جربہ ژھو: موسم کے ساتھ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی جھیل
قبلِ مسیح دور میں پلولو کے نام سے معروف خطہ بلتستان کو سیاحتی، معاشرتی، تاریخی اور تمدنی اعتبار سے ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔
خطہ بلتستان میں دنیا کے 30 سے زیادہ بلند ترین پہاڑ واقع ہیں جن میں کے ٹو بھی شامل ہے۔ قطبین کے بعد گلیشیئر کا سب سے بڑا ذخیرہ بلتستان میں ہی موجود ہے جن میں سیاچن گلیشیئر، بلتورو گلیشیئر اور بیافو گلیشیئر مشہور ہیں۔
10 ہزار مربع میل سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا یہ خطہ انتہائی خوبصورت ہے۔
روندو، خپلو، شگر، کھرمنگ اور گلتری کی خوبصورت وادیوں کا مسکن بلتستان کا صدر مقام اسکردو ہے۔ اس کے جنوب میں کشمیر، مشرق میں لداخ اور کارگل، مغرب میں گلگت اور دیامر جبکہ شمال میں قراقرم کے بلند وبالا پہاڑ اسے چین کے صوبہ سنکیانگ سے جدا کرتے ہیں۔
بلتستان کا خطہ اپنے خوبصورت نظاروں، بڑی جھیلوں، دلکش و ہوش ربا وادیوں، اونچے برفیلے کوہساروں، دیوسائی کے بڑے میدانوں، ورطہ حیرت میں ڈال دینے والی آبشاروں اور سیکڑوں سال سے مکین مقامی باشندوں کی بود و باش کی بدولت ملکی اور غیر ملکی سیاحوں میں خاصا مقبول ہے۔
صدر مقام اسکردو سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر شگر نامی ایک انتہائی خوبصورت اور پُرفضا مقام واقع ہے جو بلتستان ڈویژن کے کسی بھی ضلع سے آبادی اور رقبے دونوں کے لحاظ سے بڑا علاقہ ہے۔ موسمِ گرما میں یہاں آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔
شگر اپنے قدیم قلعے اور مساجد و خانقاہوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ اس علاقے کو قدرت نے بے پناہ سبزے اور پھل دار درختوں سے نواز رکھا ہے۔ موسمِ گرما میں راہ چلتے دیسی خوبانی ہلمان یا مارغولام کھانے کا موقع میسر آجائے تو سمجھ لیں کہ آپ کے سفر کرنے کا ایک بڑا مقصد پورا ہوگیا۔
بلند چوٹیوں میں کے ٹو کے علاوہ گشہ بروم ون، گشہ بروم ٹو، ٹرانگو ٹاور جیسی چوٹیاں بھی ہیں جو برالڈو ایریا میں دنیا بھر سے کوہ پیماؤں اور سیاحوں کو کھینچ لانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ مسجد امبوڑک، پھونگ کھر، خانقاہ معلیٰ، حشوپی باغ، گرم چشمہ چھوترون، گرم چشمہ بیسل، مونوکو سپنگ اور جربہ ژھو کے مقامات کو ضلع شگر میں خاص اہمیت حاصل ہے۔
یوں تو بلتستان میں بہت ہی سہل اور چھوٹے درجے یا بہت ہی بڑے اور سخت درجے کی ٹریکنگ کرکے کسی خوبصورت جھیل کا دیدار نصیب ہوسکتا ہے لیکن بلائنڈ جھیل ایسی خوبصورت جھیل ہے جسے شگر کا قصد کرنے والے باآسانی دیکھ کر ایک ہی دن میں واپس اسکردو آسکتے ہیں۔
بلتی زبان میں جربہ اندھے جبکہ ژھو جھیل کو کہتے ہیں اسی لیے اسے انگریزی زبان میں بلائنڈ لیک بھی کہا جاتا ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق چونکہ جھیل میں پانی کے اخراج کا کچھ پتا نہیں اس وجہ سے اسے اندھی جھیل کا نام دیا گیا ہے۔ شاید جھیل کے نیچے ہی پانی کے چشمے موجود ہوں گے جو اس خوبصورت اور دلکش جھیل کو پانی فراہم کرتے ہیں۔
شگر خاص سے چند کلومیٹر پہلے ایک راستہ بائیں جانب جھیل کی طرف مُڑ جاتا ہے۔ اس کچے راستے پر جانے کے لیے فور وہیل گاڑی لازمی نہیں کیونکہ وہاں موٹر سائیکل اور کار بھی جاسکتی ہے۔ مین روڈ سے یہ راستہ 4 سے 5 کلومیٹر کی دُوری پر واقع ہے۔
