وادی شندور کی خوبصورت جھیلوں کا سفر
یہ 3 گھنٹے کی مسلسل عمودی چڑھائی تھی جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ تھکاوٹ سے میرا بُرا حال ہو رہا تھا اور شیر بہادر مسلسل میری ہمت بڑھانے کے ساتھ ساتھ میرا مذاق بھی اڑاتا جاتا۔ 7 کوہ نوردوں کی تجربہ کار ٹیم میں اس وقت میں سب سے پیچھے رہ گیا تھا۔ عرفان اور شیر بہادر رُک رُک کر میرا ساتھ دینے پر مجبور تھے۔
کورونا وائرس سے شفایاب ہونے کے بعد یہ میرا پہلا طویل ٹریک تھا۔ ٹریک کے دوران تھکاوٹ کی وجہ سے مجھے بار بار یہ خیال آرہا تھا کہ شاید کورونا کے اثرات نے میرے جسم کو بُری طرح متاثر کردیا ہے۔
شفایابی کو 3 ماہ گزرنے کے باوجود بھی مجھے کمزوری اور چلنے میں دقت محسوس ہورہی تھی۔ پورا راستہ پتھریلا اور عمودی چڑھائی پر مشتمل تھا۔
جھیلوں کی ایک گمنام مگر خوبصورت وادی میں داخل ہونے کے لیے ہمیں تھکن سے چُور جسم کے ساتھ مزید 2 سے ڈھائی گھنٹے کا سفر طے کرنا تھا۔ راستے میں شدید بارش نے بھی اپنے رنگ دکھائے، بہرحال اللہ اللہ کرکے تھکے قدموں کے ساتھ ہم سطح سمندر سے 8 ہزار 800 فٹ کی بلندی پر واقع چاچو بانال (بانڈہ) پہنچ گئے تھے۔
پتھروں اور لکڑی سے بنی ایک خوبصورت مسجد میں مقامی باشندے کی طرف سے پیش کی جانے والی چائے نوش کرنے کے بعد میں نے ٹیم کے دوستوں کو شندور بانڈہ اور شندور جھیل کی طرف بڑھنے کے بجائے اس خوبصورت چراگاہ 'چاچو بانال' میں رات کے قیام کی درخواست کی کیونکہ میں اب مزید چلنے سے قاصر تھا۔
رواں سال 3 اگست بروز منگل کو دیر اپر کے علاقے بیبیوڑ سے تعلق رکھنے والے سیاح دوست سید عاقب شاہ اور چھوٹے بھائی عرفان کے ساتھ علی الصبح کمراٹ کے ایک خوبصورت ہوٹل برج الکمراٹ میں اپنا سامان باندھ کر شازور جھیل کے ٹریک پر ساتھ دینے والے مقامی ڈرائیور شیر بہادر کا انتظار کرنے لگا۔ میں نے شیر بہادر کو رات کو ہی فون پر وادئ شندور جانے کا کہا تھا۔ اس نے وہاں پہنچتے ہی کہا، 'صاحب اس دفعہ نئی گاڑی لایا ہوں۔ انشاءاللہ یہ چترال کی سڑکوں پر دوڑتی ہوئی شندور ٹاپ تک پہنچا دے گی'۔
میں نے شیر بہادر کو بتایا کہ ہمیں چترال کے شندور ٹاپ نہیں پہنچنا بلکہ دیر کوہستان کی ایک گمنام وادی شندور جانا ہے، جس کے لیے پہلے ہمیں 'بیاڑ' کے خوبصورت قصبے کی طرف بڑھنا ہوگا۔
شیر بہادر حیران و پریشان نظروں سے مجھے دیکھنے لگا کہ، 'صاحب ہم کوہستان میں 40 سال گزار چکے ہیں، اور یہاں کے چپے چپے سے واقف ہیں لیکن اب تک میں نے کوہستان میں شندور کی وادی کے بارے میں نہیں سنا۔ صاحب کہاں سے ڈھونڈ لاتے ہو ایسی وادیاں'۔
شیر بہادر مجھے اس وادی کے بارے میں دیر اپر سے تعلق رکھنے والے مقامی کوہ نورد ارشد غفور اور ملتان سے تعلق رکھنے والے میرے قریبی دوست اور مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ کوہ نوردی کرنے والے محمد بقہ شیخ سے پتا چلا ہے۔ میں نے شیر بہادر کو مختصر تفصیل بتاتے ہوئے سفر شروع کرنے کا کہا۔
