غیر منصفانہ ٹیکس وصولی کا نظام آخر کب تک؟
ہمارے نظامِ ٹیکس کے بڑے مسائل میں سے ایک اس نظام میں دانستہ اور نادانستہ طور پر گہرائی سے پیوستہ ناانصافیاں ہیں۔
یعنی وہ افراد جو اپنی مرضی یا ملازمتی/کاروباری تقاضوں کے باعث رجسٹر شدہ اور ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں وہ ایک بھاری رقم ٹیکس کی صورت میں دیتے ہیں۔ مگر دوسری طرف وہ لوگ جو ٹیکس گزار کی حیثیت سے رجسٹرڈ نہیں ہیں وہ ایک مدت سے تھوڑا یا بالکل بھی ٹیکس ادا نہیں کر رہے ہیں، اور اس پر ستم یہ کہ ان میں سے بہت سوں کو ریاست کی جانب سے بار بار کسی نہ کسی صورت میں رعایتیں بھی دی جاتی رہی ہیں۔ مزید برآں، ریاست نے مخصوص طبقات کو فائدہ پہنچانے کے لیے بہت سے ٹیکسوں کو معاف کردیا ہے جبکہ کچھ ایسے بھی شعبے ہیں جنہیں چند مواقع پر ٹیکس چھوٹ بھی دی جاتی ہے۔
اب جو لوگ ٹیکس نیٹ میں آتے ہیں اور جنہیں تمام ٹیکسوں کو ادا کرنا پڑتا ہے وہ محصولاتی نظام اور ریاست کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہوں گے؟
پڑھیے: صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ٹیکس قوانین کا نفاذ ملک کے لیے خطرناک کیوں؟
ناانصافی کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ زیادہ تر جن لوگوں کو ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے یا جو ان ٹیکسوں کی ادائیگی سے مطمئن ہیں انہیں بھی لگتا ہے کہ ان کے ٹیکس کے بدلے ریاست انہیں زیادہ کچھ نہیں دے رہی ہے۔
عام رائے یہی ہے کہ ریاست تعلیم اور صحت کی غیر معیاری سہولیات فراہم کرتی ہے جس کے سبب متوسط آمدن اور اعلیٰ آمدن کے حامل افراد ان سہولیات کے لیے اپنے علاقوں کے متعلقہ نجی اداروں کا رخ کرتے ہیں۔ فراہمی آب اور نکاس آب، کچرے کو ٹکھانے لگانے اور سیکیورٹی کے لیے بھی اکثر نجی اداروں کی اضافی مدد حاصل کی جاتی ہیں اور چند جگہوں پر ایسے تمام تر کاموں کا مکمل انحصار نجی شعبے پر ہوتا ہے۔
بہت سے ٹیکس دہندگان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناانصافی صرف یہیں تک محدود نہیں۔ کئی ٹیکس دہندگان تو اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ نجی شعبے سے اپنی ضروریات پوری کرلیں مگر جن کے پاس وسائل کی کمی ہے انہیں پھر (پانی، نکاس آب، صحت، تعلیم، سیکیورٹی کی) سرکاری خدمات پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یوں انہیں پھر سرکار کی جانب سے غیر معیاری خدمات فراہم کی جارہی ہوتی ہیں۔ اب اگر ریاست غیر منصفانہ اور کسی حد تک زبردستی کرنے والے نظام کے تحت حاصل کردہ محصولات کے ذریعے اس پر منحصر افراد کو سہولیات فراہم نہ کرسکے تو ایسی صورتحال سے شہری کس طرح مطمئن ہوسکتے ہیں؟
انکم ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے 35 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر آپ اپنی ماہانہ آمدن کے معاملے میں متوسط یا اس سے تھوڑے بڑے درجے میں آتے ہیں اور ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں (یہ بات تقریباً تمام تنخواہ دار طبقہ اور رجسٹر شدہ کاروبار پر صادق آتی ہے) تو عین ممکن ہے کہ آپ صرف انکم ٹیکس کی مد میں ہی اپنی آمدن کا اوسطاً 15 سے 20 فیصد حصہ بطور ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ تنخواہ داروں کو تو ٹیکس ادا کرنے کی نوبت بھی نہیں آتی کیونکہ انہیں ٹیکس کٹوتی کے بعد ہی تنخواہ ملتی ہے۔
پھر آتا ہے سیلز ٹیکس جو اکثر مصنوعات اور متعدد سروسز پر تقریباً 16 سے 17 فیصد تک ادا کرنا پڑتا ہے، اور بہت سی مصنوعات اور سروسز کی فراہمی پر ایسے خصوصی لیویز اور ٹیکس ادا کرنے پڑتے ہیں جن کی inelastic demand ہوتی ہے (یعنی وہ مصنوعات اور سروسز جن کی قیمت بڑھنے کے باوجود طلب کو زیادہ نقصان نہیں پہنچتا) یا جہاں سے ریاست باآسانی اور کم خرچ کے ساتھ ٹیکس وصول کرسکتی ہے۔
پڑھیے: معاشی اعتبار سے وزیراعظم عمران خان کے 3 سال
