افغانستان کا آنکھوں دیکھا حال: مہنگائی کا رونا، عوام کو مستقبل کی پریشانی
اس مضمون میں پیش کیے گئے تمام مناظر ڈان نیوز کے نمائندے عادل شاہزیب کے پروگرام اور ان کی رپورٹنگ سے لیے گئے ہیں جو اس وقت طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان میں موجود ہیں۔
جنوبی ایشیا کے دیگر میٹروپولیٹن شہروں کی طرح جلال آباد میں بھی طالبان کے کنٹرول کے بعد بھی زندگی رواں دواں ہے اور لوگوں کی چہل قدمی بھی معمول کی طرح دکھائی دیتی ہے۔
پر سکون ہوا میں ٹریفک کی روانی اور لوگوں کی چہل قدمی کا شور یہاں زندگی کا احساس دلاتا ہے۔
دکاندار گاہکوں کو نمٹاتے دکھائی دیتے، پیدل چلنے والے لوگ اور مزدور ٹریفک کو پار کرکے ایک سے دوسری طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔
ان تمام مناظر کو دیکھ کر احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہاں ایک ہفتہ قبل سیاسی و اقتدار کی تبدیلی ہوئی ہے۔
جلال آباد کے پختونستان چوک پر طالبان کا سفید جھنڈا لہراتا دکھائی دیتا ہے، جس کے گزشتہ ہفتے دارالحکومت کابل اور صدارتی محل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہوگئے تھے۔
مذکورہ چوک سے کچھ ہی کلو میٹرز کے فاصلے پر ننگرہار صوبے کا گورنر ہاؤس ہے، جہاں اب طالبان مقیم ہیں اور وہ محل بڑی دیواروں سے محفوظ ہے لیکن ان دیواروں سے باہر زندگی گزارنے والے لوگوں کے ذہن میں کچھ اور ہی باتیں ہیں۔
اگر جلال آباد کے حالیہ حالات کو دیکھا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ وہاں زندگی معمولات کی جانب لوٹ چکی ہے اور جیسے وہاں کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
اسلام آباد سے جلال آباد تک کے سفر میں 10 سے 11 گھنٹے لگ جاتے ہیں، جس میں سے بہت سارہ وقت طورخم سرحد پر امیگریشن کے حکام لے لیتے ہیں۔
حیرت انگیز طور پر طالبان ہر جگہ موجود نہیں ہے، اس کی مثال یہ بھی ہے کہ اسلام آباد سے جلال آباد پہنچنے تک ہمیں 5 چیک پوسٹوں کو کراس کرنا پڑا اور ہر ایک پوسٹ پر صرف ایک طالبان کارکن دکھائی دیا۔
اس سے زیادہ خوشگوار حیرت اس وقت ہوئی جب ہم جلال آباد شہر میں داخل ہوئے تو ہم سے ایک چیک پوسٹ پر دریافت کیا گیا کہ کیا ہمیں راستے میں کسی خراب رویے کا سامنا کرنا پڑا؟
وہاں پہنچنے کے بعد جب ہم نے شہریوں سے گفتگو کی اور لوگوں سے امن و امان کی صورتحال سے متعلق دریافت کیا تو زیادہ تر لوگوں نے بتایا کہ صورتحال قابو میں ہے لیکن اکثر لوگ اپنے مستقبل سے متعلق پریشان دکھائی دیے۔
اقتدار کی تبدیلی کے باوجود جلال آباد کی مارکیٹوں میں معمول کی طرح رش دکھائی دیتا ہے مگر نئی سرحدی پابندیوں اور سیاسی اتار چڑھاؤ کا اثر اشیائے خور و نوش کی قیمتوں پر دکھائی دیتا ہے۔
مرغی فروش نواب خان نے بتایا کہ طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد مرغی کی قیمتوں میں 20 سے 30 افغانی کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تندور چلانے والے غلام رحمٰن نے بتایا کہ طالبان کے کنٹرول سے قبل جو وہ آٹے کی بوری 1600 افغانی میں لیتے تھے، اب انہیں وہی بوری 2200 افغانی میں ملتی ہے۔
وہاں کئی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کی ایک وجہ طالبان کی جانب سے مختلف مقامات پر عائد کی گئی سرحدی پابندیاں بھی ہیں اور لوگ اس سے کچھ پریشان بھی دکھائی دیتے ہیں۔
تاہم جلال آباد میں تعینات ایک طالبان رکن کا کہنا تھا کہ عوام کو قیمتوں اور مہنگائی سے متعلق پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہاں ہاتھ میں رائفل پکڑے اور کوٹ میں واکی ٹاکی رکھے ہوئے طالبان رکن نے دعویٰ کیا کہ زیادہ تر لوگ اقتدار تبدیل ہونے سے خوش ہیں لیکن بعض افراد عوام کو بھڑکا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان عوام اب بھی اپنا قومی پرچم لہرانے کے لیے اسی طرح آزاد ہیں، جس طرح انہوں نے طالبان کے خلاف مزاحمت کے طور پر اسے استعمال کیا تھا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ عوام کے جائز مطالبات پورے کیے جائیں گے۔
دوسری جانب افغان عوام کی بھی خواہشات ہیں کہ جیسے جیسے طالبان اقتدار پر اپنا کنٹرول مضبوط کر رہے ہیں، ویسے ویسے انہیں جنگ سے تھکی قوم کی توقعات پر پورا اترنا چاہیے۔
ایک بزرگ شہری نیک محمد نے طالبان کے کنٹرول سنبھالنے پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے بتایا کہ اب جنگ ختم ہو چکی اور امن قائم ہوچکا۔
انہوں نے بتایا کہ طالبان نے مکمل طور پر اختیار حاصل کرلیے ہیں اور نظام ان کے ہاتھ میں ہیں، ماضی میں یہاں کرپشن کا بازار گرم تھا، اب عوام کی خدمت ہونی چاہیے۔
لیکن طالبان کی جانب سے عوامی بھلائی اور قوم کی خدمت کے حوالے سے کیے گئے وعدوں کے پورے ہونے سے متعلق کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب تک طالبان کے قبضے کے باوجود افغانستان میں زندگی معمول کے مطابق جاری ہے۔