شیر بہادر نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے پوچھا، 'صاحب کتنا بڑا سفر ہے اس خوبصورت وادی کا اور کیا اس میں شازور کی طرح خوبصورت جھیلیں بھی ہیں'۔
جی بالکل، وہاں 3 خوبصورت جھیلیں ہیں اور تقریباً 6 سے 7 گھنٹے کا ٹریک ہوگا۔
شیر بہادر میرا جواب سُن کر قدرے سہم گیا اور کہنے لگا، 'صاحب میں آپ کو بیاڑ چھوڑ کر واپس آجاؤں گا۔ مجھ سے نہیں ہوگا اتنا لمبا ٹریک'۔ میں نے کہا نہیں شیر بہادر تم شازور جھیل والا مشکل ٹریک کرچکے ہو۔ یہ سفر تمہارے لیے آسان ثابت ہوگا۔ شیر بہادر میرا جواب سُن کر کچھ کہے بغیر کوہستانی موسیقی سے گونجتی گاڑی کچی سڑک پر بے رحمی سے دوڑانے لگا۔
تقریباً ایک گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد ہم دیر اپر سے 125 کلومیٹر اور تھل کمراٹ سے صرف 20 کلومیٹر دُور 'بیاڑ' کے چھوٹے بازار پہنچے۔ قریب ہی واقع مقامی دوست نعیم کے گھر پر ناشتہ کیا اور نعیم کے کزن عمران کو بطور مقامی گائیڈ اپنے ساتھ لے کر دریا پنجکوڑہ کے اُس پار پہاڑ کی چوٹی پر 'ڈیٹکن' نامی گاؤں کی طرف گامزن ہوئے۔ ڈیکٹن گاؤں تک ایک پختہ سڑک موجود تھی اس لیے ہمیں وہاں پہنچنے میں صرف آدھا گھنٹہ ہی لگا۔
ڈیٹکن گاؤں میں ہم وزیر خان نامی مقامی شخص سے ملے، جسے ہم نے 3 ہزار روپے کے عوض سامان ڈھونے کے لیے مطلوب خچر اور ہمارے ساتھ چلنے کے لیے راضی کرلیا، جس کے بعد ہم وادئ شندور کی خوبصورتی سمیٹنے تقریباً ساڑھے 12 بجے مالہ خوڑ کے کنارے دوجنگا اور لنڈے درہ کی ٹریک کی طرف روانہ ہوگئے۔
یہاں تک ٹریک دیار کے گھنے جنگلات کے درمیان سے گزرتا ہے۔ لنڈہ درہ کے ٹریک کو پیچھے چھوڑ کر ہم کاچل بانڈہ، بانلوٹ بانڈہ اور مولیٹ بانڈہ کی مشہور آبشار کا نظارہ کرتے ہوئے چند گھروں پر مشتمل خوبصورت چراہ گاہ 'چاچو بانڈہ' پہنچ گئے۔
چلیے اب وہیں سے بات جاری رکھتے ہیں جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ چاچو بانال میں رات کے قیام کی درخواست ٹیم کے تمام دوستوں نے مسترد کرتے ہوئے مجھے تھوڑی اور ہمت کرکے شام سے پہلے شندور بانڈہ پہنچنے کے لیے کہا۔ مقامی گائیڈ عمران اور وزیر نے مجھے مزید حوصلہ دینے کے لیے کہا کہ، 'عظمت بھائی اب مزید آدھے گھنٹے کا ہی ٹریک ہے اور شندور بانڈہ تک سارا سفر ندی کے کنارے سرسبز میدانوں سے گزر کر طے کرنا ہے۔
مقامی دوستوں کو شاید اندازہ نہیں تھا لیکن میں جانتا تھا کہ پہاڑوں پر رہنے والے مقامی لوگوں کے آدھے گھنٹے کا سفر شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہم جیسے کوہ نوردوں کے لیے ایک سے 2 گھنٹوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
دوستوں کے فیصلے کو ٹالا بھی نہیں جاسکتا تھا اور میرے پاس چلنے کے علاوہ کوئی اور آپشن بھی نہیں تھا۔ مجھے ہر حال میں تاریکی چھانے سے پہلے دوستوں کے ہمراہ منزل پر پہنچنا تھا۔
چاچو بانڈہ سے ایک گلیشیئر کے ذریعے شندور جھیل سے آنے والی شفاف اور نیلگوں پانیوں کی ندی کو عبور کرکے میں ایک وسیع سرسبز میدان میں داخل ہوچکا تھا۔ شیر بہادر میرے ساتھ چلنے اور میرا حوصلہ بڑھانے کے ساتھ یہ بات بھی دُہراتا جاتا کہ اس دفعہ اپنے سفرنامے میں میرے بارے میں مثبت رائے لکھنا کیونکہ میں اس دفعہ سب کو پیچھے چھوڑ چکا ہوں۔
