• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:32pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:32pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

کیا صحافیوں کو ٹی ٹی پی سے خطرہ ہے؟

شائع September 23, 2021
— فائل فوٹو / رائٹرز
— فائل فوٹو / رائٹرز

افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی سرحد کے اطراف میں موجود ان کے ’کزنز‘ نے پاکستان میں اپنے اہداف کے تعین کا آغاز کردیا ہے جس کے نتیجے میں سب سے پہلا خطرہ صحافیوں کو ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جانب سے میڈیا کے لیے جاری ہونے والا ایک بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ اس بیان میں ٹی ٹی پی کی جانب سے صحافیوں کو خبردار کیا گیا کہ اگر انہوں نے ٹی ٹی پی کے لیے دہشتگرد کا لفظ استعمال کرنا ترک نہیں کیا تو صحافیوں کے ساتھ ’دشمنوں‘ جیسا برتاؤ کیا جائے گا۔ اس حوالے سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے اپنے خدشات کا اظہار کیا جو یقینی طور پر معاملے کی سنجیدگی کا مظہر ہے۔ ساتھ ہی اس سے خطے میں دوبارہ فروغ پاتی ہوئی طالبانائیزیشن کے پس منظر میں آزادی صحافت کے مستقبل کا جائزہ لینے کی اہمیت بھی سامنے آتی ہے۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے دی جانے والی دھمکی کا وقت انتہائی اہم ہے۔ اس سے قبل جاری کیے جانے والے بیان میں اس کالعدم تنظیم نے کہا تھا کہ اس نے صرف اگست کے مہینے میں 32 حملے کیے جن میں 52 افراد ہلاک اور 38 زخمی ہوئے۔ اگرچہ ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ حملے سیکیورٹی فورسز پر کیے گئے تھے۔ دوسری جانب ریاستی ادارے مختلف موقعوں پر یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ دشمن ایجنسیاں پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین استعمال کر رہی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی ریاست کے اس بیانیہ کو غلط ثابت کرنا چاہتی ہے۔ ٹی ٹی پی کا مقصد اس بات کا یقین دلوانا ہے کہ افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی پاکستان کے اندر ان کے حملے جاری رہیں گے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ صحافی کالعدم ٹی ٹی پی اور ریاست کے درمیان پھنس چکے ہیں۔ ملک میں سینسر شپ بتدریج بڑھتی جارہی ہے، صحافی اس وقت تک سیکیورٹی امور پر تبادلہ خیال نہیں کر سکتے جب تک وہ خود کو ’محب وطن‘ پاکستانی ثابت نہ کردیں۔ متعدد ٹی وی ٹاک شو میزبانوں کی جانب سے یہ تاثر پیش کیا جارہا ہے کہ افغانستان دراصل پاکستان کی ’نوآبادی‘ ہے۔ اس بیانیہ کو ان پاکستانی صحافیوں کے تبصروں سے بھی تقویت مل رہی ہے جو کلبل پر طلابان کے قبضے کے وہاں رپورٹنگ کے لیے گئے تھے۔ پھر کچھ ایسے صحافی بھی ہیں جو اپنے لبرل طرز عمل اور معروضی رہنے کی کوششوں کے باوجود طالبان سے نظریاتی لگاؤ رکھتے ہیں۔ جانبدار اس اور یکطرفہ کوریج کا مقصد ہمیں یہ یقین کرونا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے پاکستان کی مغربی سرحدوں پر موجود خطرات کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ ہمارے میڈیا کے طرزعمل سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتی ، یوں ٹی ٹی پی کو ایک ضمنی حیثیت دی جارہی ہے۔ تاہم ٹی ٹی پی کی دھمکی اس تاثر کی نفی کرتی ہے۔

کیا ٹی ٹی پی پاکستانی صحافیوں کے لیے حقیقی خطرہ ہے؟ اس کا جواب ریاستی دہشت گردی کی جانب حکومت کی سوچ سے جڑا ہے۔ سقوطِ کابل سے دو روز قبل ایک اعلیٰ عہدیدار نے غیر رسمی بات چیت میں اشارہ دیا کہ اگر طالبان نے کابل کا کنٹرول حاصل کرلیا تو ساری چیزیں معمول پر آجائیں گی۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو پاکستان کی طاقتور اشرافیہ ٹی ٹی پی کو خاطر خواہ خطرہ نہیں سمجھتی۔ دوحہ معاہدے کے بعد افغانستان کے پڑوسی ممالک نے ان دہشتگردوں گروہون کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جو افغان سرزمین استعمال کر رہے تھے اور ان ممالک کی سالمیت کے لیے خطرہ تھے۔ تاہم پاسکتان اس دوران پرسکون رہا اور اس نے اور دہشتگردی کے خلاف اپنا کمزور پہلو عیاں کرنے کا خطرہ مول لیا۔

جس دن طالبان نے کابل پر کنٹرول حاصل کیا، اس دن ملک کی سب سے بڑی جیل پُلِ چرخی سے ہزاروں قیدی فرار ہوگئے۔ اس سے محض چند روز قبل قندھار جیل میں بھی ایسی ہی صورتحال سامنے آئی۔ اس حوالے سے کابل کے ایک مقامی صحافی انیس الرحمٰن نے ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا کہ تقریباً 2 ہزار 300 ٹی ٹی پی جنگجو جیل سے آزاد کیے گئے۔ ان میں ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈر بھی شامل تھے جن میں سے اکثر کا تعلق شمالی وزیرستان سے تھا۔

