• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

کووڈ کے کچھ مریض بہت زیادہ بیمار کیوں ہوتے ہیں؟ ممکنہ وجہ سامنے آگئی

شائع September 15, 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کورونا وائرس کے اکثر افراد میں اس کی شدت زیادہ نہیں ہوتی بلکہ علامات بھی نظر نہیں آتیں مگر کچھ جان لیوا حد تک بیمار ہوجاتے ہیں، مگر ایسا کیوں ہوتا ہے؟

یہ وہ سوال ہے جس کا جواب دنیا بھر کے ماہرین طب جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔

اب بظاہر اس کا ایک جواب سامنے آگیا ہے اور وہ ہے آٹو اینٹی باڈیز، جن سے کووڈ 19 کی شدت سنگین یا جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

اسٹینفورڈ میڈیسین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 سے متاثر ہوکر ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں میں نقصان دہ آٹو اینٹی باڈیز کی شرح بڑھنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

آٹو اینٹی باڈیز ایسی اینٹی باڈیز کو کہا جاتا ہے جو جسم کے صحت مند ٹشوز یا مدافعتی خلیات پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ اگر کوئی فرد کووڈ 19 سے بیمار ہوکر ہسپتال پہنچ جائے تو ڈسچارج ہونے کے بعد بھی ضروری نہیں کہ وہ مکمل صحتیاب ہوجائیں۔

اس تحقیق کے لیے مارچ اور اپریل 2020 میں کووڈ کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے 147 مریضوں کے خون کے نمونوں میں آٹو اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی گئی۔

محققین نے وائرس کو ہدف بنانے والی اینٹی باڈیز کو شناخت اور ان کی سطح کی جانچ پڑتال کی گئی اور ایسی اینٹی باڈیز کو بھی دیکھا گیا جو مدافعتی خلیات پر ہی حملہ آور ہوجاتی ہیں۔

انہوں نے دریافت کیا کہ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے 60 فیصد مریضوں میں آٹو اینٹی باڈیز کو دریافت کیا جبکہ ایک کنٹرول گروپ کے 15 فیصد صحت مند افراد میں یہ ان کو دیکھا گیا۔

یہ آٹو اینٹی باڈیز مدافعتی نظام کو بہت زیادہ متحرک کردیتی ہیں جسے سائٹوکائین اسٹروم بھی کہا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں بیماری کی علامات طویل عرصے تک برقرار رہتی ہیں۔

محققین نے 50 مریضوں کے خون کے نمونوں ہسپتال میں داخلے کے پہلے دن کے ساتھ ساتھ مختلف دنوں میں اکٹھے کیے تھے، جس سے انہیں آٹو اینٹی باڈیز کی پیشرفت کو ٹریک کرنے کا موقع ملا۔

انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں داخلے کے ایک ہفتے کے اندر 20 فیصد مریضوں میں ایسی آٹو اینٹی باڈیز بن گئیں جو خود ان کے ٹشوز پر حملہ آور ہوسکتی تھیں، بیشتر کیسز میں یہ ان آٹو اینٹی باڈیز کی سطح اتنی زیادہ ہوتی ہے جتنی کسی آٹو امیون بیماری کی تشخیص میں نظر آتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ کیسز میں یہ نئی آٹو اینٹی باڈیز مدافعتی ردعمل کے بہت زیادہ متحرک ہونے کا عندیہ دیتی ہیں جس کے نتیجے میں مریض کے جسمانی افعال کو شدید ورم کا سامنا ہوسکتا ہے۔

کچھ کیسز میں یہ آٹو اینٹی باڈیز بننے کی وجہ وائرل میٹریلز ہوتے ہیں جو ہمارے پروٹینز سے مماثلت رکھتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ کووڈ کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کے باعث مدافعتی ردعمل کی شدت بڑھنے کے نتیجے میں وارئل ذرات ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں، جس کے باعث مدافعتی نظام کو وائرس کے ایسے ٹکڑے اور حصے دیکھنے کو ملتے ہیں جو اس نے پہلے دیکھے نہیں ہوتے، اگر یہ وائرل ٹکڑے ہمارے اپنے پروٹیشنز سے مماثلت رکھتے ہوں تو آٹو اینٹی باڈی بننے کا عمل شروع ہوسکتا ہے۔

محققین نے کہا کہ نتائج سے ویکسینیشن کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے، کووڈ ویکسینز سنگل پروٹین یعنی اسپائیک پروٹین پر مبنی ہوتی ہیں، ویکسینیشن کے نتیجے میں مدافعتی نظام وائرس کے حملے پر الجھن کا شکار نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ویکسینیشن سے ورم کا سامنا بھی بریک تھرو انفیکشن کی صورت میں کم ہوتا ہے، تو مدافعتی نظام سے آٹو اینٹی باڈیز بننے کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024