شیر بہادر کی بات درست بھی تھی۔ شازور جھیل کے سفرنامے میں شیر بہادر کی جیسی حالت میں نے بیان کی تھی اس روز اس کی حالت ویسی نہیں تھی۔ وہ ایک اچھے ٹریکر کی طرح سفر سے لطف اندوز ہو رہا تھا جبکہ میری حالت آج قابلِ رحم بنی ہوئی تھی۔
سبزہ زاروں کے سلسلے میں 2 بار پتھریلی لیکن قدرے کم بلندیوں کو بمشکل عبور کرنے کے بعد میرے سامنے ایک چھوٹی مگر خوبصورت جھیل کا نظارہ تھا۔ وزیر خان کے مطابق یہ وادی شندور کی پہلی جھیل ہے۔
سطح سمندر سے 9 ہزار 200 فٹ بلندی پر واقع اس جھیل کو مقامی زبان میں 'لرجھیل' پکارا جاتا ہے۔ وزیر کے مطابق یہ جھیل وادئ شندور کا نکتہ آغاز ہے اور سامنے پتھریلی چڑھائی کے بعد شندور کی دوسری جھیل 'بانڈہ جھیل' کے کنارے شندور بانڈہ کی آبادی ہے جہاں ہمیں رات گزارنی ہے۔
میں کچھوے کی رفتار سے اپنے سفر کو کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وادی پر شام اترنے کو تھی اور سورج پیچھے دیر کی بلند پہاڑی سلسلے پر آخری کرنیں بکھیرنے لگا تھا۔
میرے لیے آخری چڑھائی کی آزمائش ابھی باقی تھی۔ تاریکی نے پوری وادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا. اس آزمائشی چڑھائی کو کامیابی سے عبور کرنے کے بعد ایک بلند ٹیلے پر چند گھر نظر آنے لگے جہاں پہلے سے پہنچے ہوئے ساتھی ٹارچ کے ذریعے ہمیں رہنمائی فراہم کرنے لگے۔
کچھ دیر بعد ہم شندور بانڈہ کی تقریباً 20 کچے گھروں پر مشتمل آبادی کے آغاز پر موجود ایک مہمان خانے آ پہنچے تھے جہاں وزیر خان کے مقامی رشتہ دار ہماری آؤ بھگت کر رہے تھے۔ یہ 10 فٹ کا ایک چھوٹا مگر خوبصورت کمرہ تھا۔
مہمان خانے میں 2 عدد بستر پہلے سے موجود تھے، وزیر خان کے مطابق مقامیوں کی جانب سے اس بیٹھک اور یہاں کی مسجد میں باہر سے آنے والے مہمانوں اور سیاحوں کو تمام سہولیات مفت میں فراہم کی جاتی ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پوری آبادی میں مسجد اور اس بیٹھک کو ہی سولر پلیٹ کے ذریعے بجلی کی سہولت سے آراستہ کیا گیا ہے۔
چونکہ مجھ سمیت تمام ساتھی تھکن سے چُور تھے اس لیے کھانا کھانے کے بعد سب بستر میں گُھس گئے اور جلد ہی سو گئے۔
جب صبح ساڑھے 4 بجے آنکھ کھلی تو کمرے میں صرف وزیر خان جاگتے پائے گئے۔ وزیر خان سے ٹارچ لے کر میں کمرے سے باہر نکل گیا۔ رات کی بھرپور نیند اور کمرے سے باہر بلند برفیلے پہاڑوں کے درمیان شندور بانڈہ اور بانڈہ جھیل کے مسحور کن مناظر نے میری تھکاوٹ ختم کردی تھی۔ جھیل کے پانی سے وضو کرنے کے بعد نماز کی ادائیگی سے فارغ ہوا ہی تھا کہ اتنے میں مقامی لوگ ہمارے لیے ناشتہ لے کر آگئے۔
