جب برازیلی سائیکلسٹ نے کامیابی و ناکامی کا مشکل فلسفہ آسان کردیا
کوہ پیمائی، تیراکی، پیرا گلائیڈنگ یا سائیکلنگ جیسی پُرخطر مہمات کے لیے مناسب مہارت اور معلومات کا حصول ضروری ہوتا ہے ورنہ شوق اور ایڈونچر کی خاطر جانی نقصان کا اندیشہ رہتا ہے۔
سائیکلنگ بھی محض مشغلہ نہیں بلکہ جان جوکھوں میں ڈالنے والا ایک ایسا کھیل ہے جس میں انسان کو سو طرح کے خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
یوں تو ہر انسان روزانہ کئی اجنبی لوگوں کو دیکھتا یا ان سے کسی طور سے ملتا ہے، لیکن بعض اوقات انہی نئے چہروں میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے اعلیٰ اخلاق، غیر معمولی کام یا ظاہری شکل و صورت کی وجہ سے ملنے والوں کو ہمیشہ یاد رہ جاتے ہیں۔
تھیاگو گھلارڈی بھی ایک ایسی ہی باکمال و باہمت شخصیت کے حامل بشر ہیں جنہوں نے اپنے سائیکلنگ جیسے شوق کو پورا کرنے کے دوران دنیا میں نام کمایا۔
گھلارڈی 1979ء میں ساؤ پاؤلو، برازیل میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے مجھ سے ہونے والی ایک ملاقات میں اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ برازیل کے سب سے بڑے شہر ساؤ پاؤلو میں گزارا۔ میں نے کولوراڈو میں ایک سال، سان فرانسیسکو میں 2 سال اور کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی، فریسنو میں 4 سال گزارنے کے بعد اس وقت نیو یارک کو ٹھکانہ بنایا ہوا ہے۔ یہیں میں نے کمپیوٹر سائنسز میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی‘۔
میرا ان سے اگلا سوال تھا کہ آپ نے سائیکلنگ کا باقاعدہ آغاز کیسے کیا؟
میرے سوال پر دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے گھلارڈی نے تفصیلی جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’کچھ سال پہلے جب میں صرف سائیکل اور سلیپنگ بیگ کے ساتھ یوزیمائٹ نیشنل پارک کی طرف اپنے پہلے ٹؤر پر نکلا تھا، تب میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس مشکل سفر کو میں کیسے اپنے لیے آسان کر پاؤں گا؟ اسے اپنی معمول کی زندگی کے مطابق ڈھالنا میرے لیے آسان نہیں تھا۔ اس نوعیت کے سفر کے لیے مجھے کام، اسکول اور ہر قسم کی فکر سے آزاد ہونا پڑا۔
’دنیا کے اس سفر نے مجھے یہ احساس دلایا کہ اب سے پہلے زندگی دنیا کی حیرتوں کو جانے بغیر گزر رہی تھی۔ سائیکل کے ذریعے خود کو دنیا کے حیرت کدوں سے مانوس کرنا میرے لیے ایک ناقابلِ بیان تجربہ تھا۔ سائیکل میرے لیے زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے بھانت بھانت کے لوگوں کو سمجھنے کے مواقع ملے اور اسی فہم کو میں نے خود کو بہتر سے بہتر بنانے میں استعمال کیا اور مرتے دم تک کرتا رہوں گا، کیونکہ میرے مطابق سیکھنے کا عمل آخری سانس تک چلتا رہتا ہے اور یہی زندگی کا اصل مقصد ہے کہ انسان میں اچھے بُرے تجربات سے سیکھ کر خود کو بہتر سے بہتر بنانے کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے ہی انسان اپنے اصل مرتبے یعنی اشرف المخلوقات کے درجے پر پہنچ سکتا ہے۔‘
گھلارڈی کے توقف کرنے پر میں نے ان سے پوچھا کہ اب تک کے سفر کے دوران جن جن ممالک سے آپ کا گزر ہوا ان تمام تجربات کے پیش نظر آپ پاکستان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
