افغانستان سے فوجی انخلا پر بائیڈن پر تنقید نامناسب ہے، وزیر اعظم
وزیر اعظم عمران خان نے امریکی صدر جو بائیڈن پر افغانستان سے انخلا کے حوالے سے تنقید کو نامناسب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو بائیڈن نے افغانستان سے افواج کے انخلا کا انتہائی سمجھداری کا فیصلہ کیا۔
روس کے سرکاری ٹیلیویژن ینٹ ورک آر ٹی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ پاکستان نے طالبان کی امریکا کے خلاف مدد کی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان امریکا اور یورپی ممالک سے زیادہ طاقتور ہے اور اتنا طاقتور ہے کہ اس نے 60 سے 65ہزار معمولی اسلحے سے لیس ملیشیا کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ بہترین اسلحے سے لیس فوج کو شکست دینے میں کامیاب رہی۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں جامع حکومت کیلئے طالبان سے مذاکرات کا آغاز کردیا ہے، وزیر اعظم
ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے خلاف پراپیگنڈا ہے جو سب سے افغان حکومت نے شروع کیا تاکہ اپنی نااہلی، کرپشن اور افغانستان کو مناسب حکومت کی فراہمی میں ناکامی کو چھپا سکیں، اسے ایک کٹھ پتلی حکومت تصور کی جاتا تھا جس کا وہاں کے عوام احترام نہیں کرتے تھے اور دوسرا بھارت ہے جس نے اشرف غنی حکومت پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی لیکن اس پراپیگنڈے کی کوئی منطق نہیں ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے، پاکستان کا 22کروڑ عوام کے لیے کُل بجٹ 50ارب ڈالر ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم شدت پسندی کو مدد فراہم کر سکتے ہیں جو امریکا پر حاوی ہو گئی، وہ بھی ایک ایسی جنگ میں جہاں امریکا نے 20سالوں میں 2کھرب ڈالر جھونک دیے لہٰذا یہ محض پراپیگنڈا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آخر تین لاکھ افغان فوج نے طالبان سے لڑائی نہیں کی، کیا پاکستان نے ان سے کہا کہ وہ جنگ نہ لڑیں لہٰذا اگر آپ نے وجوہات جاننی ہیں کہ طالبان کیوں جیتے اور امریکا کو بالآخر 20سال بعد شکست ہوئی تو آپ کو تفصیلی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر دنیا کی بہادر ترین افغان قوم کی فوج نے لڑے بغیر ہتھیار کیوں ڈال دیے۔
طالبان کو تسلیم کرنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان عالمی برادری کا حصہ ہے، طالبان کی افغان حکومت کو تسلیم کیا جانا بہت اہم قدم ہو گا، ہم اس وقت افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں کہ افغان حکومت کو ایسا کیا کرنا چاہیے کہ ہم اس کو تسلیم کر سکیں اور ایک متفقہ بات ابھر کر سامنے آئی ہے کہ طالبان کی حکومت کو جامع ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: کابل کے ڈرون حملے میں شہری ہلاک ہوئے، پینٹاگون کا اعتراف
انہوں نے حکومت اس لیے جامع ہونے چاہے کیونکہ افغانستان میں بہت زیادہ تنوع ہے، طالبان ایک پشتون تحریک ہے اور پشتون افغانستان کی نصف آبادی ہیں، پھر وہاں تاجک بڑی اقلیت ہیں، اس کے علاوہ ازبک اور ہزارہ بھی ہیں لہٰذا افغانستان کے مفاد اور دیرپا امن کے قیام کے لیے ہم سب محسوس کرتے ہیں وہاں ایک جامع حکومت ہونی چاہیے جو افغانستان کو متحد کر سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان ایک مشکل جدوجہد سے گزرے ہیں اور انہوں نے انسانی تاریخ کے مہلک ترین ہتھیاروں کا مقابلہ کیا ہے، انہیں اس میں بہت جانی نقصان بھی ہوا لہٰذا اس جنگ میں جنہوں نے زیادہ قربانیاں دی ہیں، چالبان چاہیں گے کہ انہیں حکومت میں مرکزی حصہ ملے البتہ طالبان میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک باقی اقلیتی گروہوں کو جب تک ایک چھتری تلے جمع نہیں کیا جاتا، اس وقت تک حکومت غیرمستحکم رہے گی۔
پاکستان کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے، ہمسایہ ممالک کے ساتھ جتنا مہذب تعلق ہوگا وہ تجارت اور پورے خطے کے مفاد میں ہوگا، سعودی عرب پاکستان کا قریب ترین اتحادی اور ایک ایسا دوست رہا ہے جس نے ہمیشہ ہر مشکل وقت میں ہماری مدد کی ہے، اس لیے ہماری دلچسپی کا محور یہ ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان باہمی مفاہمت ہو، ان دونو ں ملکوں کے درمیان تنازع ناصرف پاکستان بلکہ ترقی پذیر ممالک کے لیے بھی ایک تباہ کن امر ہے۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کسی بھی تنازع کا اثر تیل کی قیمتوں پر پڑے گا کیونکہ پہلے ہی کورونا وائرس کی وبا اور سپلائی کی کمی کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں اور مہنگائی ترقی پذیر ممالک کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں: دنیا نے ہمیں تسلیم نہیں کیا تو نتائج خطرناک ہوں گے، طالبان
انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ملکوں میں اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں اضافے کا غربت پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر ان دونوں ملکوں میں کوئی تصادم ہوتا ہے تو اس کا فوری اثر تیل کی قیمتوں پر پڑے گا جو دنیا بھر کے غریب افراد کیلئے تباہ کن ہوگا اور غریب ممالک اور دنیا بھر میں غریبوں پر اس کا اثر پڑے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ ہر کسی کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ان دو ملکوں کے درمیان زیادہ بہتر انڈر اسٹینڈنگ ہو۔
وزیر اعظم نے افغانستان سے سابق صدر اشرف غنی کے فرار اور افغان افواج کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے انخلا کے عمل کی حمایت کی اور اس حوالے سے تنقید کو بے جا قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت امریکا کی افغانستان کے حوالے سے ایک مربوط پالیسی ہے یا نہیں اور وہ کیا کرنے جا رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ صدر بائیڈن کو افغانستان سے انخلا کے حوالے سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جو بالکل نامناسب ہے، جو صدر بائیڈن نے کیا وہ انتہائی سمجھداری کا فیصلہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ بائیڈن پر تنقید کی جا رہی ہے کہ انہوں نے صحیح سے انخلا کی تیاری نہیں کی لیکن آپ کس طرح سے انخلا کی تیاری کر سکتے ہیں جب اس عمل سے دو ہفتے قبل ملک کا صدر فرار ہوجاتا ہے اور فوج ہتھیار ڈال دیتی ہے، اس لیے جو بائیڈن بہت زیادہ نامناسب تنقید ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان کو اپنے وعدے پورے کرنے چاہئیں، وزیراعظم
عمران خان نے کہا کہ اس بے جا تنقید اور سینیٹ میں وزیر خارجہ کی جو درگت بنی، اس کی وجہ سے مجھے لگتا ہے کہ وہ اس حوالے سے کوئی وضع نہیں کر سکے لیکن جلد یا بدیر امریکیوں کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ جب تک افغانستان میں استحکام نہیں ہوتا، جب تک اس حکومت بلکہ عوام کی مدد کر کے افغانستان کو اس بڑے انسانی بحران سے بچایا نہیں جاتا تو اس کے بہت دیرپا سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
عمران خان نے کہا کہ افغانستان اس وقت ایک تاریخی دوراہے پر کھڑا ہے جو یا تو چالیس سال کی جنگی صورتحال کے بعد استحکام کی طرف بڑھے گا یا پھر یہاں سے غلط سمت میں چلا گیا تو اس سے افراتفری، انسانی بحران، پناہ گزینوں کا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے، جو ایک بڑے مسئلے کی صورت اختیار کر سکتا ہے جس سے تمام ہمسایہ ممالک متاثر ہونگے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے نکتہِ نظر سے افغان سرزمین سے دہشت گردی کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ پہلے سے ہی تین دہشتگرد گروہ افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کراتے رہے ہیں۔
جب ان سے بائیڈن کے ساتھ تعلقات کے بارے میں پوچھا گیا تو عمران نے کہا کہ ہماری حکومت کے امریکا کے ساتھ تعلقات ہیں، دونوں ملکوں کے سیکیورٹی سربراہ افغانستان کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں۔
مزید پڑھیں: 'ہم متحد ہیں'، افغان طالبان نے قیادت میں اختلافات کی تردید کردی
وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ امریکا کا افغانستان میں بہت بڑا کردار ہے کیونکہ وہ وہاں 20 سال رہا، امریکا کی افغانستان پر حملہ کرنے کی واحد وجہ دہشت گردی تھی، اگر افغان سرزمین دوبارہ دہشت گردوں کی جائے پناہ بن جائے تو پھر آخر آپ نے کیا کامیابی حاصل کی؟، ہمیں افغانستان کو مزید کسی بحران کی طرف نہیں جانے دینا چاہیے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ وہ افغان میں شکست کے بارے میں امریکی سینیٹرز کے پاکستان مخالف بیان پر شدید افسردہ ہیں، پاکستان وہ ملک ہے جس نے اس جنگ میں امریکا کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس جنگ میں اتحادی بننے کا کہا گیا حالانہ پاکستان کا نائن الیون سے کوئی لینا دینا نہیں تھا کیونکہ اس میں کوئی پاکستانی شامل نہیں تھا، ہماری اس جنگ میں شمولیت کی کوئی وجہ نہ تھی لیکن اب اپنی ناکامیوں پر امریکا کو پاکستان کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے دیکھنا انتہائی تکلیف دہ ہے۔
عمران خان نے کہا کہ طالبان اب ایک حقیقت ہیں اور دنیا کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ انہیں ایک مستحکم ملک کے قیام کی ترغیب دیں، بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ اس راستے پر چلنے کی حوصلہ افزائی کرے اور امید ہے کہ یہ امن کی طرف لے جائے گا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر دنیا نے اس پر پابندیاں لگائیں تو افغانستان ٹوٹ جائے گا، ملک کے بجٹ کا تقریباً 75 فیصد بجٹ امداد پر بنتا ہے اور اگر یہ مالی امداد روک دی گئیں تو ملک زوال پذیر ہو جائے گا۔