طالبان حقیقت پسندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، قطر
قطر نے کہا کہ طالبان نے 'حقیقت پسندی' کا مظاہرہ کیا ہے اور انہیں افغانستان کے غیر متنازع حکمرانوں کے طور پر ان کے اعمال سے لگانا چاہیے۔
تاہم قطر نے اسلام پسندوں کو باضابطہ تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق قطری نائب وزیر خارجہ لولوة الخاطر نے اے ایف پی کو ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ یہ افغانوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا تعین کریں، عالمی برادری پر نہیں۔
واضح رہے کہ دوحہ طالبان کے درمیان مرکزی ثالث تھا جس نے 2013 میں قطر میں ایک سیاسی دفتر کھولا تھا۔
مزید پڑھیں: پاکستان آج افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے ورچوئل اجلاس کی میزبانی کرے گا
لولوة الخاطر نے افغانستان کے نئے حکمرانوں کو باضابطہ تسلیم کرنے کا اعلان کیے بغیر کہا کہ 'انہوں نے حقیقت پسندی کا بہت زیادہ مظاہرہ کیا ہے، ان کے عوامی اقدامات کو دیکھیں'۔
طالبان کی جانب سے عبوری حکومت کی رونمائی سے قبل پیر کی رات کو ہونے والے انٹرویو میں انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ 'وہ ڈی فیکٹو حکمران ہیں، اس میں کوئی شک نہیں'۔
طالبان نے منگل کو ملا محمد حسن اخوند کی سربراہی میں قائم مقام حکومت کی رونمائی کی تھی تاہم ابھی تک قطر سمیت اقوام متحدہ کے کسی رکن ملک نے اسے باقاعدہ تسلیم نہیں کیا ہے۔
لولوۃ الخاطر نے اے ایف پی کو بتایا کہ 'حقیقت یہ ہے کہ بہت سے بے گھر افراد کابل چھوڑنے میں کامیاب ہوئے، بشمول بہت سی طالبات، یہ ایک اس بات کا ثبوت ہے، کیونکہ ان کے تعاون کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا'۔
انہوں نے کہا کہ قطر کی جانب سے طالبان کو فوری طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم تسلیم کرنے میں جلدی بازی نہیں کریں گے تاہم ہم طالبان سے کنارہ کشی اختیار نہیں کر رہے، ہم بیچ کا راستہ اپنا رہے ہیں'۔
امریکا نے منگل کے روز کہا تھا کہ وہ طالبان کی جانب سے ایک دن پہلے منظر عام پر لائی گئی حکومت کے بارے میں 'فکر مند' ہے۔
اس نے یہ نشاندہی کی تھی کہ یہ صرف طالبان کے ارکان پر مشتمل ہے اور اس میں کوئی خاتون شامل نہیں ہے۔
قطر بین الاقوامی توجہ کا مرکز
لولوۃ الخاطر نے کہا کہ اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے طالبان نے اپنے صحت کے حکام بشمول خواتین ڈاکٹرز کو اپنے کورونا وائرس کے ردعمل کو جاری رکھنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے۔
خیال رہے کہ مغربی ممالک اور این جی اوز کی جانب سے تنظیم سے خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرنے کے مطالبات 15 اگست کو کابل پر قبضے کے بعد سے دیکھے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'افغانستان ایک خودمختار ملک ہے، افغانستان کے لوگوں کو اپنی رائے دینی چاہیے'۔
یہ بھی پڑھیں: کابل میں طالبان مخالف ریلیوں کو منتشر کرنے کیلئے ہوائی فائرنگ
ان کا کہنا تھا کہ 'جب ہم بات کرتے ہیں کہ افغانستان بین الاقوامی برادری کے سامنے جوابدہ ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بین الاقوامی برادری افغانستان کے لوگوں کی قسمت کو کنٹرول کر سکتی ہے یا اسے کرنا چاہیے'۔
واضح رہے کہ قطر ایک امریکی اتحادی ہے اور خطے کے سب سے بڑے امریکی ایئر بیس کا میزبان ہے جو افغانستان سے انخلا اور سفارت کاری دونوں میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
افغانستان سے ایئر لفٹ کیے گئے ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد افراد میں سے تقریباً نصف قطر کے راستے منتقل ہوئے ہیں۔
'پیغام دینے والے کا قتل مت کریں'
قطر کے اقدامات نے طالبان کے دوبارہ منظر عام پر آنے میں کردار ادا کیا ہے، اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'پیغام دینے والے کا قتل مت کریں'۔
انہوں نے کہا کہ 'قطر پیغام رساں ہے، ہم سہولت فراہم کرتے رہے ہیں'۔
یاد رہے کہ قبضے کے جواب میں تاریخ کے سب سے بڑے ایئرلفٹ میں سے ایک کو چلانے کے بعد قطر بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
لولوۃ الخاطر نے بڑی حد تک دوحہ کے انخلا کی کارروائیوں کی نگرانی کی اور یہاں تک کہ کچھ مہاجرین کو ذاتی طور پر وصول کیا۔
مزید پڑھیں: ملا حسن اخوند وزیراعظم اور ملا عبدالغنی ان کے نائب ہوں گے، طالبان کا عبوری حکومت کا اعلان
عربی صحرائی ملک کے دو روزہ دورے پر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے قطر کے حکمران امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کی کوششوں کو سراہا۔
لولوۃ الخاطر نے کہا کہ 'بہت سے لوگ ہماری ثالثی اور نقطہ نظر پر سوال اٹھا رہے تھے لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ ہم اسے ایک حقیقی امتحان میں ڈال رہے ہیں اور پوری دنیا اس ثالثی میں ہماری مدد اور سہولت کے لیے ہماری طرف دیکھ رہی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر (طالبان) انسانی حقوق، خواتین کے حقوق بالخصوص خواتین کی تعلیم کا احترام کرتے ہیں تو اس کے فوائد ہوں گے، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اس کے نتائج برآمد ہوں گے'۔
انہوں نے کہا کہ لاجسٹک چیلنجز کے باوجود وہ پرامید ہیں کہ امدادی کوششیں دوبارہ شروع ہو سکتی ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو سیاست کی نظر نہیں ہونا چاہیے، انہیں انسانی حقوق اور ترقیاتی امداد پر توجہ دینی چاہیے۔