جسٹس عائشہ کے تقرر کا معاملہ: 'تاریخ لکھ لے کون خواتین کے حقوق کیلئے کھڑا نہیں ہوا'
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں خاتون جج کی ترقی کے معاملے پر عدالت عظمیٰ کے قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تجویز دی کہ ان لوگوں کے نام درج کرلیے جائیں جنہوں نے لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) کی جسٹس عائشہ اے ملک کے تقرر کی تجویز کو مسترد کردیا تاکہ تاریخ میں واضح رہے کہ کون خواتین کے حقوق کے لیے کھڑا نہیں تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ ستمبر کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کے 4 گھنٹے کے اجلاس کی صدارت چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) گلزار احمد نے کی، جسٹس عمر عطا بندیال نے سیشن کو ایک تاریخی دن قرار دیا جہاں ایک خاتون جج کو سپریم کورٹ کے جج کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔
مزیدپڑھیں: بار کونسل کی جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی کی مخالفت
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’اگر ہم موقع سے محروم ہونا چاہتے ہیں کیونکہ ایسے مواقع زندگی میں بہت کم آتے ہیں، فیصلہ کن، ترقی پسند ہونے کے مواقع، پیچھے ہٹنا یا خوفزدہ ہونا آسان ہے لیکن ہمیں اس انتخاب کو استعمال کرنا ہوگا اور آج یہ فیصلہ کرنا ہوگا‘۔
انہوں نے آئین کے آرٹیکل 25 (3) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں کسی بھی ملک کی اعلیٰ ترین عدالتیں بھی خواتین ججوں پر مشتمل ہوتی ہیں، سپریم کورٹ آف انڈیا میں گزشتہ ماہ تین خواتین ججوں کو مقرر کیا گیا تھا، ایک ایسا ملک جس کی پہلی خاتون چیف جسٹس 2027 میں ہوں گی۔
آئین کا آرٹیکل 25 (3) خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لیے خصوصی پروژون کی وضاحت کرتا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ آیا ہم میں خواتین کے حق میں قدم اٹھانے کی ہمت اور طاقت ہے۔
مزید پڑھیں: جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی پر اتفاق نہ ہوسکا
انہوں نے جے سی پی سے درخواست کی کہ وہ مردوں اور خواتین کے لیے یکساں انتخابی معیارات کو یقینی بنائیں لیکن خواتین کو ایک مختلف قطار میں کھڑے ہونے دیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی خاتون جج کو سنیارٹی یا سینیارٹی کی کمی کی بنیاد پر نہیں روکا جا سکتا اگر وہ قابلیت یا صلاحیت یا آزادی کے معیار پر پورا اترتی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے اس بات پر زور دیا کہ جسٹس عائشہ کو انتہائی غیر جانبدار جانا جاتا ہے اور شاید یہی وجہ تھی کہ وکلا برادری ان کی نامزدگی کی مخالفت کر رہی ہے اور اس عمل کو روک رہی ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ بار ایک ترقی پسند ادارہ تھا جس نے ہمیشہ آئینی حقوق کی حمایت کی تھی اور ممتاز وکلا کے لکھے ہوئے مختلف مضامین کا حوالہ بھی دیا۔
انہوں نے صلاح الدین احمد، فیصل نقوی، سلمان اکرم راجہ اور ندا عثمان چوہدری کے نام لیے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ میں تقرر کے معیارات پر سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے اور بہترین ذہن اور میرٹ کے معیار کو پورا کرنے والے مواقع ملنا چاہیے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سنیارٹی کو بنیادی اہمیت نہیں دی جا سکتی کیونکہ یہ پروموشن نہیں تھی۔
مزید پڑھیں: جسٹس عائشہ کی سپریم کورٹ میں ترقی پر وکلا کا 9 ستمبر کو احتجاج کا اعلان
انہوں نے 50 ہزار سے زائد زیر التوا کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان مقدمات کو حل کرنے کے لیے قابل ججوں کی ضرورت ہے اور سپریم کورٹ کے ججوں کے لیے آئینی قوانین پر مہارت ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر سنیارٹی معیار تھی تو جے سی پی کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کے تقرر کنویر بیلٹ میکانزم کے ذریعے کی جائے گی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سینئر ججز کو نظرانداز کرکے 41 ججز کو سپریم کورٹ میں جج مقرر کیا گیا اور ان میں سے چند شاندار جج ہیں اور میرے ہیرو بھی رہے۔
تبصرے (1) بند ہیں