گھلارڈی نے مسکراتے ہوئے نہایت اطمینان سے جواب دیا کہ ’ایران، ترکی اور دیگر کئی ممالک سے ہوتا ہوا جب میں انڈیا سے پاکستان کے سرسبز اور صاف ستھرے شہر اسلام آباد پہنچا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ ملک میری سوچ سے بھی زیادہ خوبصورت اور پُرامن ہے۔ اگر میں یہ سفر شروع نہ کرتا تو دنیا کے اس حسین خطے اور یہاں رہنے والے مخلص اور سادہ لوح لوگوں کے بارے میں کبھی جان ہی نہ پاتا‘۔
پڑھیے: 'نوٹ بک'، ایک سچی داستانِِ محبت
گھلارڈی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کی خوبصورت مگر انتہائی دشوار گزار شاہراہِ قراقرم سے گزرتے ہوئے ہمالیہ کے سرے کو عبور کرتے وقت میری سانسیں اکھڑ رہی تھیں جو میرے لیے ہر لحاظ سے مشکل مگر ایک بہترین تجربہ تھا‘۔
اپنے انوکھے تجربات کی بنا پر آپ باقی دنیا کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
میرے اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’نصیحتوں اور پیغامات کی اس دنیا میں فتح ہمیشہ عمل کی ہوئی ہے۔ بنی آدم کی رہنمائی کے لیے آسمانی کتابوں کے علاوہ بھی ہزارہا کتابیں لکھی جاچکی ہیں لیکن ان پر عمل کرنے کے بجائے زیادہ تر لوگ اپنے نفس کی پیروی کرنے میں عمریں گنوا دیتے ہیں۔ پھر بھی میں اتنا ضرور کہوں گا کہ زندگی میں اپنا راستہ خود تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کوئی بھی آپ کی قسمت کا ذمہ دار نہیں ہے۔ ہمیں اپنا راستہ خود متعین کرنا ہے اور اسے اپنے ہی پیروں سے طے کرنا ہے۔ ہمیں اپنی اپنی زندگیوں کے لیے جاگنا ہوگا، ہاں ہمیں اپنی اصل زندگی کے لیے بیدار ہونا پڑے گا۔ اگر آپ خوشی چاہتے ہیں تو یاد رکھیں آپ ہی اپنی منزل مقصود پانے کے ذمہ دار ہیں۔ مشکلات کو شکست دیں اور اپنی زندگی کی تعمیر میں حائل رکاوٹوں کا مقابلہ کریں‘۔
میں نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ آپ نے خود کو ایسی مہمات انجام دینے کے قابل کیسے بنایا؟ ناممکنات کو آخر کیسے ممکن بنایا جاسکتا ہے؟
پڑھیے: پہاڑوں اور فضاؤں پر جان چھڑکنے والے ولاری روزوف سے ملاقات
ان کا جواب یہ تھا کہ، ’میں خود بھی ایسے ہی سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہا ہوں جو اس شوق کو پورا کرنے سے پہلے میرے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ میں سوچتا رہتا کہ کیا میں ایسے پُرخطر تجربات سے گزر پاؤں گا؟ کیا میرا دماغ اور جسم اس قابل ہے کہ میں اس پُرخطر سفر کا آغاز کرسکوں؟ کیا یہ شوق مجھے ایسی جرأت مندانہ مہم جوئی کی کوشش کرنے کے لیے خود اعتمادی دے سکے گا؟ بلاشبہ یہ سفر شروع کرنے سے پہلے میں اپنا پہلا اور شاید آخری خواب جی رہا تھا۔
