افغانستان میں طالبان کو درپیش 5 چیلنجز
طالبان نے 20 برس تک جاری رہنے والی طویل ترین جنگ جیت لی ہے اور اب انہیں افغانستان پر حکمرانی کرنی ہے۔
اقتدار کی منتقلی طالبان کے لیے ایک انتہائی غریب اور سفارتی طور پر تنہا ملک میں ایک بہت بڑا امتحان ہے جہاں 4 دہائیوں سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی جنگ کے باعث سیاسی اور سماجی مسائل میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کو مندرجہ ذیل 5 چیلنجز کا سامنا ہے۔
اعتماد کا فقدان
افغان شہریوں کو وسیع پیمانے پر طالبان کے بارے میں شکوک شبہات لاحق ہیں جن کی وجہ بھی ہے۔
1996 سے 2001 تک جب آخری مرتبہ جب طالبان اقتدار میں تھے، انہوں نے سخت قوانین نافذ کیے تھے۔
انہوں نے خواتین کے تعلیم حاصل کرنے اور عوامی مقامات کا رخ کرنے پر پابندی عائد کی تھی، سیاسی مخالفین کو بے دردی سے قتل کیا تھا اور ہزارہ جیسی مذہبی اور نسلی اقلیتوں کا قتل عام کیا تھا۔
طالبان نے اس مرتبہ خواتین کے حقوق سمیت ایک نرم نظام کے نفاذ کا وعدہ کیا ہے۔
انہوں نے ایک جامع حکومت کا وعدہ بھی کیا ہے اور امریکی حمایت یافتہ سابق صدر حامد کرزئی سمیت افغان سیاست میں متعدد متحرک افراد کے ساتھ مذاکرات بھی کیے گئے ہیں۔
یہاں تک کہ انہوں نے اہل تشیع ہزارہ اقلیت کی طرف بھی اپنے نمائندے بھیجے ہیں، جنہیں 1990 کی دہائی میں طالبان کے ہاتھوں وحشیانہ تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اگرچہ دیہی افغانستان کے کچھ حصے پرسکون ہیں جہاں لوگ تشدد کا خاتمہ چاہتے تھے جبکہ بہت سے افغان شہری کہتے ہیں کہ الفاظ نہیں، اعمال اہم ہیں۔
خواتین، خاص طور پر جو شہروں میں مقیم ہیں، باہر نکلنے سے خوفزدہ رہتی ہیں اور وادی پنج شیر میں طالبان کے خلاف مسلح مزاحمت بھی موجود ہے۔
معاشی، انسانیت سوز تباہی
افغانستان کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے، 2001 میں طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ملک میں بڑی تعداد میں غیر ملکی امداد میں آئی تھی۔
سال 2020 میں افغانستان میں بین الاقوامی امداد جی ڈی پی کے 40 فیصد سے زیادہ تھی تاہم اس میں سے بیشتر امداد اب معطل ہوگئی جبکہ دیگر کے بارے میں کوئی ضمانت نہیں ہے۔
طالبان کو امریکا میں موجود افغان مرکزی بینک کے فنڈز تک رسائی بھی حاصل نہیں ہے۔
یہ بحران تباہی کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ طالبان کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ سرکاری ملازمین کو کیسے تنخواہ دی جائے اور پانی، بجلی اور مواصلات جیسے اہم انفرا اسٹرکچرز کو جاری رکھا جائے۔
ساتھ ہی اقوام متحدہ نے ایک انسانی تباہی سے بھی خبردار کیا کہ تنازع کی وجہ سے رکاوٹوں اور شدید خشک سالی کی وجہ سے خوراک کا ذخیرہ کم ہوگیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مبصرین کے تخمینوں کے مطابق باغیوں کی حیثیت سے طالبان کی آمدن بہت زیادہ تھی، جو کروڑوں ڈالر تھی لیکن ماہرین نے کہا کہ یہ افغانستان کی قومی ضروریات کے مقابلے میں ایک معمولی رقم ہے۔
