ایک ایسی فلم جس کو دیکھنے کے ساتھ ہی ہر لمحے کے ساتھ تجسس یا سسپنس بڑھتا محسوس ہو، اسے بہترین تھرلر فلم قرار دیا جاتا ہے۔
مگر کچھ تھرلر فلمیں ایسی ہوتی ہیں جن کی کہانی ہلا کر رکھ دینے والے جرائم پر مبنی ہوتی ہیں مگر پھر بھی تجسس آخری منظر تک برقرار رہتا ہے۔
یہ اندازہ لگانا کہ مجرم کون ہے یا کون جھوٹ بول رہا ہے اور جرم کا معمہ کیسے حل ہوا لوگوں کو اپنی جگہ سے ہلنے نہیں دیتا۔
تو ایسی ہی چند بہترین سسپنس سے بھرپور فلموں کے بارے میں جانیں، جن کا جادو عرصے تک نہیں اترتا۔
نائیوز آؤٹ (Knives Out)، 2019
ایک امیر شخص کی پراسرار موت کی تحقیقات پر مبنی یہ فلم زبردست اتار چڑھاؤ سے بھرپور ہے۔
کہانی آگے بڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امیر خاندان کا کوئی فرد خفیہ طریقے سے ایک ڈیٹکٹیو کی خدمات حاصل کرتا ہے تاکہ اس شخص کی موت کے ذمے دار کو سامنے لایا جاسکے اور پھر کہانی جس طرح آگے بڑھتی ہے کسی کے لیے اسکرین سے نظریں ہٹانا مشکل ہوجاتا ہے۔
دی گرل ود ڈریگن ٹیٹو (The Girl With the Dragon Tattoo)، 2011
اس فلم کی کہانی ایک صحافی کے گرد گھومتی ہے جو ایک ہیکر کے ساتھ ایسی خاتون کی تلاش کرتا ہے جو چالیس سال سے لاپتہ ہے۔
اس تلاش کے دوران انہیں مسلسل معموں کا سامنا ہوتا ہے اور وہ مشکل حالات میں پھنس جاتے ہیں۔
ڈائریکٹر ڈیوڈ فنیچر کی اس فلم میں ڈینئیل گریک نے مرکزی کردار ادا کیا جبکہ یہ سٹیگ لارسن کے ناول سے ماخوذ تھی۔
بی فور آئی گو ٹو سلیپ (Before I Go to Sleep)، 2014
یہ ایک ایسی خاتون کی کہانی ہے جو ایک حملے کے بعد ایسے عارضے کی شکار ہوجاتی ہے جس کے باعث اس کے لیے اپنی زندگی کو یاد رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔
اسی وجہ سے ہر صبح وہ یادداشت کے بغیر بیدار ہوتی ہے اور کسی کو بشمول اپنے شوہر کو پہچان نہیں پاتی۔
اسی وجہ سے زندگی میں ہر چیز اس کے لیے معمہ ہوتی ہے اور اسی طرح یہ کہانی اپنے اتار چڑھاؤ کے باعث ناظرین کی توجہ حاصل کرلیتی ہے۔
دی انویٹیشن (The Invitation)، 2015
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسے سابق بیوی کی جانب سے اس کے پرانے گھر آنے کی دعوت ملتی ہے جہاں وہ اب اپنے نئے شوہر کے ساتھ رہ رہی ہوتی ہے۔
عام سی اس دعوت میں متعدد افراد شریک ہوتے ہیں اور پھر کہانی خطرناک موڑ لیتی ہے اور اس شخص کو اپنے میزبانوں کے عزائم پر شکوک ہونے لگتے ہیں۔
گیٹ آؤٹ (Get Out)، 2017
یہ فلم پرمزاح ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین ہارر فلم بھی ہے جبکہ اس میں تجسس کا عنصر بھی کم نہیں۔
اس کی کہانی ایک سیاہ فام نوجوان کے گرد گھومتی ہے جو اپنی سفید فام گرل فرینڈ کے خاندان سے ملنے آتا ہے، اس میں امریکا میں موجود نسل پرستی کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔
