سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے کروائے جائیں، سپریم کورٹ
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر کہ آنے والے وقت کے لیے کسی بھی تشریح کے دروازے بند کر دیے کہ سینیٹ کے انتخابات 'آئین کے تحت انتخابات' تھے اور اس لیے یہ کھلے انتخابات کے بجائے خفیہ رائے شماری کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کے تحریر کردہ فیصلے میں اکثریت کی رائے یہ تھی کہ آئین کے آرٹیکل 226 کی کوئی نئی تشریح قانونی طور پر نہیں دی جائے گی کیونکہ سینیٹ کے انتخابات 'آئین کے تحت انتخابات' تھے۔
یہ فیصلہ ایک صدارتی ریفرنس پر آیا جس میں سپریم کورٹ سے تجویز طلب کی گئی تھی کہ کیا سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرائے جا سکتے ہیں؟
سپریم کورٹ کی رائے میں یہ وضاحت کی گئی کہ لفظ 'الیکٹڈ' کا استعمال، جو لفظ 'الیکٹ' کا دوسرا روپ ہے، جس کا اسم 'الیکشن' ہے، اس انتخابات کو 'تمام انتخابات آئین کے تحت' کی اصطلاح میں لائے گا، جیسا کہ آرٹیکل 226 میں کہا گیا ہے اور اس طرح کے انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہونے ہیں۔
تاہم جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں مشاہدہ کیا کہ صدر کی طرف سے ریفرنس میں اٹھایا گیا سوال مبہم، عام، مطلوبہ وضاحت اور درستی کے فقدان سے بھرا تھا اور اس طرح آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت 'قانون کا سوال' ہونے کے اہل نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات میں شو آف ہینڈ کا معاملہ کیا ہے؟
جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا کہ یہ میرے خیال میں سپریم کورٹ کی جانب سے کسی بھی رائے کے اظہار سے پرہیز کی صوابدید کے استعمال کو جائز قرار دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'میں احترام کے ساتھ ریفرنس میں پوچھے گئے سوال کو صدر کو بغیر جواب دیے واپس کرتا ہوں'۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے یکم مارچ کو ایک مختصر حکم کے ذریعے فیصلہ دیا تھا کہ سینیٹ کے انتخابات (جو اسی مہینے ہونے تھے) اوپن بیلٹ کے بجائے خفیہ رائے شماری کے ذریعے کروائے جانے چاہئیں۔
حکومت نے اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخابات کی اجازت طلب کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
اکثریتی رائے چیف جسٹس، جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن نے دی۔
جاری کردہ تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ سینیٹ کے انتخابات آئین کے تحت ہوتے ہیں اور انتخابات کے انعقاد کے لیے طریقہ کار اور مشینری کی فراہمی الیکشن ایکٹ 2017 میں دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات میں کب، کیا اور کیسے ہوتا ہے؟
رائے میں مشاہدہ کیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 222 نے پارلیمنٹ کو اختیار دیا ہے کہ وہ انتخابات کے سلسلے میں بدعنوان طریقوں اور دیگر جرائم سے متعلقہ معاملات پر قانون بنائے تاہم یہ بھی کہا گیا کہ کسی بھی قانون کا اثر کسی چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) یا الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے اختیارات کو چھیننے یا ختم کرنے پر نہیں پڑے گا۔
اس طرح آئین کی یہ شق خود پارلیمنٹ کو ایسے قوانین بنانے سے روکتی ہے جو سی ای سی یا ای سی پی کے کسی بھی اختیار کو چھیننے یا ختم کرنے کا اثر رکھتے ہوں۔
عدالت نے اپنی رائے میں مزید کہا کہ اس طرح سی ای سی یا ای سی پی کے پاس تمام اختیارات ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ انتخابات منظم اور منصفانہ اور قانون کے مطابق ہوں اور کرپٹ طریقوں سے بچا جائے۔
تبصرے (1) بند ہیں