طالبان امن کے لیے امریکا کے شراکت دار ہوسکتے ہیں، عمران خان
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے نئے حکمران، طالبان خطے میں امن کے لیے امریکا کے شراکت دار ہوسکتے ہیں۔
بین الاقوامی جریدے کو طویل انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان کو گزشتہ 20 سالوں سے امریکا اور نیٹو کے تعاون سے چلنے والے گورننس کی منتقلی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ایسا لگتا ہے کہ طالبان نے 40 سالوں میں پہلی مرتبہ پورے ملک پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے، اس لیے ایک امید ہے کہ پورے افغانستان میں سیکیورٹی قائم ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: ’اقوام متحدہ میں عمران خان کی تقریر 1992ورلڈکپ کی طرح ہمیشہ یاد رہے گی‘
خیال رہے کہ وزیراعظم کے مذکورہ خصوصی انٹرویو کے حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری نے بھی سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کیا تھا۔
وزیر اعظم نے غیر ملکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے مزید کہا کہ 'ایک پرامن افغانستان، پاکستان کے لیے فائدہ مند ہوگا اور تجارت اور ترقیاتی منصوبوں کے امکانات کھولے گا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'تاہم کووڈ 19، تنازعات اور سابقہ حکومتوں کی ناکامیوں کی وجہ سے افغانستان کو انسانی بحران کا سامنا ہے، اس کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے، اس کے علاوہ ہمیں کابل میں حکام کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں بالخصوص تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو بے اثر کیا جا سکے'۔
'امریکا افغانستان میں مثبت کردار ادا کرسکتا ہے'
امریکا کے افغانستان کے حوالے سے اقدام سے اس کی ساکھ اور اثر و رسوخ کے متاثر ہونے کے بارے میں سوال کے جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ امریکا نے اپنی ذمہ داری، مہنگی ترین فوجی مداخلت کو ختم کردیا ہے جو امریکی صدر نے خود تسلیم کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان اور امریکا دونوں کو افغانستان سے دہشت گردی کو روکنے کی ضرورت ہے، اس مقصد کے لیے ہمیں اس ملک میں انسانی بحران سے نمٹنے اور اس کی معاشی بحالی کی حمایت کرتے ہوئے افغانستان کے استحکام میں مدد کے لیے تعاون کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ 'یقیناً امریکا کے کابل سے افراتفری میں انخلا کی وجہ سے فوری طور پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، امریکا نے افغانستان سے اپنی مرضی سے انخلا کیا ہے لہذا مجھے نہیں لگتا کہ امریکی انخلا طویل المدتی میں عالمی سطح پر امریکی ساکھ کو ختم کرے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: پھانسی، ہاتھ کاٹنے کی سزائیں بحال کی جائیں گی، طالبان رہنما
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 'جہاں تک چین کا تعلق ہے اگر چین، افغانستان کو معاشی مدد فراہم کرتا ہے تو یہ فطری بات ہے کہ افغانی اسے قبول کر لیں گے، طالبان نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) میں شامل ہونے اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کے امکانات کا خیر مقدم کیا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'تاہم امریکا بھی افغانستان میں انسانی امداد فراہم کر کے افغانستان کی بحالی اور تعمیر نو میں حصہ ڈال کر اور افغانستان سے دہشت گردی پر قابو پانے میں تعاون کر کے یہاں ایک اہم اور مثبت کردار ادا کر سکتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ امریکا، افغانستان میں نئی حکومت کے ساتھ مل کر مشترکہ مفادات اور علاقائی استحکام کو فروغ دے سکتا ہے'۔
'نئی حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے فیصلے کو ترجیح دیں گے'
پاکستان کا ماضی کی طرح نئے اسلامی امارات افغانستان کو تسلیم کرنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ طالبان نے ایک 'قائم مقام حکومت' قائم کر رکھی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بعد میں حکومت کے مزید مستقل ڈھانچے کا اعلان کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس بات کا پابند ہے کہ وہ افغانستان میں ڈی فیکٹو حکام کے ساتھ مشاورت کرے تاکہ پڑوسی ملک میں معاشی اور انسانی بحران اور دہشت گردی کی بحالی کو روکا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ 'ایک بار جب کابل میں حکومت پورے ملک پر کنٹرول قائم کر لے گی تو وہ قانونی طور پر تسلیم کے لیے اہل ہو جائے گی تاہم پاکستان، افغانستان کے دیگر پڑوسیوں کے ساتھ مل کر نئی حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کسی فیصلے تک پہنچنے کو ترجیح دے گا'۔