بلائنڈ لیک کو سب سے پہلے گزشتہ سال موسمِ خزاں کے دوران ماہ اکتوبر میں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ موسمِ خزاں کا اصل لطف بلتستان میں 2 ہی مقامات پر حاصل کیا جاسکتا ہے: یا تو خپلو روڈ پر جاتے وقت غواڑی گاؤں سے قبل روڈ کے دونوں اطراف کھڑے درختوں کی قطاروں کا نظارہ کیجیے یا پھر شگر میں موجود گھنے باغات کا رُخ کیجیے جہاں انسان کے اندر کا رومان مچل اٹھتا ہے۔
جھیل کے اطراف کسی قسم کے درخت موجود نہیں تھے لہٰذا خزاں سے محظوظ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔ البتہ جھیل کے اوپر جمی کرسٹل نما برف کی تہہ نے ہماری سیاحت کا مزہ دوبالا کردیا تھا۔ چہرے اور سوکھی گھاس سے ٹکراتی ہوا جیسے سرگوشیاں کرتی ہوں۔ جھیل کی سطح پر پانی منجمد ہوکر کرسٹل کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
فطرت کے نظارے ہوں اور ساتھ میں اگر چائے کی چسکیاں ہوں تو کیا ہی بات ہے، سو اس سفر میں میرے ایک ساتھی جھیل کے عقب میں خیمہ نصب کرکے چائے بنانے میں مصروف ہوگئے جبکہ میں نے جھیل کی تصاویر بنانی شروع کردیں۔
برف کی شفاف پرت کے نیچے متحرک پانی کو دیکھ کر یوں محسوس ہوا کہ کسی نے پانی کو شیشے سے ڈھانپ دیا ہے۔ جھیل کی تہہ جس جگہ سے کمزور تھی اس جگہ پر بڑے بڑے سوراخ سے بن گئے تھے۔
ڈرون سے یہ منظر قابلِ دید تھا۔ بظاہر بڑے سے کنویں نظر آنے والے ان دائروں میں سے پانی جب کبھی پریشر کی وجہ سے باہر نکلتا تو ایک ہیبت ناک سی آواز آتی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ کسی نے ہلکا سا بگل بجایا ہو۔
جھیل کے اطراف جمی برف کے نیچے چہار سو پھیلی ہوئی کائی جھیل کے نظارے میں اپنا رنگ بھر رہی تھی۔ جھیل کے بیچوں بیچ موجود ٹراؤٹ فارم بھی کسی لحاظ سے کم نہ تھا۔ ٹھنڈی جھیل ٹراؤٹ مچھلیوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھی۔
لمحے منٹوں اور منٹ گھنٹوں میں بدلے، الغرض وقت تیزی سے گزر گیا اور سورج جلد ہی بڑے قراقرم پہاڑوں کی اوٹ میں جا پہنچا۔
اس روز من ہی من میں تہیہ کر بیٹھا کہ اس جھیل پر دوبارہ ضرور آؤں گا لیکن قسمت کی مہربانی کہیے کہ ایک بار نہیں، بلکہ دو بار اس جھیل کو فلمانے کا موقع ملا۔
وقت گزرتا گیا اور جھیل کے محسور کن خدوخال دل میں گھر کرتے گئے۔ چند ماہ بعد پھر اسکردو سے شگر جانا نصیب ہوا۔ جنوری کا وسط تھا اور عموماً یہ برف باری کا موسم ہوتا ہے۔ کھرمنگ میں ایک دوست کے گھر رات قیام کیا۔ صبح سویرے اٹھا تو آسمان سے گرتی برف نے دل کو تر و تازہ کردیا۔
یوں لگتا تھا جیسے چھوٹے چھوٹے روئی کے گالے آسمان سے گر رہے ہوں۔ اسی اثنا میں راستے بند ہوجانے کے ڈر سے دوست کو شگر کا قصد کرنا پڑگیا اور یوں ایک مرتبہ پھر میں جھیل کے کنارے جا پہنچا۔ برف باری تھم گئی لیکن جھیل پوری طرح برف کا لبادہ اوڑھ چکی تھی۔ ویسے تو ہر موسم میں بلائنڈ جھیل کا حُسن دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے لیکن موسمِ سرما میں اس جھیل کی سحر خیزیاں الگ ہی رنگوں میں سامنے آرہی تھیں۔
جھیل کا یہ روپ بھی خوبصورتی میں کسی طرح کم نہ تھا۔ برف پوش جھیل اردگرد کے خشک پہاڑوں کے گھیرے میں اپنا ممتاز وجود لیے ہوئے تھی۔ اطراف میں قراقرم کی خشک بلندیاں ہر قسم کے سبزے سے عاری ہوتی ہیں۔ یہ بھوری چٹانیں جھیل پر سینہ تانے کھڑی گویا اس کی حفاظت کا ذمہ لیے ہوئے تھیں۔ جھیل کے کناروں پر خودرو پودے اور مختلف اقسام کی جھاڑیاں بھی موسمِ سرما میں بھورا رنگ اختیار کرکے پہاڑوں کے رنگ میں رنگ جاتی ہیں۔ جھیل کا یہ رنگ بہت ہی بھلا معلوم ہوتا ہے۔ جلد ہی تیز ہوا اور خشک سردی نے ہمیں جھیل سے ایک مرتبہ پھر الوداع کہنے کا اشارہ دیا اور یوں ہم اس خوبصورت جھیل کے کنارے آہستہ آہستہ شگر روڈ کی جانب ہولیے۔