دہشت گرد تنظیم داعش کے دو کمانڈر شیخ متوکل اور ابو عمر خراسانی کی موت کے بعد داعش کے 25 ہمدردوں کی گرفتاری اور افغانستان میں داعش کے حامی سلفی نظریات کی ترویج کرنے والی مسجد کی بندش سے طالبان کی عسکریت پسندی سے متعلق ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے۔ طالبان داعش کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں اور دوحہ معاہدے کی ایک اہم شرط بھی یہی تھی تاہم ٹی ٹی پی کے معاملے میں صورتحال مختلف ہے اور انہیں طالبان کی میزبانی حاصل ہے۔ پاکستان نے کوشش کی کہ طالبان کوئی ایکشن لیں پاکستان کی جانب سے اس ضمن میں تاخیر کی گئی۔ کچھ ایسی خبریں منظر عام پر آرہی ہیں کہ طالبان کی جانب سے ایک 3 رکنی کمیشن بنایا گیا ہے۔ یہ کمیشن پاکستان کو یقین دلوائے گا کہ ٹی ٹی پی رہنماؤں کو اس بات پر راضی کیا جائے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات حل کرلیں تاکہ وہ اپنے ملک میں اپنے خاندان کے ساتھ رہ سکیں۔ دراصل یہ ٹی ٹی پی کے لیے ایک طرح کی ایمنسٹی ہے۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ افغان طالبان، پاکستان میں ’اسٹریٹجک ڈیپتھ‘ کے خواہاں ہیں۔

اس لیے ٹی ٹی پی ایک ٹائم بم کی مانند ہے۔ دوحہ معاہدے کے بعد سے اب تک تقریباً 9 متحارب گروپ اس تنظیم میں شامل ہوچکے ہیں۔ پل چرخی سے رہائی کے بعد ٹی ٹی پی کے سابق نائب سربراہ اور موجودہ القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری کے قریبی ساتھی مولوی فقیر نے افغان طالبان کی بیعت کرلی ہے۔

افغانستان کا صوبہ کنڑ پاکستان میں فقیر محمد کے آبائی علاقے ضلع باجوڑ سے متصل ہے۔ کابل سے کنڑ صوبے کے راستے میں مولوی فقیر نے ایک وائرل ویڈیو میں اپنے ساتھیوں سے خطاب میں کہا کہ ٹی ٹی پی پاکستان میں شریعت کے لیے کام کرتی رہے گی۔ کم ازکم وزارت داخلہ کو اس بیان سے راحت ملی ہوگی کہ فقیر محمد نے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر مشتمل ایک آزاد ریاست کا مطالبہ نہیں کردیا۔یہ وہ ہی مطالبہ تھا جو ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی نے غیر ملکی میڈیا کو اپنے انٹرویو میں کیا تھا۔ ٹی ٹی پی کا مطالبہ سابق فاٹا کے پہلے سے محروم لوگوں کے لیے پریشان کن تھا جو جو اس تنظیم کو ریاست کی علاقائی خارجہ پالیسی پر مبنی مفاد کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

تو یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ میڈیا کو دراصل ٹی ٹی پی سے دھکمی کا خطرہ نہیں ہے لیکن عسکریت پسندی کے پیچھے طریقہ کار سے ہے جو آزادی اظہار رائے کی قیمت پر عسکریت پسندی کو ہوا دیتا ہے۔ پی ایف یو جے یہی کرسکتی ہے کہ نائن الیون کے بعد کی دنیا میں شامل سامراجی جنگ اور علاقائی معیشت کے تعلق سے میڈیا ورکرز کا حساس بنادے۔ دراصل یہ امر کبھی توجہ کا مرکز ہی نہیں رہا جس کے نتیجے میں ہونے والا نقصان واضح ہے۔ ایک ڈیجیٹل میڈیا شو میں ’ٹی ٹی پی مرکزی دھارے میں؟‘ کے موجوع پر بات کرتے ہوئے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی افغانستان میں امریکا کے خلاف طالبان کی کامیابی پر حیران تھے۔ انہوں نے اپنے شائستہ میزبان سے بہت پر اعتماد انداز میں کہا کہ ’طالبان نے بہت اچھا کام کیا ہے، ہماری عسکری اور سول انتظامیہ کو ان کے تجربے سے سیکھنا چاہیے‘۔

ٹی ٹی پی کے بارے میں جنرل اسد درانی نے پہلے سے قائم بیانیے کو دہراتے ہوئے کہا کہ یہ ’ہمارے لوگ‘ ہیں، یعنی انہوں نے ان عسکریت پسندوں کے لیے عام معافی کی سفارش کی جو پاکستان کے ساتھ امن سے رہنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ’یہاں اپنی مرضی سے آئیں یہ آپ کا ملک ہے‘۔

افغانستان کے معاملےمیں دوہرا سیکیورٹی معیار اور قومی میڈیا کے ایک بڑے حصہ پر اس کا اثر منطقی معلوم نہیں ہوتا۔ اسی قسم کی الجھن نے ٹی ٹی پی کو جنم دیا تھا جو کہ 70 ہزار افراد کے قتل کی ذمہ دار ہے۔ ہمارا طاقتور طبقہ اس حقیقت کا استعمال خطے میں دہشت گردی کے خلاف اپنی کوششوں کی سنجیدگی ظہار کرنے لیے کرتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024