طالبان نے افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد آمدن کے کچھ ذرائع حاصل کیے ہیں، جیسا کہ سرحدی گزرگاہوں سے حاصل ہونے والے کسٹم ریونیوز لیکن یہ بھی قومی ضروریات کا ایک حصہ ہے۔
ہنر مند افغانوں کی کمی کا سامنا
مالی وسائل کی کمی کے علاوہ، طالبان کو ایک ہنرمند افغانوں کی، ایک اور اہم کمی (برین ڈرین) کا سامنا ہے۔
جیسے ہی امریکی افواج کا انخلا شروع ہوا اور امریکی حمایت یافتہ حکومت نے اپنا کنٹرول کھونا شروع کیا تو مہارت، تجربے اور وسائل کے حامل افغان شہریوں نے بھی بیرونِ ملک کا رخ کیا۔
افغانستان سے جانے والے ان شہریوں میں بیوروکریٹس، بینکرز، ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفیسرز اور یونیورسٹی گریجویٹس شامل تھے، یہ سب طالبان کے اقتدار کے دوران اپنی زندگی سے خوفزدہ تھے۔
طالبان اس 'برین ڈرین' کے افغان معیشت پر پڑنے والے اثرات سے واقف ہیں، ان کے ترجمان نے ہنر مند افغان شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ ملک سے باہر نہ جائیں، ملک کو ڈاکٹروں اور انجینئروں جیسے 'ماہرین' کی ضرورت ہے۔
سفارتی طور پر تنہا ہونا
طالبان کی پہلی حکومت بڑی حد تک عالمی سطح پر الگ تھلگ تھی تاہم اس مرتبہ، وہ وسیع پیمانے پر بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے کے خواہشمند دکھائی دیتے ہیں جبکہ بیشتر ممالک نے کابل میں اپنے سفارتی مشن معطل یا بند کر دیے ہیں۔
اس وقت طالبان رابطے، خطے کی طاقتوں جیسا کہ پاکستان، ایران، روس اور چین کے ساتھ ساتھ قطر سے ہے، جہاں گزشتہ کچھ برسوں سے طالبان کا سیاسی دفتر موجود ہے۔
تاہم ابھی تک کسی ملک نے انہیں تسلیم نہیں کیا اور امریکا نے کہا کہ طالبان کو خود کو تسلیم کرانے کے لیے کسی بھی قانونی جواز کو 'حاصل کرنا پڑے گا'۔
طالبان سے کس طرح نمٹنا ہے اس حوالے سے رائے منقسم ہونے کا واضح اشارہ اس وقت ملا جب چین اور روس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں افغانیوں کو جانے دینے سے متعلق قرارداد سے باز رہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ طالبان سے متعلق نرم لہجہ ہونے کے بعد ماسکو اور بیجنگ نے ویٹو استعمال نہیں کیا۔
داعش کی دہشت گردی کا خدشہ
طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا ہوگا لیکن اس سے ملک میں دہشت گرد حملوں کا خطرہ ختم نہیں ہوا۔
ان کا حریف، شدت پسند گروہ دولت اسلامیہ (داعش) پہلے ہی کابل میں ایک خودکش حملہ کرچکا ہے، جس میں انخلا کے آپریشن کے دوران ایئرپورٹ پر موجود 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
طالبان اور داعش دونوں سخت گیر انتہا پسند ہیں لیکن داعش کے قوانین زیادہ سفاک ہیں۔
داعش نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ افغانستان میں لڑائی جاری رکھیں گے اور اس کے بیانات میں طالبان کو مرتد قرار دیا گیا ہے۔
طالبان کو اب کردار کی بہت زیادہ تبدیلی کا سامنا ہے، انہیں افغان عوام کو اس قسم کے حملوں سے بچانا ہے جیسے ان کے اپنے جنگجو برسوں سے کرتے رہے ہیں۔
ہیڈر فوٹو: اے ایف پی