مطابق 'تین سال گزر گئے اور اس عرصے میں ہر جمعے کو بدفعلی کرتے لیکن مجھ پر پابندی ختم ہوئی نہ امتحانات میں پاس ہوا بلکہ مزید بلیک میل کرنا شروع کردیا، مدرسے کی انتظامیہ کو شکایت کی تو انہوں نے ماننے سے انکار کردیا کہ مفتی عزیز الرحمٰن 'بزرگ اور نیک سیرت شخص' ہیں بلکہ انتظامیہ نے الٹا مجھے ہی جھوٹا قرار دے دیا۔
شکایت کنندہ نے بتایا تھا کہ اس کے بعد مفتی عزیز الرحمٰن کی بدفعلی کی ریکارڈنگ پیش کی اور وفاق المدارس العربیہ کے ناظم کو دکھائی جس کے بعد مفتی عزیز الرحمٰن نے مجھے جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیں۔
مقدمے کے اندراج کے بعد 20 جون کو پولیس نے ملزم کو میانوالی سے دو بیٹوں سمیت گرفتار کرنے کے بعد لاہور منتقل کردیا گیا تھا۔