سندھ ہائیکورٹ نے این آئی سی وی ڈی کو فراہم کردہ سرکاری فنڈنگ کا ریکارڈ طلب کرلیا
کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی سیکریٹری خزانہ سے قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) کو گزشتہ 5 برس میں فراہم کردہ فنڈز کا مکمل ریکارڈ طلب کرلیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت نے ہسپتال کی انتظامیہ پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ریماکس دیے کہ ہسپتال کے تنخواہ دار ڈاکٹروں کو مرکز صحت کے احاطے میں نجی طور پر پریکٹس کرنے کی اجازت دی گئی۔
مزید پڑھیں: خورشید شاہ کا دو سال تک این آئی سی وی ڈی میں قیام، عدالت کی افسران کو تنبیہ
جسٹس صلاح الدین پنھور کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے این آئی سی وی ڈی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم قمر کو 20 ستمبر کو طلب کرلیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ دستاویزی ثبوت کے ساتھ تمام ڈاکٹروں اور انتظامی افسران کی تنخواہوں سے متعلق رپورٹ پیش کریں۔
بینچ نے انہیں یہ بھی ہدایت کی وہ آئی سی وی ڈی کے تمام ڈاکٹر بشمول ان کے غیر پریکٹس الاؤنس وصول کرنے سے متعلق بھی تفصیلات پیش کریں۔
جب بینچ نے این آئی سی وی ڈی میں مینجمنٹ کنسلٹنٹ کے تقرر کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست کی سماعت کی تو عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے این آئی سی وی ڈی کو فنڈز جاری کیے جارہے ہیں۔
تاہم این آئی سی وی ڈی نے دعویٰ کیا کہ یہ ایک خود مختار ادارہ ہے جس کے اپنے وسائل ہیں اور اسے ایک آزاد بورڈ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا کیسز میں اضافے پر آپریشنز روکنے والے این آئی سی وی ڈی کے شعبہ سرجری کے سربراہ برطرف
علاوہ ازیں یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ این آئی سی وی ڈی کے بارے میں واضح نہیں کہ آیا وہ سرکاری ہے یا نجی شعبے کی حیثیت سے کام کررہا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ہسپتال اپنے معاملات خود چلا رہا ہے یا مکمل طور پر سندھ حکومت کی مالی اعانت سے فعال ہے؟
اس میں مزید کہا گیا کہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ این آئی سی وی ڈی کے مختلف عہدوں پر تعینات اور بھاری تنخواہ لینے والے ڈاکٹروں کو نجی طور پر ہسپتال میں پریکٹس کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
بینچ نے ریماکس دے کہ ان سوالات کے جوابات درکار ہیں خاص طور پر جب این آئی سی وی ڈی یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ وہ عوام کو بلا معاوضہ خدمات فراہم کر رہا ہے۔
این آئی سی وی ڈی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے وکیل نے دلائل دیے کہ پٹیشن بے نتیجہ ہو گئی ہے کیونکہ مینجمنٹ کنسلٹنٹ سروس میں نہیں ہے۔
بینچ نے ریماکس دے کہ وکیل کو اس طرح کا بیان دائر کرنے کی آزادی ہے۔
مزیدپڑھیں: قومی ادارہ برائے امراض قلب پر نیب کا چھاپہ، مالی ریکارڈ ضبط
این آئی سی وی ڈی کے دو ملازمین، جن میں سے ایک کو بعد میں نوکری سے نکال دیا گیا تھا، نے 2019 میں ایس ایچ سی سے رجوع کرتے ہوئے کہا تھا کہ مینجمنٹ کنسلٹنٹ کو غیر قانونی طور پر تعینات کیا گیا کیونکہ اس کے پاس اس عہدے کے لیے کوئی اہلیت نہیں تھی جبکہ اس عہدے کے لیے اشتہار شائع ہوا اور نہ ہی بھرتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
قومی احتساب بیورو (نیب) این آئی سی وی ڈی کے انتظامی امور کے بارے میں بھی تحقیقات کر رہا ہے جس میں اس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ہسپتال کے کئی سینئر افسران بھی شامل ہیں جن پر 2014 سے 2020 کے دوران مبینہ غیر قانونی تقرر اور خریداری میں رشوت شامل ہے۔