تابش گوہر کا مکتوب اور بجلی کے شعبے کی حالتِ زار
ہم نے اپنے گزشتہ بلاگ میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی 3 سالہ معاشی کارکردگی کا مفصل جائزہ پیش کیا تھا۔ اسی تحریر میں وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی اور کے الیکٹرک کے سابق چیف ایگزیکیٹو اور بورڈ کے چیئرمین تابش گوہر کے وزیرِ توانائی حماد اظہر کو لکھے گئے مکتوب کا تذکرہ بھی شامل تھا۔
مکتوب بہ عنوان: Beyond The Fire Fighting- Proposed Strategic Workstreams in the Energy Sector میں ملکی توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے حوالے سے تجاویز پیش کی گئی ہیں۔
4 صفحات پر مشتمل اس مکتوب میں تابش گوہر نے ملک کے شعبہ توانائی میں موجود مشکلات اور اصلاحات کا سرسری ذکر کیا ہے۔ مگر ہم یہاں تابش گوہر کی جانب سے بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام کے بارے میں دی گئی سفارشات کو پیش کرتے ہوئے بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے اور یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی کیسی ہے اور کیا ان تجاویز پر اس وقت عمل ممکن ہے؟
تابش گوہر برملا اور بغیر کسی لگی لپٹی کے اپنی بات کہنے کے عادی ہیں۔ اس کا تجربہ مجھے اس وقت ہوا جب وہ کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکیٹو تھے اور شہر میں لوڈشیڈنگ عروج پر تھی۔ میں نے تابش گوہر سے سوال کیا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کیوں ہے؟ تو انہوں نے برملا جواب دیا کہ کے الیکٹرک کے پاس ایندھن کی خریداری کے لیے پیسے نہیں ہیں جس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔
تابش گوہر کا یہی انداز ان کے وزیرِاعظم کے معاون خصوصی بن جانے کے بعد بھی نظر آتا ہے۔ بطورِ معاون خصوصی وہ صرف مشورے دے سکتے ہیں یا پالیسی دستاویزات تیار کرسکتے ہیں، ان کے پاس اس وقت کسی بھی فیصلے پر عملدرآمد کروانے کے اختیارات نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی خفگی اور جھنجھلاہٹ ان کے مکتوب سے بھی عیاں ہو رہی ہے۔ اس سال جنوری میں تابش گوہر وزارتِ توانائی پر مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے معاونِ خصوصی کے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے اور انہوں نے اپنا استعفیٰ وزیرِاعظم عمران خان کو واٹس ایپ پر ارسال کردیا تھا۔ مگر تابش گوہر کا یہ استعفی نامنظور ہوگیا بلکہ وہ ندیم بابر کی جگہ توانائی کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم کے مشیر بھی بنا دیے گئے۔
انہوں نے کے الیکٹرک کی ادائیگیوں کے معاملے پر قائم کمیٹی، جس میں انہیں مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے ممبر نہیں بنایا گیا تھا، کو بھی ایک مکتوب لکھا جس میں انہوں نے ٹرم آف ریفرنس میں کے الیکٹرک کے چند مطالبات کو شامل نہ کرنے کا کہا تھا۔ اس مکتوب کے بعد یہ معاملہ بھی اٹک کر رہ گیا۔ تابش گوہر کے اس مکتوب پر کے الیکٹرک کے سرمایہ کاروں کی جانب سے وزیرِاعظم کو جوابی مکتوب بھی لکھا گیا جس میں انہوں نے تابش گوہر کی شکایت کی تھی اور اب وہ ایک مربتہ پھر مکتوب لکھ کر پاکستان کے توانائی کے شعبے میں اصلاحات پر زور دے رہے ہیں۔
