• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

نائٹ شفٹ میں کام کرنے والے افراد میں امراض قلب کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، تحقیق

شائع August 16, 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

رات کی شفٹ میں کام کرنے والے افراد میں امراض قلب کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔

یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

طبی جریدے یورپین ہارٹ جرنل میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ نائٹ شفٹ میں کام کرتے ہیں ان میں دل کی دھڑکن کی رفتار غیرمعمولی حد تک بڑھنے کا خطرہ (ایٹریل فبریلیشن) زیادہ ہوتا ہے۔

تحقیق میں 2 لاکھ 8 ہزار سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کو استعمال کرکے ایٹریل فبریلیشن یا اے ایف اور نائٹ شفٹ کے درمیان تعلق کو دریافت کیا گیا۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ اپنی زندگی کا زیادہ وقت نائٹ شفٹ میں کام کرتے ہوئے گزارتے ہیں ان میں دل کی دھڑکن کی اس بیماری کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

تحقیق کے مطابق ایسے افراد میں امراض قلب کا خطرہ بھی دیگر سے زیادہ ہوتا ہے تاہم فالج یا ہارٹ فیلیئر کا نہیں۔

چین کے جیاؤ تٹونگ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین اور امریکا کے ٹولان یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی اس مشترکہ تحقیق میں اے ایف کا خطرہ بڑھانے والے تمام تر جینیاتی عناصر کی جانچ پڑتال کی گئی۔

محققین نے بتایا کہ اگرچہ تحقیق میں نائٹ شفٹ اور ایٹریل فبریلیشن کے واضح تعلق ثابت نہیں ہوسکا مگر نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اس کے نتیجے میں امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ نائٹ شفٹ کا دورانیہ کم کرکے اس خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔

اس سے قبل مارچ 2021 میں امریکا کی واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی ہیلتھ سائنسز کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ نائٹ شفٹ میں کام کرنے والے افراد میں کینسر کی مخصوص اقسام کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

تحقیق کے دوران دن یا رات کی شفٹوں میں کام کرنے والے صحت مند افراد کو شامل کرکے جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ رات کو کام کرنے والے افراد کے جسموں کا 24 گھنٹوں کا قدرتی ردہم متاثر ہوتا ہے جس سے کینسر سے متعلق مخصوص جینز متحرک ہوجاتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق اس کے نتیجے میں ان افراد میں ڈی این اے کو نقصان پہنچنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے جبکہ ڈی این اے کی مرمت کرنے والے میکنزمز اس نققصان کی تلافی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024