وزیر خان اور عمران کے مطابق بانڈہ سے وادئ شندور تک سب سے بڑی جھیل قرار دی جانے والی شندور جھیل یہاں سے دائیں جانب بلندی پر 45 منٹ کی مسافت پر واقع ہے جبکہ آبادی کے بالکل پیچھے والی چوٹی کو پار کرکے 'شٹاک' نامی ایک اور جھیل تک پہنچا جاسکتا ہے جس کا ٹریک کافی دشوار گزار ہے البتہ چوٹی کے ٹاپ سے شٹاک جھیل کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ ناشتے کے فوراً بعد ہم فیروزہ مائل پانیوں والی بانڈہ جھیل کے کنارے چلتے چلتے آہستہ آہستہ بلندی کی طرف سفر کرنے لگے۔
بلندی سے نظر آنے والے حسین سبزہ زاروں، آبشاروں اور برف پوش فلک بوس چوٹیوں کے دامن میں واقع وادئ شندور کی دلکشی اپنی مثال آپ تھی۔ 9 ہزار 400 فٹ کی بلندی پر واقع شندور وادی گجر اور کوہستانی قبیلے کے مویشیوں کے لیے گرمائی چراگاہ ہے۔ بیاڑ، ڈیٹکن، شال بن اور اٹنکون سے مئی اور جون میں 20 سے 30 گھرانے اپنے سیکڑوں مویشیوں کے ہمراہ ان سرسبز میدانوں کو اپنا مسکن بنالیتے ہیں جبکہ سردیوں کے آغاز پر ہی دوبارہ زیریں علاقوں کی طرف نقل مکانی شروع کردیتے ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق وادئ شندور میں برفیلی چوٹیوں کے دامن میں کئی چھوٹی بڑی گمنام جھیلیں موجود ہیں جو ابھی تک سیاحوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں اور ان میں فطرت کے خالص رنگ پنہاں ہے۔
شندور بانڈہ سے تقریباً ایک گھنٹے کی عمودی چڑھائی چڑھنے کے بعد شٹاک کی مشہور جھیل نظر آتی ہے۔ وادئ شٹاک میں اترنے کے لیے مزید 2 گھنٹوں کا وقت لگ سکتا ہے۔ شندور سے آگے وادی شٹر کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے جہاں سے ایک راستہ وادئ جندری کے مشہور سیاحتی مقام جاز بانڈہ جبکہ دوسرا راستہ سوات کوہستان کے علاقے بحرین کی طرف نکلتا ہے۔ اس راستے میں بھی کئی گمنام لیکن خوبصورت جھیلیں ہیں۔
شندور کی بانڈہ جھیل سے صاف پانی کی ندی کے کنارے تک تقریباً ایک گھنٹے کی چڑھائی چڑھنے کے بعد ہمارے سامنے نیلگوں پانی کی ایک خوبصورت جھیل تھی۔
بلند برف پوش پہاڑوں میں گھری تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر لمبی اس جھیل کے نظارے نے ہم پر سحر طاری کردیا تھا۔ یہ دِکھنے میں تو کٹورہ جھیل جیسی تھی لیکن اس سے قدرے لمبی اور چوڑی تھی۔ سطح سمندر سے 9 ہزار 720 فٹ کی بلندی پر واقع اس جھیل کو دیر کوہستان کی سب سے بڑی جھیل کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔
جھیل کنارے خشک میوہ جات اور مقامی آبادی سے لائی گئی لسی کا مزہ لینے کے بعد شٹاک جھیل دیکھنے کے لیے سامنے چوٹی کی طرف جانے کا پروگرام بنایا گیا لیکن سید عاقب شاہ اور میرے علاوہ کوئی بھی اس چڑھائی کو چڑھنے کے لیے تیار نہ ہوسکا۔
لہٰذا ہم نے ٹیم کے ساتھیوں کو شندور بانڈہ میں انتظار کرنے کے لیے کہا اور آگے کی طرف بڑھ گئے۔ 45 منٹ کی چڑھائی کا آغاز بڑا شاندار رہا۔ بلندی سے شندور جھیل اور بانڈہ جھیل کا نظارہ بھی شاندار اور مسحور کن تھا۔
تاہم ایک گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد جب ہم چوٹی کے بالکل قریب پہنچے تو اندازہ ہوا کہ یہ راستہ تو ناقابلِ رسائی ہے۔ یہ اس ٹریک کا مشکل ترین مرحلہ تھا لیکن عاقب کی مسلسل حوصلہ افزائی کی بدولت ہم اس مشکل مرحلے کو بھی عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ہم سطح سمندر سے 10 ہزار 200 فٹ بلندی پر واقع شٹاک چوٹی پر پہنچ چکے تھے۔