'افغان حکام کے ساتھ ملکر دہشت گردی کو روکنے کے لیے کام کریں گے'
عسکریت پسند اور علیحدگی پسند گروہ کی جانب سے دیگر ممالک کے خلاف حملوں کی سازش کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کی تشویش سے نمٹنے سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 'درحقیقت ایسے دہشت گرد گروہوں کی کثرت ہے جو افغانستان کے تنازع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ملک میں موجود ہیں، پاکستان، افغانستان سے دہشت گردی کے خطرے کے بارے میں انتہائی تشویش میں مبتلا ہے خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے بارے میں جس نے بعض دشمن خفیہ ایجنسیوں کی سرپرستی اور مدد سے افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف ہزاروں حملے کیے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ٹی ٹی پی، پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں پر زیادہ تر حملوں کا ذمہ دار بھی رہا ہے، شاید ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) کی مدد سے پاکستان، افغانستان میں حکام کے ساتھ مل کر ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گردی کو افغانستان سے روکنے کے لیے کام کرے گا'۔
'بھارت کے لیے امریکی فوجی مدد، چین کو روکنے کے لیے ہے'
امریکا کے بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات پر زیادہ توجہ، اس کی سیکیورٹی ڈائیلاگ میں رکنیت اور کشمیر میں موجود کشیدگی کے پیش نظر کیا یہ پاکستان کی تشویش کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغانستان سے دہشت گردوں کے خطرات کو بے اثر کرنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کو فروغ دینا چاہتا ہے، ہم اس کوشش میں امریکا سمیت بین الاقوامی برادری سے تعاون کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت کے لیے امریکی فوجی مدد، چین کو روکنے کے لیے ہے بشمول نام نہاد سیکیورٹی ڈائیلاگ، اس حکمت عملی کی ساکھ پر پاکستان کے اپنے خیالات ہیں'۔
مزید پڑھیں: بھارت: اتر پردیش میں مسلمان پر تشدد، زبردستی جے شری رام کے نعرے لگوائے گئے
انہوں نے کہا کہ 'ہمارے خیال میں بھارت کبھی بھی چین کا مقابلہ نہیں کرے گا خاص طور پر امریکی اسٹریٹجک مقاصد کی تکمیل کے لیے، خود کو اتنے بڑے پیمانے پر مسلح کرنے میں بھارت کا مقصد جنوبی ایشیا میں اپنا تسلط قائم کرنا اور خاص طور پر پاکستان کو دھمکانا اور مجبور کرنا ہے'۔
انہوں نے بتایا کہ 'تمام بھارتی فوجی صلاحیتوں میں سے 70 فیصد پاکستان کے خلاف تعینات ہیں، چین کے خلاف نہیں، اس لیے پاکستان کو بھارت کو جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی فراہمی کے بارے میں جائز تحفظات ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اس سے تنازع کے امکانات بڑھنے کے علاوہ جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی دوڑ بھارت اور پاکستان دونوں کو سماجی و اقتصادی ترقی اور اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود میں سرمایہ کاری سے ہٹا دے گا'۔
'امید ہے کہ بیجنگ اور واشنگٹن مستقبل قریب میں ایک ہی نتیجے پر پہنچیں گے'
جب وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کا امریکا اور چین کی وسیع دشمنی میں پھنسنے کا امکان ہے؟ ج سکے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات 70 سال پرانے ہیں، یہ اقتصادی، تکنیکی، فوجی اور دیگر شعبوں پر محیط ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'اس پورے عرصے میں پاکستان نے بیک وقت امریکا کے ساتھ بھی قریبی تعلقات قائم رکھے ہیں، درحقیقت یہ پاکستان تھا جس نے پہلی مرتبہ 1971 میں امریکا اور چین کو اکٹھا کیا تھا، ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا اور چین کی موجودہ دشمنی غیر ضروری اور دونوں عالمی قوتوں کے مفادات کے خلاف ہے، ان کے درمیان تعاون دونوں کے لیے فائدہ مند ہوگا اور ان بے شمار عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے جو ہمیں درپیش ہیں، جن میں کووڈ 19 وبائی مرض، ترقی پذیر ممالک میں معاشی بحران اور ماحولیاتی تبدیلی شامل ہے'۔
وزیر اعظم نے کہا کہ 'ہمیں امید ہے کہ بیجنگ اور واشنگٹن دونوں مستقبل قریب میں ایک ہی نتیجے پر پہنچیں گے'۔
'ایس سی او، ایشیا میں استحکام کو فروغ دینے کے لیے کام کرسکتا ہے'