جس میں دکھایا گیا ہے کہ لبرل اور اوباما کو پسند کرنے والے سفید فام خاندان اپنے اندر کیسے خوفناک عزائم چھپائے ہوئے ہوتا ہے۔
پرائمل فیئر (Primal Fear)، 1996
یہ ایک عدالتی تھرلر ہے جس میں تجسس و سسپنس عروج پر نظر آتا ہے، یہ ایک ایسے وکیل کی کہانی ہے جو نوجوان کی وکالت کرتا ہے جس پر ایک پادری کو قتل کرنے کا الزام ہوتا ہے اور اس مقدمے کو کوئی وکیل لینے کے لیے تیار نہیں ہوتا کیونکہ بظاہر اس میں ناکامی یقینی نظر آتی ہے۔
مقدمہ جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے، چرچ کے تاریک راز سامنے آنے لگتے ہیں اور ایک سادہ کیس اچانک تاریک اور انتہائی خطرناک بن جاتا ہے۔
پریزنرز، (Prisoneres)، 2013
جب پولیس کیلر ڈوور نامی شخص کی بیٹی اور دوست کو تلاش کرنے میں ناکام رہتی ہے تو وہ خود انہیں تلاش کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔
یہ تھرلر فلم اپنے دیکھنے والوں کے درمیان کسی بدترین خبر کا تناﺅ پیدا رکھتی ہے جبکہ کہانی اتنی روانی سے آگے بڑھتی ہے کہ دیکھنے والا کھو کر رہ جاتا ہے۔
بہترین اداکاری اور بیک گراﺅنڈ اسکور نے اسے دیکھنے کے لائق فلم بنادیا ہے۔
فلائٹ پلان (Flight Plan)، 2005
اس کی کہانی ذہن گھما دینے والی ہے جس میں ایک ماں اور بیٹی کو دکھایا گیا ہے جو ایک بین الاقوامی پرواز پر سفر کررہے ہوتے ہیں۔
اس سفر کے دوران ہی لڑکی پراسرار طور پر غائب ہوجاتی ہے یہ معمہ ہی کم نہیں ہوتا مگر پھر انکشاف ہوتا ہے کہ اس خاتون کی بیٹی کا فلائٹ پلان میں کوئی ذکر ہی نہیں۔
تو یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ ایسی کوئی لڑکی حقیقت میں تھی یا یہ سب خاتون کے ذہن کا واہمہ ہے۔
گون گرل (Gone Girl)، 2014
یہ کہانی ایک جوڑے کے گرد گھومتی ہے جس میں بیوی اچانک کہیں غائب ہوجاتی ہے اور میڈیا کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے۔
پولیس اور میڈیا کا شک شوہر پر ہوتا ہے اور یہ سوال کیا جانے لگتا ہے کہ کیا اس نے اپنی بیوی کو قتل کردیا ہے۔
یہی سے کہانی مختلف پیچ و خم کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اور دیکھنے والوں کی توجہ ایک لمحے کے لیے اسکرین سے ہٹنے نہیں دیتی۔
سرچنگ (Searching)، 2018
یہ ایک منفرد انداز کی مسٹری فلم ہے جس میں پوری کہانی اسمارٹ فونز اور شیئرڈ کمپیوٹر اسکرینز کے ذریعے بیان کی گئی ہے۔
فللم ایک ایسے باپ کے گرد گھومتی ہے جو اپنی گمشدہ 16 سالہ بیٹی کو تلاش کررہا ہوتا ہے۔
بیٹی کے کمپیوٹر اور ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے بیٹی کو تلاش کرتے ہوئے اس کے سامنے ایسے انکشافات ہوتے ہیں جن سے اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے بارے میں بہت کچھ نہیں جانتا۔
