رمیز راجا اب پی سی بی کے بھی راجا
'نیا پاکستان' کے معروف نعرے کے ساتھ اقتدار میں آنے والے عمران خان کی حکومت کو 3 برس ہوچکے ہیں۔ عمران خان کو دنیا کے بہترین آل راؤنڈرز میں شمار کیا جاتا ہے اور وہ اعلیٰ سطح پر کرکٹ کھیلنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں لہٰذا ان کی وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر موجودگی پاکستان میں کھیلوں کے شعبے کے لیے کسی بڑی نعمت سے کم نہیں ہے۔
لیکن جہاں تک پاکستان میں کرکٹ کے کھیل کا تعلق ہے تو اس میں بدقسمتی سے کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔ قومی ٹیم کی کارکردگی غیر متاثرکن رہی ہے اور اعلیٰ عہدوں پر ردوبدل کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے سے قبل عمران خان پاکستان کرکٹ کے مسائل کو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے متھے مار دیتے تھے، کیونکہ ان کا مؤقف تھا کہ بورڈ کے فیصلوں میں پیٹرن اِن چیف یعنی وزیرِاعظم مداخلت کرتا ہے۔ مگر اب خود انہوں نے دوسری مرتبہ اپنی مرضی کا چیئرمین تعینات کیا ہے۔ چیئرمین شپ کا عہدہ چھوڑنے والے احسان مانی کو عمران خان نے ہی 2018ء میں تعینات کیا تھا اور اب اس اعلیٰ عہدے کے لیے منظورِ نظر بننے والے وزیرِاعظم کے سابق ساتھی کھلاڑی رمیز راجا ہیں۔
پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی بلاشبہ بورڈ چیئرمین احسان مانی کی سب سے بڑی کامیابی قرار دی جاسکتی ہے۔ اگرچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس بحالی کا بنیادی کام سابق چیئرمین نجم سیٹھی کرکے گئے تھے، لیکن کچھ عرصے سے دیکھا گیا ہے کہ جب پاکستان کرکٹ مسلسل ناکامیوں سے دوچار ہوتی ہے تو پی سی بی کے پیٹرن اِن چیف کے پاس چیئرمین کی تبدیلی کے سوا اور کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔ چند 'ادھورے' کاموں کو مکمل کرنے کے لیے احسان مانی کو اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع کی جو امید تھی وہ بَر نہ آسکی۔ عہدے کی 3 سالہ مدت کی تکمیل کے بعد انہیں دروازہ دکھا دیا گیا۔
برطانیہ میں مقیم چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) سے ان کی دیرینہ وابستگی کی بنا پر پی سی بی کا اعلیٰ عہدہ سونپا گیا تھا۔ وہ 2003ء سے 2006ء تک آئی سی سی کے صدر رہے اور اس وقت بھی گورننگ باڈی کی مختلف کمیٹیوں کا حصہ ہیں۔ احسان مانی 1989ء سے 1996ء تک پی سی بی کی نمائندگی بھی کرچکے تھے۔ چنانچہ انہیں یہ بخوبی اندازہ تھا کہ بورڈ میں کس مخصوص نظام کے تحت کام ہوتا ہے۔
احسان مانی کے بعد 35ویں چیئرمین/ صدر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالنے والے رمیز راجا بھی بورڈ کے انتظامی ڈھانچے سے واقفیت رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ جنرل توقیر ضیا دور کے ابتدائی دنوں میں ایڈوائزری کونسل کا حصہ رہے اور بعدازاں اپریل 2003ء میں اس وقت پی سی بی کے چیف ایگزیکیٹو افسر بنا دیے گئے تھے جب شاندار کرکٹ کمنٹیٹر چشتی مجاہد گھریلو وجوہات کی وجہ سے ڈائریکٹر کے عہدے سے دستبردار ہوگئے تھے۔ بدقسمتی سے رمیز راجا صرف 15 ماہ تک ہی اس عہدے پر رہے اور اس دوران انہوں نے کوئی خاص کمال نہیں دکھایا۔
