نیب، آئی بی ہاؤسنگ سوسائٹی سے پلاٹس کے حصول میں تاخیر سے پریشان
قومی ادارہ احتساب (نیب) اور انٹیلی جنس بیورو کی ہاؤسنگ اسکیم کے درمیان ریئل اسٹیٹ کا مشترکہ منصوبہ وقت پر مکمل نہ ہوسکا جس نے نیب کو مزید تاخیر کے بغیر پلاٹ حوالے کرنے کے لیے آئی بی پر دباؤ ڈالنے پر مجبور کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈان کے پاس دستیاب دستاویزات کے مطابق 29 اپریل کو ایک اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ انٹیلی جنس بیورو ایمپلائز ہاؤسنگ کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی (آئی بی ای سی ایچ ایس) 31 اکتوبر کو پلاٹس نیب ویلفئیر سیل کے حوالے کردے گی۔
تاہم اس کے بعد ہونے والے اجلاس میں آئی بی ای سی ایچ ایس نے نیب سیل کو پلاٹوں کا قبضہ دینے کے لیے 31 دسمبر کی نئی تاریخ دے دی۔
نیب ویلفیئر سیل اور آئی بی ای سی ایچ ایس نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے مطابق آئی بی ای سی ایچ ایس نے بیورو کے ملازمین کے لیے پلاٹس تیار کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:آئی بی کا کام ہاؤسنگ سوسائٹی چلانا نہیں سیکیورٹی فراہم کرنا ہے، سینیٹ
تاہم 26 نومبر 2020 کو ایک اجلاس کے بعد نیب کے ایڈیشنل ڈائریکٹر طارق محمود بھٹی نے ایک سرکلر جاری کیا کہ نیب ویلفیئر سیل/ نیب راولپنڈی ڈائریکٹوریٹ کے ہاؤسنگ سوسائٹی کے منتظمین نے آئی بی کے حکام کے ساتھ اجلاس میں آگاہ کیا کہ انہیں سیکٹر/نیب ملازمین کے لیے مختص بلاک پی اور اے اے میں بروقت زمین کی خریداری میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
سرکلر کے مطابق اس کے نتیجے میں ترقیاتی کاموں میں تاخیر اور نتیجتاً نیب الاٹیز کو پلاٹوں کا قبضہ دینے میں دیر ہوسکتی ہے۔
اس ضمن میں مؤقف حاصل کرنے کے لیے نیب ترجمان نوازش علی عاصم سے رابطہ نہیں ہوسکا لیکن بیورو کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ملازمین کی جانب سے ویلفئیر سیل، آئی بی ہاؤسنگ سوسائٹی سے مارکیٹ کی قیمت پر پلاٹ خریدنے کے لیے رابطہ کررہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ویلفیئر سیل اور آئی بی ای سی ایچ ایس کے مابین سال 2014 میں مفاہمتی یاداشت پر دستخط کیے گئے تھے اور سیل اب ہاؤسنگ سوسائٹی سے ترقیاتی کاموں میں تیزی اور پلاٹوں کا قبضہ دینے کا مطالبہ کررہا ہے کیوں کہ تاخیر کی وجہ سے بروقت بیعانہ اور اقساط جمع کرانے والے بیورو کے عہدیداران میں غیر یقینی پائی جارہی ہے۔
مزید پڑھیں:قومی اسمبلی: احتجاج کے دوران نیب آرڈیننس میں مزید 120 روز کی توسیع
سرکلر میں مزید کہا گیا کہ اس معاملے کے پیش نظر آئی بی ای سی ایچ ایس سیکٹر/بلاک پی اور اے اے کے بدلے گلبرک ریذیڈنسیا اسلام آباد کے سیکٹر/بلاک جی اور اے ای کے نزدیک جگہ مختص کرنے کی تجویز پر غور کررہی ہے جہاں زیادہ تر ہموار مقامات پہلے ہی خریدے جاچکے ہیں۔
نیب اور آئی بی سی ایچ ایس کے درمیان 29 اپریل کو ہونے والے اجلاس کے نکات کے مطابق آئی بی سی ایچ ایس نے ایف-ایگزیکٹو اور اے –ایگزیکٹو سیکٹرز میں بیورو عہدیداران کے لیے متبادل پلاٹ فراہم کرنے کی تصدیق کی تھی جہاں زمین کی قیمت بلاک پی اور اے اے کے مقابلے زیادہ ہے۔
نکات میں کہا گیا کہ ’یہاں پہلے سے ہی ایک سڑک موجود ہے جو آئی بی سی ایچ ایس بلاکس کو نئی جگہ سے منسلک کرتی ہے جسے بعد ازاں مزید کشادہ کردیا جائے گا'۔
مزید کہا کیا کہ 'انجینئرنگ ڈیزائن یکم اگست سے شروع ہوگا اور متوقع طور پر 31 اکتوبر 2021 تک مکمل ہوجائے گا'۔
یہ بھی پڑھیں:ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل: خواجہ آصف کی اہلیہ اور بیٹے کے خلاف مقدمہ
دونوں اداروں کے عہدیداران کی جولائی میں ہونے والی حالیہ ملاقات میں آئی بی ای سی ایچ ایس کا کہنا تھا کہ 'بلاک اے –ایگزیکٹو میں نیب الاٹیز کے درکار زمین پر کام تقریباً مکمل ہوچکا ہے'۔
البتہ اجلاس کے نکات میں کہا گیا تھا کہ 'مخصوص علاقے کے کچھ حصوں میں زمین حاصل کرنے لیے چند مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے'۔
بعدازاں منصوبے کی تکمیل کے لیے آئی بی سی ایچ ایس نے 31 دسمبر کی ایک اور تاریخ دے دی۔
ہاؤسنگ سوسائٹی کی منتظم کمیٹی نے کہا کہ 'بلاک ایف میں نیب الاٹیز کے لیے مختص کی گئی زمین موزہ بھمبر تارڑ میں واقع ہے جو جموں کشمیر ہاؤسنگ سوسائٹی یا کسی اور ادارے کے دعوے سے مکمل طور پر آزاد ہے لیکن آئی بی کے سینئر عہدیداران کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کردہ درخواست زیر التوا ہے جو آئی بی سی ایچ ایس کے دعوے سے متضاد ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیب نے مالم جبہ کیس کے ملزمان کو کلین چٹ دے دی
درخواست آئی بی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل غلام حسین اور عامر مجاہد خان اور ڈائریکٹرز ندیم عارف چوہدری اور حفیظ اللہ خان کی جانب سے دائر کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ اراضی متنازع ہے لیکن 'جموں کشمیر ہاوسنگ کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی' نامی ایک سوسائٹی نے 16 جون 2021 کو کورل پولیس تھانے میں آئی بی سی ایچ ایس کے عہدیداران کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست جمع کرائی تھی۔
جب رپورٹر نے معاملے پر بیان کے لیے آئی بی ای سی ایچ ایس کے سیکریٹری اطلاعات محمد علی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کال وصول کی لیکن سوالات کے جواب دینے سے گریز کیا۔