میمینٹو (Memento)، 2000
اگر تو آپ کو تجسس بڑھانے والی فلمیں پسند ہیں تو یہ کسی تحفے سے کم نہیں مگر اسے دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کی پوری توجہ اس پر مرکوز ہو۔
کیونکہ اس میں دو مختلف سیکونس چلے رہے ہوتے ہیں، ایک بلیک اینڈ وائٹ جس میں ماضی کا احوال ہوتا ہے جبکہ دوسرا کلر سیکونس جو حال سے پیچھے کی جانب جاتا ہے۔
یہ دونوں سیکونس اختتام پر ملتے ہیں اور صحیح معنوں میں ذہن گھما دینے والی کہانی سامنے آتی ہے۔
مائینورٹی رپورٹ (Minority Report)، 2002
مستقبل کا ایسا نقشہ جس میں ایک خصوصی پولیس یونٹ قاتلوں کو جرم سے پہلے ہی گرفتار کرنے کے قابل ہوتا ہے۔
مگر کہانی اس وقت پراسرار ہوجاتی ہے جب ہیرو جرم کو قبل از وقت بتانے والی ٹیکنالوجی میں خود کو ایسے فرد کو قتل کرتا دیکھتا ہے جس کو کبھی ملا بھی نہیں ہوتا۔
مگر ایسا کیوں ہوتا ہے یہی دیکھنے والوں کو اسکرین کو نظریں ہٹانے نہیں دیتا۔
مول ہولینڈ ڈرائیو (Mulholland Drive)، 2001
رائٹر اور ڈائریکٹر ڈیوڈ لنچ کی اس فلم کو بی بی سی نے 21 ویں صدی کی اب تک کی سب سے بہترین فلم قرار دیا۔
جو ایک ابھرتی ہوئی اداکارہ کی کہانی پر مبنی ہے جو نئی نئی لاس اینجلس آتی ہے جہاں اس کی دوستی بے خوابی کی شکار خاتون سے ہوجاتی ہے۔
مگر جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے تو ناظرین کو لگتا ہے کہ جیسے وہ جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ حقیقی نہیں اور فلم کا اختتام ذہن گھما دیتا ہے۔
دی پریسٹیج (The Prestige)، 2006
دو جادوگروں کی ایک دوسرے سے رقابت اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے مخالف سے زیادہ بہتر جادوئی کرتب تیار کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور ایسا بصری دھوکا دینا چاہتے ہیں جو لوگوں کو دنگ کردے۔
2006 کی یہ فلم ایک ایسی کہانی ہے جو حقیقت اور اسٹیج کرافٹ کے درمیان موجود لکیر کے حوالے سے سوالات ذہن میں پیدا کرتی ہے، جس کی تلاش میں اسے دیکھنا مجبوری بن جاتا ہے۔
شٹر آئی لینڈ (Shuttere Island)، 2010
ڈائریکٹر مارٹین اسکورسیز کی یہ سائیکلوجیکل تھرلر فلم لیونارڈو ڈی کیپریو کی بہترین فلموں میں سے ایک ہے جس کی کہانی کے لیے 2003 میں شائع ہونے والے ڈینیس لیہانے کے اسی نام کے ناول کا انتخاب کیا گیا۔
اس فلم میں لیونارڈو نے ایک یو ایس مارشل کا کردار ادا کیا تھا جو شٹر آئی لینڈ کے سائیکاٹرک ادارے کی تفتیش کررہا ہوتا ہے۔
مگر اسکرین پر جو کچھ دکھایا جارہا ہوتا ہے وہ حقیقت نہیں ہوتا اور آخر میں جو دھچکا لگتا ہے وہ ذہن گھما دیتا ہے۔
سائیڈ ایفیکٹس (Side Effects)، 2013
کچھ ادویات سے سر چکرانے، سردرد یا قے جیسے مضر اثر ہوتے ہیں، مگر نیند میں چلنا جان لیوا نتائج کا باعث بھی بن سکتا ہے؟
