• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

ستمبر میں مہنگائی کی شرح 9 فیصد ریکارڈ

شائع October 2, 2021
عالمی منڈی میں تیل کی قیمت رواں سال جنوری میں 40 ڈالر کے مقابلے میں 80 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے — فائل فوٹو: شہاب نفیس
عالمی منڈی میں تیل کی قیمت رواں سال جنوری میں 40 ڈالر کے مقابلے میں 80 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے — فائل فوٹو: شہاب نفیس

پاکستان شماریات بیورو (پی بی ایس) کے مطابق اشیائے ضروریہ کی قیمتیں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث 3 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے ذریعہ افراط زر (مہنگائی) اگست کے مقابلے میں 8.4 فیصد سے بڑھ کر ستمبر میں 9 فیصد تک پہنچ گئی، اسی عرصے میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوا۔

مزید پڑھیں: 12 ماہ کے وقفے کے بعد مہنگائی کی شرح دوبارہ دہرے ہندسوں تک جا پہنچی

عالمی منڈی میں تیل کی قیمت رواں سال جنوری میں 40 ڈالر کے مقابلے میں 80 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے۔

گزشتہ تین ماہ کے دوران سبزیوں، پھلوں اور گوشت کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہوا ہے۔

جولائی تا ستمبر کے دوران اوسط افراط زر سالانہ بنیادوں پر بڑھ کر 8.58 فیصد ہو گیا، مہنگائی اپریل میں 11.1 فیصد تک بڑھنے کے بعد کم ہونا شروع ہوئی تھی جس کی بنیادی وجہ زرعی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی تھی۔

2020-21 میں سالانہ سی پی آئی افراط زر 8.90 فیصد ریکارڈ کیا گیا جو کہ گزشتہ برس 10.74 فیصد تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح کم ہو کر 8.90 فیصد ہوگئی

گزشتہ دو برس سے چینی اور گندم کی کم پیداوار کے باعث خوراک کی افراط زر میں جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا جس کی وجہ سے دیگر اشیا کی قیمتوں میں میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔

اشیائے خورونوش کی افراط زر اب بھی بلند سطح پر ہے کیونکہ شہری علاقوں میں یہ ستمبر میں سالانہ بنیادوں پر 10.8 فیصد اور ماہانہ بنیادوں پر 3.6 فیصد بڑھی جبکہ دیہی علاقوں میں متعلقہ قیمت کی سطح 9.1 فیصد اور 3.7 فیصد رہی۔

شماریات بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق اگست کے مقابلے میں ستمبر میں شہری علاقوں میں اشیائے خورونوش مثلاً مرغی 42.04 فیصد، پیاز 32.49 فیصد، دال مسور 15.70 فیصد، انڈے 14.43 فیصد، گندم کا آٹا 9.69 فیصد، گندم 7.31 فیصد، سرسوں کا تیل 4.56 فیصد، دال چنا 4.33 فیصد، سبزیاں 3.95 فیصد، دال ماش 3.81 فیصد، خوردنی تیل 3.64 فیصد، پھلیاں 3.35 فیصد، گھی 3.20 فیصد، چینی 3.04 فیصد، چائے 2.78 فیصد، بیسن 2.37 فیصد اور گوشت 2.20 فیصد مہنگا ہوا۔

مزید پڑھیں: فروری میں مہنگائی کی شرح 8.7 فیصد تک بڑھ گئی

شہری علاقوں میں ٹماٹر کی قیمتوں میں 18.90 فیصد، دال مونگ میں 4.02 فیصد اور آلو میں 2.62 فیصد کمی دیکھنے میں آئی، دیہی علاقوں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی اسی طرح اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

اس سے قبل وزیر خزانہ شوکت ترین نے خوراک کی قیمتوں میں اضافے کو کورونا وبا سے جوڑا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان گزشتہ 3 برس میں خوراک درآمد کرنے والا ملک بن چکا ہے۔

انہوں نے سابق حکومت پر زراعت کے شعبے کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا لیکن مہنگائی سے پریشان متوسط اور نچلے درمیانے طبقے پر خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے اثرات کو کم کرنے کا کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا تھا۔

دریں اثنا شہری علاقوں میں خوراک کے علاوہ دیگر اشیا پر مشتمل افراط زر سال بہ سال 8.1 فیصد اور ماہانہ 1.1 فیصد ریکارڈ کیا گیا جبکہ دیہی علاقوں میں بالترتیب 8.5 اور ایک فیصد اضافہ ہوا۔

غیر خوراکی افراط زر میں اضافہ بنیادی طور پر ستمبر میں تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافے کی وجہ سے ہوا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024