تابش گوہر کے زیرِ نظر مکتوب کا عنوان ہی بتا رہا ہے کہ توانائی خصوصاً بجلی کے شعبے کے حوالے سے حکومت روزمرہ کے مسائل میں اس قدر گھری ہوئی ہے کہ اس کی توجہ اصلاحات کی جانب ہے ہی نہیں۔ تابش گوہر اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں کہ بجلی اور گیس کے حالیہ بحران نے توانائی کے شعبے میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت کو مزید اجاگر کردیا ہے۔ یہاں پر توانائی کے شعبے میں اصلاحات تجویز کی جارہی ہیں جو آئندہ 2 سال میں مکمل ہوسکتی ہیں۔
تابش گوہر اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں کہ ڈیسکوز کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کے لیے جو ٹرم آف ریفرنس کچھ عرصے قبل تیار کیے گئے تھے، اس پر دسمبر 2022ء تک نجکاری کمیشن اور پاور ڈویژن عمل درآمد کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ 18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کی روشنی میں وفاقی حکومت ڈیسکوز سے متعلق صوبوں سے معاملات طے کرے اور مساوی مالیات اور رسک شیئنرنگ کی بنیاد پر صوبہ سندھ کے ڈیسکوز سکھر اور حیدرآباد اور خیبر پختونخوا میں پشاور ڈیسکوز سے معاہدے کیے جائیں۔ یعنی تابش گوہر چاہتے ہیں کہ بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام میں جہاں بہت زیادہ نقصانات ہیں، اس میں صوبائی حکومتوں کو بھی شراکت دار ہونا چاہیے۔
تابش گوہر بجلی کی ڈسٹری بیوشن یا ترسیلی نظام میں حکومتی سرمایہ کاری کی ماہانہ بنیادوں پر نگرانی چاہتے ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے موجودہ مالی سال میں بجلی کے ترسیلی نظام میں نقصانات کو کم کرنے اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے 118 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
تابش گوہر کے مکتوب کے مزید مندرجات پر بات کرنے سے قبل ڈیسکوز یا بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی صورتحال کا جائزہ لے لیا جائے تو بہتر ہوگا۔
اگر ڈیسکوز کے مالیاتی نتائج کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ تمام ہی ڈیسکوز خسارے کا شکار رہی ہیں۔ اس حوالے سے نیشنل پاور الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے اسٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ سے جو تفصیلات حاصل ہوئی ہیں، اس کے مطابق سکھر پاور ڈسٹری بیوشن کمپنی کے 5 سالہ آڈٹ شدہ حسابات نہ تو کمپنی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں اور نہ ہی ریگولیٹر یا ایس ای سی پی کے پاس دستیاب ہیں لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ سکھر پاور کمپنی کس قدر خسارے میں ہے۔