یہ فلم اسی کے گرد گھومتی ہے جس میں ایک خاتون کو ماہرین نے تجرباتی ادویات تجویز کی تھیں اور اس کا دعویٰ تھا کہ ان ادویات کے اثر کے باعث اس نے اپنے شوہر کو قتل کیا۔
مگر ماہرین نفسیات کو اس بیان پر یقین نہیں ہوتا تو آخر سچ کون بول رہا تھا؟
سیون (Se7en)، 1995
اگر یہ کہا جائے کہ یہ فلم چند بہترین مسٹری اور تھرلر فلموں میں سے ایک ہے تو غلط نہیں ہوگا، جس میں بریڈ پٹ اور مورگن فری مین نے مرکزی کردار کیے ہیں،
یہ پولیس کے دو اہلکاروں کی کہانی ہے جو کہ ایک سیریل کلر کی تلاش کررہے ہوتے ہیں، اس فلم کا اختتام ایسے ٹوئیسٹ پر ہوتا ہے جسے آپ طویل عرصے تک بھول نہیں سکیں گے۔
اے سمپل فیور (A Simple Favor)، 2018
فلم کی کہانی 2 خواتین کے گرد گھومتی ہے، جن کے بچے ایک ہی اسکول میں پڑھتے ہیں، جس وجہ سے وہ جلد ہی دوست بن جاتی ہیں۔
فلم کی کہانی اس وقت دلچسپ بن جاتی ہے، جب ان دو خواتین میں سے ایک اچانک غائب ہوجاتی ہے اور دوسری اس کی تلاش کرنا شروع کرتی ہے، جس دوران اسے کئی ناخوشگوار حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دی سکستھ سنس (The Sixth Sense)، 1999
گر آپ نے اس فلم کو نہیں دیکھا تو ایک بار ضرور دیکھ لیں، شروع سے آخر تک فلم بہت زیادہ غیرمعمولی محسوس نہیں ہوتی مگر جب اس کا اختتام ہوتا ہے تو آپ کے لیے یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ آپ نے فلم کی کہانی کو سمجھا بھی تھا یا نہیں،
ہم اختتام تو نہیں بتاتے مگر 1999 کی یہ فلم ایک ماہر نفسیات اور بچے کے گرد گھومتی ہے جو مردوں کو دیکھنے اور بات کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
دی یوزؤل سسپیکٹس (The Usual Suspects)، 1995
بظاہر ایک عام سی کہانی والی یہ فلم دیکھتے ہوئے کچھ خاص محسوس نہیں ہوتی، یقیناً اداکاروں کا کام کمال کا ہے مگر پلاٹ کچھ خاص محسوس نہیں ہوتا۔
مگر جب فلم اختتام پر پہنچتی ہے تو یہ عام کہانی ایسا موڑ لیتی ہے کہ ذہن گھوم جاتا ہے اور اس وقت پتا چلتا ہے کہ ہم نے جو عام سی کہانی دیکھی، وہ کتنی حیران کن ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب اس فلم کو دنیا کی بہترین ٹوئیسٹ اینڈنگ فلموں میں سے ایک مانا جاتا ہے اور تھرلر و پرتجسس فلموں کے شوقین افراد کو اسے ضرور دیکھنا چاہیے۔
فلم کے حوالے سے ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ تمام مرکزی کرداروں کو ڈائریکٹر نے یقین دلایا تھا کہ وہی کائزر سوزی (فلم کا اہم ترین کردار) کا کردار ادا کررہے ہیں، صرف ایک اداکار کو حقیقت معلوم تھی۔
تو جب فلم کی پہلی اسکریننگ ہوی تو ان اداکاروں کو یہ جان کر شدید دھچکا لگا کہ درحقیقت وہ کائزر سوزی نہیں تھے اور ایک اداکار تو غصے میں سنیما سے باہر بھی نکل گئے اور ڈائریکٹر سے مل کر طویل بحث کی۔