ان میں ٹیلی فون بل، گیس اور بجلی کی سہولیات کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات شامل ہیں۔ رواں ماہ میں نے اپنے بجلی کا جو بل ادا کیا اس کی رقم کا 25 فیصد حصہ اضافی ٹیکسوں اور سرچارجز پر مشتمل تھا۔ پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس وصولی کے درجے کو اگرچہ بڑی حد تک مبہم رکھا جاتا ہے، لیکن ان پر اچھا خاصا ٹیکس وصول ضرور کیا جاتا ہے۔ روڈ ٹیکس اور مقامی پانی اور دیگر سرچارجز سمیت دیگر تمام سروسز پر بھی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔
تنخواہ دار، رجسٹر شدہ اور ٹیکس نیٹ میں شامل افراد غالباً اور اوسطاً اپنی آمدن کا تقریباً 50 فیصد مختلف ٹیکسوں کی صورت میں ریاست کو دے دیتے ہیں۔ یہ تناسب کسی بھی طور پر معمولی نہیں کہا جاسکتا۔
جو افراد ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ہیں اور/یا جنہیں ٹیکس معاف کیا گیا ہے، انہیں اوسط کے اعتبار سے صرف بالواسطہ ٹیکس ادا کرنے پڑتے ہیں۔ لہٰذا ناانصافی عیاں ہے۔ کاشتکاروں کو ٹیکس کی چھوٹ کیوں دی جائے؟ تاجروں یا پراپرٹی کے کاروبار سے منافع کمانے والوں کو معمولی سا ٹیکس کیوں دینا پڑتا ہے؟ یہ کہنا کہ ریاست ان کے لیے ٹیکس وصولی کا نظام بنانے سے قاصر ہے، اسے ناانصافی نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے۔ گزشتہ دہائیوں کے دوران ریاست ایک منصفانہ نظام تیار کرنے میں ناکام کیوں رہی ہے؟
مگر جب ٹیکس دہندگان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ریاست ان کی ٹیکس ادائیگیوں یا بالجبر ادائیگیوں کے بدلے میں کوئی کام نہیں کر رہی تب صورتحال مزید دلخراش ہوجاتی ہے۔
زیادہ تر ٹیکس دہندہ آبادی صحت، تعلیم، پانی، کچرے کو ٹھکانے لگانے اور یہاں تک کہ سیکیورٹی جیسی سہولیات کے لیے بھی نجی شعبے کی خدمات حاصل کرتی ہے۔ نجی شعبے کے ملازمین پینشن کے فوائد یا دیگر مراعات سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ مجھے 60 برس کے بعد اولڈ ایج بینیفٹ اسکیم کے تحت 9 ہزار ماہانہ ملیں گے۔ اس رقم کا ایک بڑا حصہ بھی ادارہ ہی فراہم کرتا ہے۔
ریاست کی جانب سے جو خدمات فراہم کی جاتی ہیں وہ عموماً غیر معیاری ہوتی ہیں یوں معاملہ مزید بگڑ جاتا ہے۔ چنانچہ ہر قسم کی سہولت کے لیے ریاست کی خدمات پر منحصر رہنے والے شہریوں کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے جبکہ جو لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں وہ اپنے حصے سے زیادہ کا کام انجام دے رہے ہیں۔ یوں نظام کی بظاہر اور حقیقی ناانصافیوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
پڑھیے: امیر امیر تر اور غریب غریب تر کیوں ہو رہا ہے؟
ایک دوسرے کے پیچھے اقتدار میں آنے والی حکومتوں کے وعدوں کے باوجود ریاست ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے میں یا تو ناکام رہی ہے یا پھر راضی ہی نہیں ہے۔ مگر ہر سال ریونیو کی ضرورت اور ریونیو کو پیدا کرنے کا دباؤ بڑھتا جاتا ہے۔
ریاست چاہتے نہ چاہتے ہوئے بالواسطہ ٹیکس دینے والوں پر تکیہ کرتی ہے یا پھر ان افراد سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس بٹورنے کی کوشش کرتی ہے جو پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں۔ دونوں آپشنز ہی ٹیکس نظام کی ناانصافی کو بڑھاتے ہیں۔
ہمیں نظام کی اس روش کا خاتمہ کرنے کے لیے لائحہ عمل درکار ہے۔ اگر اس روش کا خاتمہ نہ ہوا تو زیادہ ریونیو پیدا کرنے کی ریاست کی صلاحیت کمزور ہوگی اور یہ کمزوری اقتصادی پیداوار اور استحکام کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔ شہریوں کی وفاداری اور سماجی معاہدے پر بھی اس کے نمایاں اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ مضمون یکم اکتوبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (4) بند ہیں