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہان مملکت کے اجلاس کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'ہم ایس سی او کو ایک علاقائی تنظیم کے طور پر اہمیت دیتے ہیں جو ایشیائی کے قلب میں قائم ممالک کا گروپ ہے، ایس سی او سمٹ میں، میں نے صورتحال کے بارے میں پاکستان کا نقطہ نظر پیش کیا اور افغانستان کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے خطے کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ممکنہ راستہ پیش کیا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر بھارت، پاکستان کے ساتھ تعلقات میں مثبت پوزیشن اختیار کرتا ہے تو ایس سی او ایشیائی براعظم کے اس وسیع علاقے میں استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے ایک مفید پلیٹ فارم کے طور پر کام کر سکتا ہے'۔
'سی پیک منصوبوں کے نفاذ میں تیزی لائی جائے گی'
چین کے ساتھ پاکستان کی معاشی صف بندی کے ملک کو فوائد کے حوالے سے سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ چین پہلے ہی چائینا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت تقریباً 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے، 20 ارب مالیت کے اضافی منصوبے زیر عمل ہیں، مزید 25 ارب ڈالر کے منصوبے پائپ لائن میں ہیں، کووڈ 19 وبائی امراض نے کچھ منصوبوں پر عملدرآمد سست کر دیا ہے تاہم سی پیک کے مقاصد شیڈول کے مطابق حاصل کیے جا رہے ہیں اور مستقبل میں ان کے نفاذ میں تیزی لائی جائے گی۔
مزید پڑھیں: طالبان کو ایک موقع دینا چاہیے شاید وہ بدل گئے ہوں، سربراہ برطانوی فوج
ان کا کہنا تھا کہ 'امریکا اور جی 7 کا بہتر دنیا کی تعمیر کے اقدام کا پاکستان کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا ہے، ہم اسے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے مقابلے میں نہیں دیکھتے، یہ ایک ایسا اقدام ہے جو انفرا اسٹرکچر اور دیگر منصوبوں کی تعمیر میں حصہ ڈال سکتا ہے جو ترقی پذیر ممالک کو اپنے ترقیاتی مقاصد اور پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کے قابل بنانے کے لیے بہت اہم ہیں'۔
'دنیا کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جامع عالمی حکمت عملی کی ضرورت'
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران امریکا کی 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' میں کامیابیوں اور ناکامیوں کے بارے میں سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کی ذمہ دار تنظیم القاعدہ افغانستان میں ختم ہوچکی ہے، جس کی بڑی وجہ گزشتہ 20 سالوں میں پاکستان اور امریکا کا انسداد دہشت گردی تعاون ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'تاہم دہشت گردی کی بنیادی وجوہات پر توجہ نہیں دی گئی ہے، اس کے نتیجے میں دہشت گرد گروہوں کا نظریہ اور بیانیہ افریقہ سمیت دنیا کے کئی علاقوں میں پھیل گیا ہے اور نئی دہشت گرد تنظیمیں ابھر کر سامنے آئی ہیں'۔
انہوں نے بتایا کہ 'اس کے علاوہ مسلم مخالف انتہا پسند تحریکیں اور دہشت گرد گروہ دنیا کے کئی حصوں میں ابھرے ہیں، ہم بھارت کے انتہا پسند ہندوتوا نظریے میں اس طرح کے اسلاموفوبیا کا مضبوط ترین مظہر دیکھتے ہیں جس نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں اور 20 کروڑ بھارتی مسلمان اقلیت کے خلاف ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کو ہوا دی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'دنیا کو دہشت گردی کے ان نئے مظاہروں سے نمٹنے کے لیے ایک نئی اور جامع عالمی انسداد دہشت گردی حکمت عملی کی ضرورت ہے'۔
'پاکستان کبھی نہیں چاہتا کہ افغانستان میں مزید تنازع اور ہنگامہ آرائی ہو'
افغانستان سے امریکی انخلا کے خطے پر طویل المدتی اثرات کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ 'چار دہائیوں کی جنگ اور تنازعات نے افغانستان کی معیشت، معاشرے اور سیاست پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں، طویل جنگ کے خاتمے اور افغانستان اور خطے میں امن، استحکام اور ترقی لانے کے لیے آج امید کی کرن ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر خارجہ شاہ محمود کی پہلی مرتبہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ سے ملاقات
ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کبھی نہیں چاہتا کہ افغانستان میں مزید تنازع اور ہنگامہ آرائی ہو'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہماری اُمید ہے کہ افغانستان کو انسانی مدد، اقتصادی مدد، اور رابطے اور بنیادی اسٹرکچر کے منصوبوں کے ذریعے مستحکم کیا جائے گا اور امریکا، چین اور روس سب مل کر افغانستان کو پرسکون اور تعمیر نو میں حصہ ڈالیں گے'۔
انہوں نے کہا کہ 'دوسری جانب اگر افغانستان کے اندر اور علاقائی ریاستوں اور عالمی قوتوں کے درمیان دشمنی برقرار رہتی ہے تو یہ افغانستان میں تشدد اور تنازعات کے ایک نئے دور کا باعث بن سکتا ہے، اس سے مہاجرین کا نیا بہاؤ پیدا ہوگا، افغانستان سے دہشت گردی کا خطرہ بڑھ جائے گا اور پورے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوگا'۔
تبصرے (2) بند ہیں