• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

وہ سرکاری ہوٹل جہاں کبھی کوئی مہمان نہیں آیا

شائع September 24, 2021
برموغ لشت میں قائم پی ٹی ڈی سی موٹل— تصویر: لکھاری
برموغ لشت میں قائم پی ٹی ڈی سی موٹل— تصویر: لکھاری

چترال سے شمال مغرب کی جانب 11 سو میٹر کی بلندی پر ہندوکش پہاڑوں کے قلب میں ایک وسیع و عریض میدان موجود ہے، جسے برموغ [اخروٹ کا درخت] لشت [میدان] کہا جاتا ہے۔ میدان سے کچھ نیچے ٹین کی چھتوں والے کچھ ہٹ بنے ہیں۔ اگرچہ وہ اچھی حالت میں ہیں لیکن ان کا رنگ خراب ہوچکا ہے اور ان میں کسی طرح کی آرائش نہیں ہے۔

ان ہٹ سے کچھ میٹر جنوب کی جانب ایک نسبتاً بڑی عمارت موجود ہے، اس عمارت میں ایک کھلی جگہ ہے جو ڈائننگ ہال ہی ہوسکتی ہے۔ یہ عمارت بھی کسی قسم کی سجاوٹ سے عاری تھی۔

1997ء میں جب ملک میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قوت اپنے عروج پر تھی، اس وقت کچھ بہت ہی عقلمند سیاستدانوں نے برموغ لشت میں پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) موٹل بنانے کا فیصلہ کیا۔ ظاہر ہے کہ اگر مہترِ چترال یہاں سے 100 میٹر کے فاصلے پر اپنا گرمائی محل بناسکتے ہیں تو پھر حکومت اپنے خزانے سے لاکھوں روپے خرچ کرکے سیاحوں کے لیے ایک ایسی جگہ کیوں نہیں بناسکتی جہاں وہ پُرسکون ماحول میں نیچے موجود چترال شہر کے نظارے کرسکیں۔

یہی وہ وقت تھا جب چترال کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے سراج الملک نے چترال ایئرپورٹ سے 3 کلومیٹر کے فاصلے پر اپنے ہوٹل ہندوکش ہائٹس کی تعمیر کا آغاز کیا تھا۔ یہ سراج کے دادا سر شجاع الملک ہی تھے جنہوں نے بحیثیت مہتر چترال 20ویں صدی کے اوائل میں برموغ لشت گرمائی محل کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔

سراج اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ منصوبہ کسی کام کا نہیں تھا کیونکہ چترال سطح سمندر سے 1500 میٹر بلندی پر واقع ہے اور یہاں گرمائی رہائش گاہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم اس دور میں ریاستوں کے سربراہان میں گرمائی رہائش گاہیں بنانے کا رجحان موجود تھا اسی وجہ سے سر شجاع الملک نے یہ ضروری سمجھا۔

سراج کا اپنا ہوٹل بھی سیزن میں بھرا ہوا ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گرمائی رہائش گاہ کو ناکام ہونا ہی تھا اور اس کی وجہ برموغ لشت میں پینے کے پانی کی قلت تھی۔ وہاں پینے کے پانی کا قریب ترین ذریعہ ایک چشمہ تھا جو تقریباً 4 کلومیڑ دُور تھا اور وہاں تک صرف خچر کے ذریعے ہی پہنچا جاسکتا تھا۔ اگر سوات کے والی کبھی وہاں گئے بھی ہوں گے تو اس وقت وہاں پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے مناسب انتظامات بھی ہوں گے۔

استقبالیہ اور ڈائننگ ہال— تصویر: لکھاری
استقبالیہ اور ڈائننگ ہال— تصویر: لکھاری

اب پی ٹی ڈی سی کے موٹل پر واپس آتے ہیں۔ اس کی تعمیر مکمل ہوئی اور وہاں بجلی کی بلا تعطل فراہمی کے لیے ایک ٹرانسفارمر بھی نصب کیا گیا۔ 15 ہٹ کی آرائش کی گئی اور ان کے انتظام کے لیے ملازمین بھی رکھے گئے۔ اس کے علاوہ اس جگہ کی خوب تشہیر بھی کی گئی۔ سطح سمندر سے 2600 میٹر اونچائی پر موجود اس میدان میں بلوط، اخروٹ اور کہیں کہیں سیب اور خوبانی کے درخت بھی موجود ہیں۔ یہ موٹل افراتفری اور میدانی علاقوں کی گرمی سے دُور ایک بہترین ماحول فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا اور کسی نیچرلسٹ کے لیے چترال کے گول نیشنل پارک تک ٹریکنگ کے لیے اچھا نکتہ آغاز ثابت ہوسکتا تھا۔

لیکن جو چیز سر شجاع الملک نے 9 دہائیوں قبل سیکھ لی تھی وہ حکومتی منصوبہ ساز سیکھنے کو تیار نہیں تھے۔ ان دنوں کوئی باؤزر نہیں ہوا کرتے تھے اور آدمیوں کے ذریعے ہی پانی پہنچایا جاتا تھا۔ جس وقت موٹل کی تعمیر جاری تھی اس وقت ٹرکوں کے ذریعے پانی پہنچایا جاتا تھا۔ بہرحال تمام مشکلات کے بعد تعمیر مکمل ہوئی اور وہ جگہ مہمانوں کی میزبانی کے لیے تیار ہوگئی۔

کہا تو یہ جارہا تھا کہ یہاں سے نیجے موجود وادی اور اطراف کے حسین مناظر سے لطف اندوز ہوا جاسکے گا، لیکن اس کے باوجود یہاں کوئی مہمان نہیں آیا اور کسی کو نہیں معلوم کہ ایسا کیوں ہوا۔