لاہور اور کوئٹہ پاور کمپنی کے صرف 2 سال کے مالیاتی نتائج دستیاب ہیں۔ 2 سال میں لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کو 56 ارب 94 کروڑ روپے اور کوئٹہ کو 45 ارب 15 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ صرف فیصل آباد، اسلام آباد اور ملتان کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے حسابات کے آڈٹ دستیاب ہیں۔ دستیاب آڈٹ کی بنیاد پر گزشتہ 5 سال کے دوران فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کو 66 ارب 73 کروڑ روپے، اسلام آباد کمپنی کو 69 ارب 16 کروڑ روپے اور ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی کو 78 ارب 91 کروڑ روپے کا خسارہ ہوا ہے۔ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے 4 سال کے دستیاب آڈٹ کے مطابق اس کمپنی کو 143 ارب 54 کروڑ روپے، حیدآباد پاور سپلائی کمپنی کے 4 سالہ حسابات کے مطابق اس کمپنی کو 88 ارب 11 کروڑ کا خسارہ ہوا ہے جبکہ حیران کن طور پر گجرانوالہ الیکٹرک پاور سپلائی کمپنی کے 4 سالہ حسابات میں 19 ارب 14 کروڑ روپے کا نفع ظاہر کیا گیا ہے۔
بجلی کی تقسیم کار کمپنی کو مالی نقصان ہونے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ وہ جتنی بجلی کے یونٹ فراہم کررہی ہے، اس کے مقابلے میں ٹیکنیکل وجوہات یا پھر چوری کی وجہ سے بلوں کی ریکوری مکمل نہیں ہو پارہی ہے۔ تقسیم کار کمپنیوں کو ہونے والے نقصان کے پیچھے سیاسی پہلوؤں کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کی تبدیلی بھی بجلی کی چوری اور نقصانات پر اثر انداز ہوتی ہے۔
پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کی مثال ہی لیجیے۔ پشاور میں 2011ء میں ٹی این ڈی نقصانات 37.96 فیصد تھے جو بتدریج کم ہوتے 2017ء میں 32.60 کی سطح پر آئے، مگر وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوتے ہی یہ نقصانات ایک مرتبہ پھر بڑھ کر 38.69 فیصد ہوگئے یعنی پشاور الیکٹرک کی کارکردگی 2011ء سے بھی نیچے چلی گئی۔
صرف اسلام آباد، گجرانوالہ اور فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنیوں کے ترسیلی نقصانات 10 فیصد سے کم کی سطح پر ہیں۔ باقی تمام ڈیسکوز کے ترسیلی نقصانات میں اگر بہتری ہوئی ہے تو ایک سے 2 یا 3 فیصد۔ مگر کے الیکٹرک کے ترسیلی نقصانات جو 2011ء میں 34.84 فیصد تھے اس میں بتدریج کمی دیکھی جارہی ہے جو 2020ء میں 19.73 فیصد کی سطح پر آگئے ہیں۔ گزشتہ 10 سالوں میں بجلی کے تقسیم کے نظام میں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی کیا کارکردگی رہی، یہ اس چارٹ سے ظاہر ہوجاتا ہے:
زیرِ التوا کنکشن کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ملک میں قائم بجلی کی 10 ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے پاس 2 لاکھ 77 ہزار کنکشن کی درخواستیں زیرِ التوا ہیں۔ سب سے زیادہ بجلی کنکشن کی درخواستیں لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے پاس زیر التوا ہیں۔ لاہور کے پاس نئے کنکشن کے لیے 92 ہزار سے زائد نئے کنکشن کی درخواستیں زیر التوا ہیں۔
