پاکستان کی مدد سے افغانستان سے 1100 افراد کا انخلا ممکن ہوا، منیر اکرم
پاکستان کی مدد کے باعث کابل سے گیارہ سو افراد کا انخلا ممکن ہوا ہے جن میں سفارتکار، سفارتخانوں اور بین الاقوامی اداروں کا عملہ شامل ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کا کہنا تھا کہ افغانستان کی صورتحال چیلنجنگ ہے لیکن ہمارا سفارتخانہ کام کررہا ہے اور ویزا کے حصول اور پاکستان کو افغانستان سے نکلنے کے لیے بطور ٹرانزٹ پوائنٹ استعمال کرنے کی درخواستوں پر کارروائی کی جارہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان یومیہ کابل کے لیے 3 پروازیں چلا رہا ہے تا کہ 5 سے 6 سو افراد کا انخلا ممکن ہوسکے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے لوگوں کے انخلا میں مدد کررہے ہیں، وزیر خارجہ
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پاکستان ان افراد کو بھی سہولت فراہم کرے گا جو ضروری دستاویزات رکھتے ہوں اور دونوں ممالک کے درمیان زمینی راستے سے پاکستان میں داخل ہونے کے خواہشمند ہوں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اس وقت تمام تر توجہ ایئرپورٹ پر دی جارہی ہے جو امریکا کے زیر انتظام ہے اور ہم اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نکالنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
دوسری جانب فواد چوہدری نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ پی آئی اے نے کابل کے لیے اپنا فلائٹ آپریشن بحال کردیا جس کے بعد ساڑھے 3 سو مسافر آج پاکستان پہنچیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'مزید پروازیں شیڈول ہیں، اسی طرح وزارت داخلہ سرحدوں سے آنے والوں کو بھی سہولت فراہم کررہی ہے، پاکستان، افغان تنازع میں پھنس جانے والے صحافیوں اور دیگر کی مدد کرنے میں سب سے آگے ہے۔
نیٹو کا افغانستان سے انخلا تیز کرنے کا عزم
دوسری جانب ایک نیٹو عہدیدار نے بتایا کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے 18 ہزار افراد کو افغانستان سے نکالا جاچکا ہے اور مغرب پر انخلا کے حوالے سے ہونے والی تنقید کے بعد کوششوں کو دگنا کرنے کا عزم ظاہر کیا۔
مزید پڑھیں: افغانستان سے لوگوں کے انخلا میں تیزی
ایک عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا کہ ملک سے فرار ہونے کے ہزاروں خواہشمند افراد اب بھی کابل ایئرپورٹ پر موجود ہیں حالانکہ طالبان نے سفری دستاویز نہ رکھنے والے افراد کو واپس گھروں کو جانے کا کہا ہے۔
دوسری جانب طالبان نے مساجد کے اماموں کو ہدایت کی کہ نماز جمعہ کے خطبات میں عوام کو افغانستان نہ چھوڑنے اور اتحاد کے لیے زور دیں۔
امریکا کو انخلا کی کوششیں تیز کرنے میں مشکلات کا سامنا
ادھر امریکا کو طالبان کی مسلح چوکیوں سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں اور دستاویزات کے کام میں مسائل کے باعث کابل ایئرپورٹ سے افغانوں کا انخلا تیز کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
امریکا کی جانب سے انخلا کے لیے اعلان کردہ 31 اگست کی ڈیڈ لائن قریب آرہی ہے لیکن اب بھی ہزاروں افراد کو کابل سے ایئرلفٹ کیا جانا باقی ہے۔
ایئرپورٹ کے اطراف میں قائم طالبان کی چوکیاں ان افغانوں کے لیے بڑی رکاوٹ بن رہی ہیں جو ماضی میں مغربی افواج کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے خود کو نشانہ بنائے جانے کا خوف محسوس کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:'مسئلہ ادھورا رہ گیا'، افغانستان سے امریکی انخلا پر عالمی رہنماؤں کا ردعمل
انخلا کے لیے درکار کلیئرنس اور دستاویزات سے محروم افغان شہری بھی بڑی تعداد میں ایئرپورٹ کے باہر جمع ہیں جس کی وجہ سے دستاویزات رکھنے والے شہریوں کو بھی ایئرپورٹ میں داخل ہونے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
تاہم امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے اس بیان سے امید کی کرن جاگی ہے کہ انخلا کے لیے 6 ہزار افراد کو کلیئر کیا گیا ہے اور آئندہ چند گھنٹوں میں وسیع فوجی پروازیں متوقع ہیں۔
علاوہ ازیں پینٹاگون کے ترجمان نے بتایا کہ گزشتہ 2 روز میں یومیہ 2 ہزار افراد کو افغانستان سے نکالا گیا۔
ان کا کہا تھا کہ یومیہ 5 سے 9 ہزار افراد کے انخلا کے لیے فوجی طیارہ موجود ہے لیکن جمعرات تک مقررہ تعداد سے کہیں کم افراد ہی ایئرپورٹ پہنچ سکے۔
ان کامزید کہنا تھا کہ اس رفتار کے ساتھ امریکا کے لیے انخلا کے اہل تمام امریکی اور افغان شہریوں کو 31 اگست تک افغانستان سے نکالنا مشکل ہوگا۔