یہ صورتحال بتاتی ہے کہ حکومتی منصوبہ سازوں نے پہلے سے کوئی سروے نہیں کیا تھا۔ دوسری بات یہ کہ اس منصوبے کو چترال شہر سے چیئرلفٹ کے ذریعے منسلک کرنا تھا جو کبھی تعمیر ہی نہیں ہوئی۔ حکومتی پراجیکٹ پیپر جسے پی سی- 1 کہا جاتا ہے، تیار کرنے والوں نے اس پہلو پر توجہ ہی نہیں دی کہ 1990ء کی دہائی کے اواخر میں چترال بجلی کی شدید قلت سے دوچار تھا۔ اس وجہ سے چیئرلفٹ کا کام کرنا ناممکن تھا۔

اس بات کا بھی امکان ہے کہ سیاح اس امید میں ہوں کہ وہ چیئرلفٹ کے ذریعے 1600 میٹر اونچائی تک جائیں گے اور جب چیئرلفٹ نہیں لگی تو وہ مایوس ہوگئے۔ ہوسکتا ہے کہ بل کھاتی خطرناک سڑک کا کوئی متبادل نہ ہونا بھی اس جگہ کی ناکامی کی وجہ ہو۔

اس جگہ کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پہلا سیاحتی سیزن 1998ء کی گرمیاں تھیں اور اس دوران یہاں کوئی نہیں آیا۔ اگلے سال ضروری عملے کے ساتھ اس جگہ کو فعال رکھا گیا، امید تھی شاید یہ چل پڑے۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ 1999ء میں اس موٹل کو بند کردیا گیا۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد یہاں سے فرنیچر ہٹا دیا گیا اور اس عمارت کو تالا ڈال دیا گیا۔

سراج الملک نے ہمیں بتایا کہ اس قسم کے منصوبوں میں کئی لوگوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ جب تک تعمیرات جاری رہتی ہیں اور پیسے کی لین دین ہوتی رہتی ہے تب تک تمام متعلقہ افراد بھی کام کرتے رہتے ہیں لیکن جب تعمیرات مکمل ہوجاتی ہیں اور منصوبے کو پیسہ کمانے کے لیے کاروبار کے انداز میں چلانے کی باری آتی ہے تو لوگوں کی دلچسپی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ یوں پی ٹی ڈی سی موٹل برموغ لشت کبھی چل نہ سکا۔

کچھ عرصے بعد، شاید 2003ء میں جنرل پرویز مشرف اور صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے گورنر افتخار شاہ نے چترال کا دورہ کیا۔ سراج الملک نے بتایا کہ گورنر نے انہیں پیشکش کی کہ وہ موٹل کی لیز لے لیں، انہیں ایسی شرائط کا یقین دلوایا گیا جنہیں وہ رد نہ کرسکتے ہوں۔ تاہم سراج نے انکار کردیا کیونکہ وہ پہلے ہی اپنے ہوٹل ہندوکش ہائٹس میں مصروف تھےاور وہ بہت اچھا بھی چل رہا تھا۔

تاہم ان کے پاس گورنر کے لیے ایک سوال ضرور تھا۔ وہ سوال یہ تھا کہ اگر وہ یہ پیشکش قبول بھی کرلیتے ہیں تو چترال شہر سے موٹل تک موجود سڑک کی مرمت کس کی ذمہ داری ہوگی؟ گورنر نے جواب دیا کہ لیز دینے والے کی ذمہ داری ہوگی۔ تاہم پھر بھی سراج کو کچھ تحفظات تھے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جب ایک مرتبہ اس قسم کی ڈیل ہوجائے اور حکومت تبدیل ہوجائے تو بہت سی افواہیں اڑائی جاتی ہیں۔ یہ افواہ بھی اڑ سکتی تھی کہ سراج الملک نے شاہی خاندان کا فرد ہونے کی وجہ سے اپنے تعلقات استعمال کرکے یہ فائدہ مند ڈیل حاصل کی۔ سراج ان سب چیزوں سے نمٹنا نہیں چاہتے تھے۔

اس وجہ سے آج کے دن تک یہ موٹل غیر آباد ہے۔ اس کا رنگ مٹ رہا ہے، اس کے خالی کمروں میں جالے لگ رہے ہیں اور چوہے اس کی لکڑی میں بل بنارہے ہیں۔ سراج نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ ’جن لوگوں نے اسے تیزی سے پیسہ بنانے کا ذریعہ سمجھا تھا انہوں نے پیسہ بنایا اور چلتے بنے‘۔ اور جن لوگوں کو اسے منافع بخش کاروبار بنانے کا کام سونپا گیا تھا ان میں اس کام کی اہلیت ہی نہیں تھی۔

نہ جانے اس پتھر، سیمنٹ، لکڑی اور لوہے کو بغیر کسی مرمت کے پہاڑوں کا حصہ بننے میں کتنا وقت لگ جائے۔ یہ امر حیرت کا باعث ہے کہ مشرف دور میں بننے والے قومی احتساب بیورو نے ہندوکش پہاڑوں میں ہونے والی اس حماقت پر تحقیقات کیوں نہیں کیں۔


یہ مضمون 19 ستمبر 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

سلمان رشید

لکھاری رائل جیوگرافیکل سوسائٹی کے فیلو ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Legal Sep 24, 2021 08:38pm
Why do we look corruption in every unsuccessful effort? This approach has discouraged the bureaucracy and now no one dare to take initiative. If Hotel Hindu Kush heights is working well then this hotel could also. However, could not succeed for many reasons which are part of life. Let us appreciate the people for their efforts and attempts for promoting tourism. Be positive.
Bilal Iqbal Sep 27, 2021 08:55am
I don't think so, Mr siraj opinion is right.

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024