خواتین کی ملازمت پر نئے احکامات، 'اس سے بہتر تو میں مرسکتی'، افغان خاتون
افغان طالبان کی جانب سے خواتین کے کام کرنے پر مؤثر پابندی عائد کرنے سے لاکھوں خواتین اساتذہ اور بچیوں کو سیکنڈری اسکول جانے سے روکے جانے کے بعد حقوق سے ڈرامائی طور پر محروم ہونے کے نتیجے میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔
غیر ملکی خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 1990 کی ظالمانہ اور جابرانہ حکمرانی کے بعد نرمی کے نظریے کا وعدہ کرنے والے گروپ نے اقتدار سنبھالنے کے ایک ماہ بعد ہی خواتین کی آزادی پر کنٹرول سخت کردیا۔
وزارت خارجہ میں ایک بڑے عہدے سے محروم کی جانے والی ایک خاتون کا کہنا تھا کہ'اس سے اچھا ہوتا کہ میں مرسکتی'۔
انتقام کے خوف سے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ 'میں پورے محکمے کی انچارج تھی اور میرے ہمراہ متعدد خواتین کام کرتی تھیں، اب ہم سب ملازمت سے فارغ ہوچکے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان نے افغانستان میں خواتین کے کھیلوں پر پابندی لگا دی
افغانستان کےدارالحکومت کابل کے قائم مقام میئر کا کہنا تھا کہ بلدیہ عظمیٰ میں خواتین کے پاس جو ملازمتیں تھی ان سب پر مردوں کو بھرتی کرلیا جائے گا۔
یہ تب ہوا جب محکمہ تعلیم نے ہفتے کے اختتام میں مرد اساتذہ اور طلبا کو واپس سیکنڈری اسکول آنے کا حکم دیا لیکن ملک کی لاکھوں خواتین اساتذہ اور طالبات کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
جمعے کوطالبان کی جانب سے سابق حکومت کی خواتین کے امور سے متعلق وزارت بند کرتے ہوئے دیکھا گیا اور اس سے اپنے مذہبی نظریات کے نفاذ کے لیے ادارے میں تبدیل کردیا گیا جو ان کے پہلے طویل دورانیہ اقتدار میں تنازع کا باعث بنا تھا۔
دریں اثنا ملک کے نئے حکمرانوں نے خواتین کے کام کرنے پر کوئی باقاعدہ پالیسی جاری نہیں کی، انفرادی طور پر عہدیداروں کی ہدایات پر انہیں کام کرنے والی جگہوں سے نکالا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں:افغانستان: خواتین امور کی معطل وزارت کی عمارت کے سامنے عملے کا احتجاج
متعدد افغان خواتین کو خوف ہے کہ وہ کبھی بامعنی ملازمت تلاش نہیں کرسکیں گی۔
'یہ کب ہوگا؟'
طالبان کی نئی حکومت کا اعلان دو ہفتے قبل کیا گیا تھا جس میں کوئی خاتون رکن شامل نہیں تھیں۔
گوکہ تاحال پسماندہ افغان خواتین اپنے حقوق جنگ لڑ چکی ہیں اور گزشتہ 20 سال کے دوران اپنے بنیادی حقوق حاصل کیے، وہ قانون ساز، جج، پائلٹ اور پولیس افسران بنیں لیکن وہ زیادہ تر بڑے شہروں تک ہی محدود ہیں۔
ہزاروں خواتین افرادی قوت میں شامل ہوئیں، ان میں سے بعض ضرورت مند بیوہ خواتین تھیں یا دو دہائیوں کے تصادم کے نتیجے میں اپنے معذور شوہروں کی معاونت کر رہی ہیں۔
طالبان نے 15 اگست کو اقتدار میں واپسی کے بعد ان کے حقوق کے احترام سے متعلق کوئی اشارہ نہیں دیا۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان: وزارت امورِ خواتین ’نیکی کا حکم دینے، برائی سے روکنے‘ میں تبدیل
جب ان پر دباؤ بڑھ گیا تو طالبان حکام کا کہنا تھا کہ خواتین کو بتا چکے ہیں کہ وہ اپنی سلامتی کے لیے گھروں میں رہیں لیکن انہیں مناسب قانون نافذ ہونے پر کام کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
ایک خاتون ٹیچر کا کہنا تھا کہ 'یہ کب ہوگا؟ پچھلی بار بھی ایسا ہی ہوا تھا، وہ کہتے رہے کہ وہ ہمیں کام پر واپس جانے کی اجازت دیں گے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوا تھا'۔
طالبان کے پہلے دور اقتدار میں 1996 سے 2001 تک خواتین کو بڑے پیمانے پر بیرونی دنیا سے تقریباً خارج کیا گیا تھا، جس میں مردوں کے بغیر ان کے گھروں سے نکلنے پر پابندی بھی شامل تھی۔
جمعے کو دارالحکومت کابل میں واقع سابق حکومت کی وزارت خواتین امور کی عمارت میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی عبارت کندہ کی گئی۔
اتوار کو درجنوں خواتین نے عمارت کے باہر مختصر وقت کے لیے احتجاج کیا لیکن طالبان عہدیداروں کے رابطے پر منشتر ہوگئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان کے ’ڈریس کوڈ‘ کے خلاف افغان خواتین کی ’میرے لباس کو نہ چھوؤ‘ مہم
نئی حکومت کے کسی عہدیدار کی جانب دے ردعمل کی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
ہرات میں محکمہ تعلیم کے ایک عہدیدار کا اصرار تھا کہ لڑکیوں اور خواتین اساتذہ کا واپس اسکول آنا وقت کا سوال ہے، پالیسی نہیں۔
شہاب الدین ثاقب نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ بات بالکل واضح نہیں ہے کہ یہ کب ہوگا: آئندہ روز، آئندہ ہفتے، آئندہ ماہ، ہم نہیں جانتے۔
انہوں نے کہا کہ 'یہ میرا فیصلہ نہیں ہوگا کیونکہ افغانستان میں ایک بڑا نقلاب آیا ہے'۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان میں مستقبل میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالےسے 'بہت فکر مند 'ہیں۔
عالمی ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کا کہنا تھا کہ 'یہ ضروری ہے کہ بڑی جماعتوں کی طالبات سمیت تمام بچیاں مزید کسی تاخیر کے واپس اپنی تعلیم جاری رکھنے کے قابل ہوں'۔