2021ء سیاحوں کے لیے ایک اچھا سال ثابت ہوا۔ دیوسائی کی ٹریکنگ کرنے سے قبل ایک مرتبہ پھر بلائنڈ لیک کی طرف جانے کا من کیا۔ شاید اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ موسمِ خزاں اور موسمِ سرما میں جھیل کے رنگ دیکھ کر اب میرا دل موسمِ گرما میں جھیل کی رعنائیاں دیکھنا چاہتا تھا، سو میں چند دوستوں کے ہمراہ ایک مرتبہ پھر جھیل کی طرف روانہ ہوگیا۔
موسمِ گرما کی تپش دن کے وقت شگر کی خشک چٹانوں کو گرما دیتی ہے اس لیے سوچا کہ جھیل پر نہانے کا موقع بھی مل جائے گا۔ موسمِ گرما میں جھیل کا حُسن بالکل مختلف تھا۔ جھیل اور اس کے اردگرد گھاس سر اٹھا چکی تھی۔
سبزہ اور جھیل کا نیلگوں پانی سورج کی چمکتی دھوپ میں منفرد رنگ پیش کررہے تھے۔ سردیوں کے خاموش ایام کے بعد موسمِ گرما کی آمد کے ساتھ ہی پرندوں کی چہچہاہٹ اور کناروں پر پانی کے ٹکرانے سے ایک مُدھر آواز کانوں میں رس گھولنے لگتی ہے۔ بس یوں سمجھیے کہ طمانیت کا سامان وہیں پر تھا۔
جھیل کی سطح پر پہاڑوں کا عکس بھی بھلا معلوم ہورہا تھا (کشمیر، استور یا سوات کی جھیلوں کے اردگرد پہاڑ قدرے سبز یا زیادہ پتھریلے ہوتے ہیں جبکہ سلسلہ کوہ قراقرم کے خشک اور مٹی کے پہاڑوں کے گرد جھیلوں کے ملنے کی توقع صرف گلگت بلتستان سے وابستہ کی جاسکتی ہے)۔ اسی طرح جھیل کے کنارے موجود کائی موسمِ گرما کی آمد کے ساتھ ہی سبز مائل ہوچکی تھی۔ پُرسکون جھیل کے کنارے بیٹھ کر قدرت کے بیش بہا خزائن کو یاد کرنے کا اس سے اچھا اور موقع شاید ہی ملے۔ گرگٹ کی طرح مختلف موسموں میں رنگ بدلتی یہ جھیل ہمیں ہمیشہ یاد رہے گی۔
ہم جھیل میں ڈبکی مارنے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ اچانک گھنے بادلوں نے سورج کو ہماری نظروں سے اوجھل کردیا اور یوں اچانک موسم سرد ہوگیا، یوں نہانے کا پروگرام منسوخ قرار پایا۔
کچھ دیر چائے پینے اور سستانے کے بعد ہم اپنی منزل کی طرف اس امید کے ساتھ روانہ ہوئے کہ سیاح اس خوبصورت جھیل کو ہمیشہ صاف ستھرا رکھیں گے تاکہ قدرت کا رنگ اور جلوہ یونہی قائم و دائم رہے۔
جھیل پر جانے والے ان درج ذیل باتوں کا ضرور خیال رکھیں:
- موسمِ سرما میں جھیل پر جاتے وقت اپنے ساتھ گرم کپڑے ضرور رکھیں کیونکہ مقامی آبادی سردی کے موسم کی آمد کے ساتھ ہی شگر منتقل ہوجاتی ہے لہٰذا آپ کو موسمی شدت کا جھیل پر تنِ تنہا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
- ویسے تو شگر سے جھیل تک بذریعہ موٹرسائیکل بھی پہنچا جاسکتا ہے لیکن فور بائی فور گاڑی زیادہ مناسب رہتی ہے کیونکہ راستہ پتھریلا اور کچا ہے۔
- بارش کے پیشِ نظر برساتی کا بندوبست ضرور رکھیں۔
- رات کے قیام یا کیمپنگ کا ارادہ ہو تو مقامی سطح پر اجازت لازمی لیں، اسی طرح تیراکی کرنی ہو تو پہلے انتظامیہ سے ضرور مشورہ کریں کیونکہ جھیل کافی گہری ہے۔
- تاحال جھیل پر کوئی کینٹین موجود نہیں ہے البتہ آپ اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیا لے جاسکتے ہیں۔ مگر صفائی کا خیال رکھیں اور کوڑا کرکٹ ہرگز مت پھیلائیں۔
- موسمِ سرما میں جھیل میں برف کی تہہ عموماً سخت ہوتی ہے اور اس پر چہل قدمی کی جاسکتی ہے البتہ پھسلن کا احتمال ضرور رہتا ہے لہٰذا مقامی افراد کو اپنے ساتھ لے کر جائیں اور احتیاط برتیں۔
تصاویر: لکھاری
لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: BakhatNasr@
لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: BakhatNasr@ . ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