’اس راہ پر کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے البتہ اس کے اختتام پر ایک منزلِ مقصود اور بھی ہے جہاں میرا کنبہ اور دوست میرے منتظر ہوں گے۔ اس مہم کے دوران میں خوشی اور غیظ و غضب، درد اور وقار کے لمحات، سکون اور خلوت کے لمحات کے ساتھ ساتھ وقوع پذیر ہونے والی تمام تر تکالیف کو بھی خوش آمدید کہتا رہا۔ یہ تمام کیفیات مجھے بہتر بنانے کے لیے قدرت کی طرف سے کسی آزمائش سے کم نہیں ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارا ماضی جو اپنی تمام تر سفاکیوں اور ہولناکیوں کے ساتھ ہمیشہ ہمارے مستقبل کی راہ میں حائل رہتا ہے اور ہمیں ان سب ناخوشگوار تجربات کو نظر انداز کرکے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔‘
گھلارڈی کا یہ ماننا ہے کہ ’کبھی کبھار ہمیں اپنی معمول کی زندگی کو اس کی مرضی کے برخلاف روکنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ انوکھا کرنے کے لیے کچھ وقت کے لیے خود سے دُور ہونا پڑتا ہے۔ کسی بھی نئے تجربے کی خاطر جو کچھ آپ کررہے ہیں اس کے لیے ہر فکر سے آزاد ہونا ہی پڑتا ہے۔ میں نے اپنی معمول کی زندگی کو اس وقت روکا جب میں سائیکلنگ کے علاوہ بہت کچھ کرسکتا تھا‘۔
گھلارڈی نے لمحہ بھر سوچنے کے بعد پھر بولنا شروع کیا، ’یہ سب اس لیے نہیں ہے کہ میں کنوارہ ہوں یا میرا کوئی کنبہ اور کوئی اولاد نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ میں صحت مند ہوں، اور واقعی میرے لیے بس اتنا ہی بہت ہے کیونکہ میرے لیے میری صحت ہی سب سے بڑی دولت ہے۔ جب تک یہ بحال ہے میں اس سے جتنا بھی ممکن ہوا استفادہ حاصل کرنا چاہوں گا‘۔
میں نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ میرے سوالات کا سلسلہ طویل ہوتا جا رہا ہے لیکن ایک آخری سوال یہ پوچھنا چاہوں گا کہ انسان کیسے اپنی ناکامیوں کو بروئے کار لا کر کامرانیوں کی معراج تک پہنچ سکتا ہے؟ آخر ہم جیسے ناکام لوگ کب تک اپنی محرومیوں کا بوجھ اٹھائے یوں ہی بھٹکتے رہیں گے؟
اس بار گھلارڈی نے مجھے بغور دیکھتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا کہ ’ناکامی آپ کی متعین کردہ منزل کی جانب اٹھایا گیا وہ قدم ہے جو آپ کو دوبارہ لڑکھڑانے نہیں دے گا، کم از کم اسی راہ پر اسی مقام پر دوبارہ کبھی نہیں۔ ہر ناکامی ایک نئی اور بہتر شروعات کا آغاز ہوتی ہے۔ انہی ناکامیوں کی مرہون منت آپ کو منزل ملے نا ملے لیکن زندگی کے کٹھن امتحانات سے گزرنے کے لیے ہمت اور یکسوئی ضرور مل جائے گی۔ ہر کامیاب شخص کے پیچھے ناکامیوں کا ایک وسیع سمندر ضرور ہوتا ہے جو آپ کو ہمہ وقت متحرک رکھتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ کامیابی خود ملاح بن کر آپ کو ناکامیوں کے اس بحر بے کراں سے نکال دیتی ہے‘۔
اس کے بعد گھلارڈی وقتِ مقررہ پر اپنی یادیں چھوڑے نئی منزلوں کے سفر پر جاتے جاتے میرے لیے زندگی کے کئی قابلِ غور پہلوؤں کو اجاگر کرگئے جن سے میری فکر کو نئی جہتوں سے متعارف ہونے کا موقع ملا۔
عقائد یا نظریات سے اختلاف ہونا اپنی جگہ لیکن تھیاگو جیسے لوگوں سے بھی بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے حالانکہ یہاں مجھ ایسے بے عمل لوگوں کو سیکھنے سے زیادہ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
انسان ہونے کے ناطے یہ دنیا ہمارے لیے جتنی دارالعلم ہے اس سے کہیں زیادہ دارالعمل بھی ہے۔ اچھی عادتیں چاہے شجر و ہجر سے ہی کیوں نہ سیکھنے کو ملیں اس پر عمل پیرا ہوکر اپنی زندگی کو درست سمت پر گامزن کرنا ہی ہماری بقا کا ضامن ہے۔