پشاور الیکٹرک سپلائی کے پاس17 ہزار 667، اسلام اباد کے پاس 24 ہزار 623، گجرانوالہ کے پاس 50 ہزار 467، فیصل آباد کے پاس 23 ہزار 495 اور ملتان کے پاس 67 ہزار 65 نئے کنکشن کی درخواستیں زیر التوا ہیں۔ کوئٹہ پاور کا ڈیٹا دستیاب نہیں ہے جبکہ کے الیکٹرک نے موصول شدہ درخواستوں سے زائد 47 ہزار 635 کنکشن فراہم کیے۔ اس حوالے سے کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ انہوں نے صارفین کو سستے میٹر فراہم کرنے کے لیے جو مہم چلائی ہے اس کی وجہ سے درخواستوں سے زائد کنکشن فراہم کردیے گئے ہیں۔
ملک میں جو اضافی بجلی کا شور مچا ہوا ہے، اگر کنکشن کی زیرِالتوا درخواستوں کو منظور کرکے کنکشن فراہم کردیے جائیں تو اس سے بھی بجلی کی کھپت بہت زیادہ حد تک بڑھ سکتی ہے۔ مگر ڈیسکوز کی جانب سے عدم دلچسپی کا اظہار کیا جارہا ہے، جس سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ سرکاری شعبے کی ڈیسکوز کا ہدف شاید صارفین کو سہولت فراہم کرنا ہے ہی نہیں۔
سرکار کی ملکیت میں موجود بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں سے نیپرا بھی بہت زیادہ مطمئن نظر نہیں آتی ہے۔ عوامی سماعت کے مواقع پر نیپرا نے متعدد بار ان ڈیسکوز کی سرزنش بھی کی ہے۔ ان ڈیسکوز کو بجلی کے ترسیلی اور تقسیمی نقصانات میں کمی نہ لانے، لوڈشیڈنگ کا قابلِ اعتماد ڈیٹا فراہم نہ کرنے، اور ڈیٹا میں ہیر پھیر یا تبدیلی کرنے پر متعدد مرتبہ سرزنش کی گئی ہے۔ قابلِ اعتماد اور بھروسہ ڈیٹا دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے نیپرا نے ڈیسکوز کی کارکردگی کی درجہ بندی کا عمل روک دیا ہے تاوقتکہ ڈیسکوز درست ڈیٹا فراہم کریں۔
اب جب ڈیسکوز کا درست اور قابلِ اعتماد ڈیٹا دستیاب نہیں ہے ایسے میں کس طرح سے نجی شعبہ ان کمپنیوں کی ملکیت یا آپریشنل کنٹرول حاصل کرنے میں سرمایہ کاری کرے گا؟ تقسیم کار کمپنیوں کو نجی شعبے کی سرمایہ کاری سے قبل جس قسم کی اصلاحات اور ڈیٹا کی ضرورت ہے اس کو مرتب کیا جانا ضروری ہے۔
مگر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے جو بھی ڈیٹا فراہم کیا ہے اسے نیپرا نے 2 معیارات میں تقسیم کیا ہے:
- System Average Interruption Frequency Index (SAIFI)
- System Average Interruption Duration Index (SAIDI)
SAIFI میں یہ ڈیٹا جمع کیا جاتا ہے کہ ایک سال میں کس ڈیسکو میں بجلی کی فراہمی کتنی مرتبہ معطل ہوئی جبکہ SAIDI میں یہ معلومات درج کی جاتی ہے کہ بجلی کی فراہمی اوسطاً کتنے منٹ معطل رہی۔ اس طرح بجلی کی اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے علاوہ بجلی کی بندش کو ریکارڈ کیا جاتا ہے۔
اس ڈیٹا کے مطابق ملتان میں صورتحال سب سے زیادہ مخدوش ہے۔ 2020ء کے دوران ملتان میں اوسطاً فی صارف 375 مرتبہ بجلی کی بندش کا سامنا کرنا پڑا جس کا دورانیہ 31 ہزار 920 منٹ رہا۔ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی میں فی صارف 187مرتبہ بجلی کی بندش کا سامنا کرنا پڑا جس کا دورانیہ 14 ہزار 924 منٹ رہا۔ دونوں معیارات کے حوالے سے شہرِ اقتدار اسلام اباد کی بہتر کارکردگی رہی اور اوسطاً 0.06 بار بجلی معطل ہوئی اور فی صارف بجلی کی بندش کا دورانیہ 1.36 منٹ رہا ہے۔