چوٹی پر پہنچتے ہی ہماری نظر نیچے ایک چھوٹی مگر دلکش شٹاک جھیل پر پڑی۔ بلندی سے اس جھیل کا نظارہ قابلِ دید ہے۔ سطح سمندر سے 8 ہزار 400 فٹ کی بلندی پر واقع شٹاک جھیل وادئ شٹاک کا نکتہ آغاز بھی ہے۔
اس جھیل کے کنارے بھی چند گھروں پر مشتمل شٹاک بانڈہ کی آبادی موجود ہے۔ یہاں بھی سیاحوں کے قیام و طعام کا بندوبست مقامی آبادی کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ ڈیٹکن گاؤں سے شٹاک جھیل تک دوسرے قدرے آسان ٹریک کے ذریعے بھی پہنچا جاسکتا ہے جس کے ذریعے مقامی لوگ اپنا مال مویشی شٹاک بانڈہ تک لے کر آتے ہیں جبکہ شٹاک کی چوٹی سے 3 سے 4 گھنٹوں میں سیاح مشکل ترین اُترائی والے ٹریک سے نیچے جھیل کے پانی تک پہنچ سکتے ہے۔
شٹاک کی بلند چوٹی پر کچھ دیر سانسیں بحال کرنے اور جھیل کے نظاروں سے محظوظ ہونے کے بعد ہم نے شندور بانڈہ کی طرف اترائی شروع کی اور تقریباً آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد ہم بانڈہ جھیل کے کنارے پر موجود مسجد میں اپنے ساتھیوں سے آ ملے۔ وزیر خان کے رشتہ داروں نے دوپہر کے کھانے میں ساگ، لسی، مکئی کی روٹی اور دیسی گھی سے ہماری تواضح کی۔
کھانے کے بعد سرسبز میدانوں، ہزارہا رنگ کے پھولوں، شفاف پانی کی ندیوں اور گھنے دیودار کے جنگلات کو خود میں سمونے والی اس خوبصورت وادی کو خدا حافظ کہنے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔
سیاحوں کے لیے ضروری ہدایات:
- یہ 6 سے 7 گھنٹوں پر مشتمل طویل ٹریک ہے اس لیے پہلے سے ذہنی و جسمانی طور پر خود کو ایک کٹھن سفر کے لیے تیار رکھیں۔
- بیاڑ کے بازار سے ہی اشیائے خور و نوش خرید لیں اور ٹریک کے لیے ضروری سامان بھی یہیں سے مکمل کرکے سفر شروع کریں۔
- دیر اپر سے وادئ شندور تک کے اس سفر کا دورانیہ کم از کم 3 دن مقرر کریں تاکہ سفر کے دوران آرام کے لیے اور وادی کے نظاروں کو دیکھنے کے لیے وقت کم نہ پڑے۔
- شندور بانڈہ میں مقامی لوگوں کی طرف سے رہائش کی سہولت فراہم کی جاتی ہے لیکن احتیاطی طور پر کیمپنگ اور ٹریکنگ کا ضروری سامان ساتھ لے کر جائیں۔
- ٹریک شروع کرنے سے پہلے ڈیٹکن کے گاؤں سے ہی خچر کرائے پر حاصل کریں تاکہ آگے کسی بھی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
- مقامی گائیڈ کے بغیر یہ سفر مشکل اور تقریباً ناممکن ہے اس لیے سفر شروع کرنے سے پہلے مقامی گائیڈ کا بندوست ضرور کریں۔
- وادی اور جھیلوں کے اردگرد کوڑا کرکٹ پھیلانے سے گریز کریں۔
- وادی شندور میں موبائل نیٹ ورک کام نہیں کرتا اس لیے اپنے دوست احباب کو پہلے سے اپنے سفر کے بارے میں بتادیں تاکہ بعدازاں انہیں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
عظمت اکبر سماجی کارکن ہیں۔ آپ کوسیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