کرکٹر کے بعد کمنٹری کا پیشہ اپنانے والے رمیز راجا کرکٹ کھیلنے کے دنوں سے ہی وزیرِاعظم سے کافی قریب رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ کے جن عہد ساز لمحوں کو قطعی فراموش نہیں کیا جاسکتا ان میں سے ایک لمحہ 25 مارچ 1992ء کی ایک خوشگوار شام کو دیکھا گیا تھا جب رمیز راجا نے مڈ آف پر کیچ پکڑ کر اپنے کپتان کو ان کی آخری بین الاقوامی وکٹ دلائی اور میلبرن کرکٹ گراؤنڈ سے ورلڈ کپ ٹرافی کے ساتھ ان کی فاتحانہ رخصتی کو ممکن بنایا۔
مگر انگلینڈ کے خلاف فائنل میں اس جیت کا سہرا بڑی حد تک ٹیم کی خوش قسمتی اور خود اعتمادی کو دیا جاتا رہا ہے لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ رمیز کو چُن کر عمران خان بہت بڑا جوا کھیل رہے ہیں۔
رمیز راجا کی تعیناتی کے جہاں تک مثبت پہلو کی بات کی جائے تو حال ہی میں جو چند پی سی بی چیئرمین گزرے ہیں ان میں سے 59 سالہ رمیز راجا سب سے کم عمر ہیں، لہٰذا اپنے پیش رو کی جانب سے ازسرِ نو کھڑے کیے گئے ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے کو آگے لے کر جانے میں وہ اپنی توانائی کا بھرپور استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا میں کرکٹ کمنٹری سے مقبولیت پانے کی وجہ سے چند عالمی فورمز کا تعاون حاصل کرنے میں انہیں شاید زیادہ دقت پیش نہ آئے۔
سال در سال بطور براڈکاسٹر دنیا گھومنے کی وجہ سے رمیز راجا نے کرکٹ کھیلنے والے دیگر ملکوں میں موجود نظام کا قریب سے جائزہ لیا ہے اور امید ہے کہ وہ پاکستان کرکٹ کو فائدہ پہنچانے کے لیے اپنے مشاہدات کا سہارا لیں گے۔
تاہم رمیز راجا یہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کرکٹ کے مجموعی ڈھانچے کو بہتر بنانے کا منصوبہ رکھتے ہیں لیکن یہ کہنا آسان اور کرنا بہت مشکل ہے، بالخصوص ایسے شخص کے لیے جو اعلیٰ انتظامی یا مینجمنٹ کے عہدے کا زیادہ تجربہ نہ رکھتا ہو۔ اس سے پہلے جب رمیز راجا سی ای او بنے تھے تب بھی وہ اپنے کمنٹری کے کام اور کھیلوں کے انتظام کاروں میں ہونے والی کھیل سے زیادہ مالی مقاصد کی حامل ڈیل میں دلچسپی لیتے پائے جاتے تھے۔
مختلف حلقوں سے ہونے والی مخالفت بھی سابق کپتان کا کام مشکل بناسکتی ہے۔ ان مخالفین میں سے ایک عمران خان کے سابق باؤلنگ پارٹنر سرفراز نواز ہیں جو ان کی نامزدگی کی تصدیق سے ایک ہفتہ پہلے ہی رمیز راجا کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش کرچکے ہیں۔ سرفراز نواز اور رمیز راجا کے درمیان دشمنی بہت پرانی ہے۔ سرفراز نواز نے عمران خان کو احسان مانی کی جگہ ماجد خان یا ظہیر عباس کو لانے کا مشورہ دیا تھا۔
نئے چیئرمین کی اوّلین ترجیح تمام فارمیٹس میں قومی ٹیم کی خراب کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگی جس کا اظہار وہ خود کرچکے ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ کی رینکنگ میں پاکستان، نیوزی لینڈ، بھارت، انگلینڈ اور آسٹریلیا سے پیچھے ہے۔ اس کے علاوہ قومی ٹیم ایک روزہ کرکٹ کی رینکنگ میں طویل عرصے سے چھٹے نمبر پر اٹکی ہوئی ہے۔ جب ٹیم کی قیادت سرفراز احمد کے پاس تھی اور ہیڈ کوچ مکی آرتھر تھے اس وقت ٹی20 کی عالمی رینکنگ میں پاکستان پہلے نمبر پر تھا مگر تمام فارمیٹس میں کپتان مقرر کیے جانے والے بابر اعظم کی قیادت میں قومی ٹیم کی ریکنگ چوتھے نمبر تک گرچکی ہے۔
رمیز راجا کے لیے پہلی پریشانی بلاشبہ سرفراز احمد کی قیادت سے سبکدوشی کے بعد قومی ٹیم کی ماند پڑتی کارکردگی ہوگی۔ قومی ٹیم نے اپنے 3 عالمی اعزازت میں سے آخری عالمی اعزاز جون 2017ء میں چیمپیئن ٹرافی جیت کر اپنے نام کیا تھا۔ لیکن افسوس کہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان کوئی اعزاز نہ جیت سکا۔ 2009ء میں ٹی20 چیمپیئن بننے والی ٹیم 2012ء کے بعد سے ناک آؤٹ مرحلے تک پہنچنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔
ٹی20 ورلڈ کپ میں 6 ہفتے رہ گئے ہیں اور رمیز راجا نے واضح اور واشگاف انداز میں ٹیم پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ چونکہ موجودہ ٹی20 ٹیم کے چند کھلاڑیوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ فیصلہ کن یا پھنسے ہوئے میچوں کو کیسے جیتا جاتا ہے اس لیے قومی ٹیم اتنی اچھی نظر نہیں آتی کہ رواں برس ٹاپ ٹیموں کو چیلنج دے سکے۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر قسمت نے ساتھ دیا تو ہی یہ ٹیم سپر ایٹ مرحلے کو پار کرسکے گی۔
رمیز راجا نے وزیرِاعظم سے ملاقات کے بعد ای ایس پی این کرک انفو سے مختصر گفتگو میں کہا کہ، 'پاکستان مستقل مزاجی کی شدید کمی کا شکار ہے، اور یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ تمام فارمیٹس میں پاکستان کی رینکنگ کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ ہم عالمی مقابلوں کے فائنل تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوپائیں گے۔ قومی ٹیم زیادہ سے زیادہ سیمی فائنل کے مرحلے تک ہی پہنچ سکتی ہے جبکہ ایک روزہ اور ٹیسٹ فارمیٹ کا جہاں تک تعلق ہے تو قومی ٹیم کا پول اسٹیج عبور کرنا بھی مشکل نظر آتا ہے'۔
ناقدین آج بھی اپنے اس مؤقف پر قائم ہیں کہ جب قومی ٹیم ٹی20 کے فارمیٹ میں اپنے عروج پر تھی اس وقت اگر سرفراز احمد اور آرتھر کو ان کے عہدوں پر بحال رکھا جاتا تو شاید پاکستانی ٹیم عالمی مقابلے کے لیے ایک طاقتور ٹیم کے طور پر خود کو تیار کرچکی ہوتی۔ ان کا کہنا ہے کہ 2019ء کے ورلڈ کپ میں معمولی فرق سے سیمی فائنل تک جگہ نہ بنانے کے تقریباً 3 ماہ کے اندر جب احسان مانی نے انہیں عہدوں سے سبکدوش کیا تو اس وقت وہ دونوں درست سمت میں گامزن تھے۔
رواں برس کے ابتدائی دنوں میں جنوبی افریقہ اور زمبابوے کے خلاف بڑی کامیابیوں کے باوجود پاکستان کی غیر مستقبل مزاج کارکردگی نے مصباح کی بطور ہیڈ کوچ پوزیشن کافی کمزور کردی ہے جبکہ وائٹ کرکٹ کو تو اور بھی زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ احسان مانی نے مصباح کو چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ دونوں عہدوں سے نواز کر ایک نئی ریت قائم کی تھی مگر ان کا تجربہ بُری طرح ناکام رہا اور یہ ریت 13 ماہ بعد گزشتہ اکتوبر میں دم توڑ بیٹھی۔
مصباح کے کپتانی کے دنوں سے اب تک برقرار سست رویے اور دفاعی حکمتِ عملی کو یقیناً رمیز راجا کے علاوہ اپنے عہدے میں توسیع چاہنے والے پی سی بی کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان کی کڑی جانچ پڑتال سے گزرنا پڑے گا۔ قومی ٹیم ٹی20 ورلڈ کپ میں بھلے ہی توقعات کے برعکس اچھی کارکردگی دکھائے لیکن انگلینڈ میں ہونے والی ناکامیاں مصباح کا وائٹ بال کرکٹ کے محاذ پر پہرا ختم کرواسکتی ہیں۔
کمنٹری کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں سے گفتگو کرتے رہنے کی وجہ سے ابھی تک میدان پر موجود لڑکوں میں سے ایک 'لڑکا' تصور کیے جانے والے رمیز راجا اب اپنے کرکٹ کیریئر کے مشکل ترین سفر پر گامزن ہونے جا رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی کوتاہی ان کے لیے کس قدر بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
یہ مضمون 5 ستمبر 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں