سقوطِ کابل کے بعد پی آئی اے کی افغانستان کیلئے پہلی چارٹرڈ کمرشل پرواز
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے ترجمان نے کہا ہے کہ پی آئی اے نے آج اپنی کمرشل فلائٹ افغانستان میں کابل کے لیے روانہ کی ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ترجمان عبداللہ ایچ خان نے بتایا کہ بوئنگ 777 فلائٹ نمبر پی کے 6429 اسلام آباد سے بطور کمرشل فلائٹ روانہ ہوئی جس میں بینک کے عہدیدار اور صحافی سوار تھے۔
مزیدپڑھیں: 'پی آئی اے نے افغان انخلا کے دوران سب سے ذیادہ مدد کی'
عالمی مالیاتی ادارے ورلڈ بینک نے پی آئی اے کے طیارے کو چارٹرڈ کیا تھا، بعدازاں طیارہ اسلام آباد واپس آگیا۔
افغانستان سے 31 اگست تک غیر ملکی فوجیوں اور بڑے پیمانے پر لوگوں کے انخلا کے بعد کابل میں پی آئی اے کی یہ پہلی پرواز تھی۔
ترجمان پی آئی اے نے رائٹرز کو بتایا کہ یہ ایک خاص چارٹرڈ کمرشل فلائٹ تھی، ہم نے دوسرے افراد کو بھی جگہ دی جو افغانستان چھوڑنا چاہتے تھے کیونکہ ہمارے پاس جہاز میں جگہ تھی۔
پی آئی اے کے چیف آپریٹنگ افسر ارشد ملک نے ایک بیان میں کہا کہ یہ فلائٹ آپریشن پی آئی اے اور پوری دنیا کے لیے بہت اہم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے دوبارہ پروازیں شروع کرنے کیلئے افغانستان سے اجازت کی منتظر
انہوں نے کہا کہ ہمیں اُمید ہے کہ ہم جلد ہی مکمل فلائٹ آپریشن دوبارہ شروع کر سکیں گے۔
ایئرپورٹ کے گراؤنڈ اسٹاف کے مطابق افغانستان سے تقریباً 70 افراد اسلام آباد جانے والی پرواز میں تھے جن میں زیادہ تر افغان تھے جو عالمی بینک جیسے بین الاقوامی اداروں کے عملے کے رشتہ دار تھے۔
ایک خاتون مسافر نے بتایا کہ ’میری آخری منزل تاجکستان ہے، میں یہاں تب ہی واپس آؤں گی جب خواتین کے لیے کام کرنے اور آزادانہ نقل و حرکت کی آزادی ہوگی‘۔
یونیورسٹی کے ایک 22 سالہ طالب علم نے بتایا کہ وہ ایک ماہ کے لیے پاکستان جارہا ہے۔
مزید پڑھیں: پی آئی اے پر پابندی لگانے والے افغانستان سے انخلا کیلئے اس کی مدد مانگ رہے ہیں، فواد چوہدری
انہوں نے کہا کہ ’یہ بالکل چھٹی کی طرح ہے، میں ملک کے بارے میں دکھی ہوں لیکن کچھ عرصے کے لیے افغانستان چھوڑنے پر خوش بھی ہوں‘۔
تجارتی پروازوں کی بحالی طالبان کے لیے ایک اہم امتحان ہوگی جنہوں نے متعدد مرتبہ وعدہ کیا کہ وہ درست دستاویزات والے افغانوں کو آزادانہ طور پر ملک سے جانے کی اجازت دیں گے۔
کابل ایئر پورٹ کا اسٹاف اپنی ڈیوٹی پر واپس آچکا ہے، اس اسٹاف میں خواتین بھی شامل ہیں۔
سامان کی سیکیورٹی اور اسکیننگ کے کام پر تعینات دو خواتین میں سے ایک نے کہا کہ ’میں نہیں جانتی کہ ہمیں کسی بھی وقت مار یا کام سے نکال دیا جائے'۔