تابش گوہر بجلی کی طلب اور رسد کے نظام میں بہتری کے حوالے سے مکتوب میں لکھتے ہیں کہ بجلی کی انتہائی طلب کے موقع پر بجلی کی فراہمی کے حوالے سے حالیہ درپیش مسائل نے نظام کی نزاکت اور نازک صورتحال کو آشکار کردیا ہے۔ جس سے ملک میں بجلی کی اضافی پیداواری صلاحیت کا پول بھی کھل گیا ہے۔ حکومتی ملکیت میں موجود پاور پلانٹس کی تیزی سے نجکاری کی جائے، جس میں آر ایل این جی پلانٹس گڈو اور نندی پور شامل ہیں۔ پاور اور پیٹرولیم کا پلاننگ سیل قائم کیا جائے تاکہ ایندھن کی طلب کے ڈیٹا کی بنیاد پر درست اندازہ لگایا جاسکے گا، کہ کس سیزن میں بجلی طلب کتنی ہوگی اور اس کو بنانے کے لیے کس قدر ایندھن اور کس قسم کا ایندھن درکار ہوگا۔
مگر شاید وہ بھول گئے کہ سابقہ حکومت کے لگائے گئے 2 آر ایل این جی پلانٹس کو حکومت گزشتہ ڈھائی سال سے فروخت کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ مگر تاحال کوئی خریدار نہیں مل سکا ہے۔ ہر ایک پاور پلانٹ کی قیمت ایک ارب ڈالر لگائی گئی ہے۔ اتنی بڑی سرمایہ کاری پاکستان کے کسی مقامی بزنس ہاؤس کے بس کی بات نہیں ہے جبکہ بیرونی سرمایہ کاروں کے معاملے میں خارجہ پالیسی کے بہت سے مسائل درپیش ہیں۔
تابش گوہر کا درآمدی کوئلے کے پاور پلانٹس کو مقامی تھر کے کوئلے پر منتقل کرنے کا آئیڈیا بہترین ثابت ہوسکتا ہے۔ مگر اس کے لیے موجودہ پاور پلانٹس کے ڈیزائن میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ ریلوے اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی بہتری اور توسیع درکار ہوگی۔
تابش گوہر نے یہ بھی تجویز پیش کی ہے کہ بجلی کے تھری فیز کنکشن رکھنے والے 3 لاکھ صارفین کو بجلی کم نرخ پر دی جائے تاکہ وہ سردیوں میں گرمائش کے حصول کے لیے گیس ہیٹر کے بجائے الیکٹرک ہیٹر کا استعمال کریں یوں بجلی کی طلب میں 300 میگا واٹ کا اضافہ ہوگا اور موجودہ غیر استعمال شدہ صلاحیت کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ اس 300 میگا واٹ اضافی بجلی کے لیے صرف 50 ایم ایم سی ایف ڈی قدرتی گیس کا استعمال بڑھے گا۔ تابش گوہر کا کہنا ہے کہ ملک میں بجلی کا استعمال بڑھانا ہوگا کیونکہ اس وقت 25 ہزار میگا واٹ بجلی کے منصوبے زیرِ تکمیل ہیں۔
مذکورہ دلیل کاغذ پر تو اچھی لگتی ہے مگر کیا صارفین گیس سے بجلی پر متنقل ہوں گے؟ صارفین کے پاس موجود آلات اور ان کے رجحانات کے ساتھ ساتھ بجلی کے مقابلے میں سستی گیس جیسی سہولت کو فراموش نہیں جاسکتا۔ بجلی کی قیمت جب تک گیس کی قیمت کے مساوی یا اس سے کم نہیں ہوگی تب تک صارفین کے لیے سردیوں میں گرمائش کے لیے گیس سے بجلی کی توانائی پر منتقل ہونا مشکل نظر آتا ہے۔
تابش گوہر پاور مارکیٹ کو آزاد کرنے کی بات بھی کررہے ہیں۔ مگر کیا اس وقت پاکستان کی مارکیٹ اس کے لیے تیار ہے بھی یا نہیں؟ اور 2022ء تک بجلی کے ایکسچینج کو قائم کرنے کی بات کاروباری لحاظ سے تو اچھی لگتی ہے مگر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جو صورتحال اوپر بیان کی گئی ہے، اسے دیکھیں تو ان ایکسچینجز سے بجلی کون خریدے گا۔ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے بجلی کا نظام ریگولیٹڈ ہے اور اس ریگولیٹڈ نظام میں صارفین کو بڑے پیمانے پر سبسڈی دی جارہی ہے۔ ایسے میں کس طرح ایک کھلی منڈی قائم کی جاسکتی ہے جس میں قیمت پر حکومت کا کنٹرول ختم کرکے طلب و رسد کے فارمولے پر بجلی کی قیمت کا تعین کیا جاتا ہو؟ اس منڈی کے قیام سے فی الحال عام صارفین کو کوئی سہولت دستیاب نہیں ہوسکے گی۔
کے الیکٹرک کے حوالے سے تابش گوہر نے وزارتِ توانائی کو جو تجاویز پیش کی ہیں ان کے مطابق اس سے قبل نیپرا کے الیکٹرک کو ان بنڈل کرتے ہوئے جنریشن، ڈسٹری بیوشن اور تقسیم کار کاروبار کو الگ الگ کردے، اس ادارے کو ایسے نجی شعبے کے سرمایہ کار کے حوالے کرنا ہوگا جو کے الیکٹرک میں سرمایہ کاری کی سکت رکھتا ہو تاکہ ناکامی اور کامیابی کا سنگل پوائنٹ منتظم نہ رہے، یعنی یہ ذمہ داری ایک کمپنی پر نہ رہے اور واضع طور پر پتا چلے کہ ناکامی کہاں ہوئی اور کس کی وجہ سے ہوئی۔
کے الیکٹرک میں سرمایہ کاری کے حوالے سے تجویز بہتر ہے اور کے الیکٹرک پاکستان کی واحد پاور کمپنی ہے جس کی خریداری کے لیے چین کی شنگھائی الیکٹرک کمپنی 2016ء سے کوشاں ہیں۔ ریگولیٹری منظوری نہ ملنے کی وجہ سے شنگھائی الیکٹرک بار بار اپنی پیشکش کا اعادہ کررہی ہے۔ یہ شاید پاکستان میں کسی بھی کمپنی کے حصص کے انتظامی کنٹرول کے ساتھ فروخت کے لیے طویل عرصے تک موجود رہنے والی پیشکش بن گئی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد معاونِ خصوصی کی سفارش پر عمل کرتے ہوئے شنگھائی الیکٹرک کی پیشکش کو عملی جامہ پہنائے۔
جہاں تک کے الیکٹرک کو مختلف کمپنیوں میں تقیسم کرنے کا معاملہ ہے تو اس سے بھی کے الیکٹرک کی ملکیت پر اثرات مرتب نہیں ہوں گے بلکہ کے الیکٹرک ہولڈنگ کے نیچے نئی کمپنیاں وجود میں آسکیں گی۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ملک میں یہ نظام پہلے ہی ناکام ہوچکا ہے۔
نیپرا کا اسٹیٹ اف انڈسٹری کے حوالے سے ڈیٹا یہ ثابت کرتا ہے کہ حکومتی دلچسپی کی وجہ سے صرف بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ چونکہ منصوبہ بندی کرنے والوں میں ترسیل اور تقسیم کرنے والے موجود نہ تھے اس وجہ سے حکومت اور اس کی ذیلی ترسیل اور تقسیم کار کمپنیوں نے اضافی بجلی کو نظام میں کھپانے کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ہے۔ چنانچہ پاکستان کی چوتھائی آبادی بجلی کے گرڈ سے منسلک ہی نہیں۔ حکومت کو کے الیکٹرک کے نظام کو دیکھتے ہوئے ڈیسکوز کو بجلی کی تقسم کے ساتھ ساتھ ترسیل اور پیداواری یونٹس لگانے کی بھی اجازت دینی چاہیے تاکہ ہر ڈیسکو اپنی ضرورت کے مطابق کام کرسکے۔
تابش گوہر کی حکومت کو پیش کردہ تجاویز اہم ہیں اور یہ پاکستان کے بجلی کے نظام کے مستقبل کے حوالے سے بھی روڈ میپ فراہم کرتی ہیں۔ مگر ان میں سے چند تجاویز کاغذ پر تو اچھی لگتی ہیں مگر ان کو روبہ عمل لانے کے لیے طویل منصوبہ بندی اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں بجلی کے نظام میں ضروری سرمایہ کاری بروقت اور تیز رفتاری سے کی جاسکے۔ اگر ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنا ہے تو پھر ملک میں توانائی کے شعبے کو قابلِ بھروسہ، جدید اور ملکی ضروریات کے مطابق بنانا ہوگا۔
تبصرے (2) بند ہیں