• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
طالبان نے پیش قدمی کرتے ہوئے تقریباً پورے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا ہے— فوٹو: اے ایف پی
طالبان نے پیش قدمی کرتے ہوئے تقریباً پورے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا ہے— فوٹو: اے ایف پی
شائع August 15, 2021
طالبان قندہار میں داخل ہورہے ہیں — فوٹو: اے پی
طالبان قندہار میں داخل ہورہے ہیں — فوٹو: اے پی

امریکی اور ان کے اتحادی نیٹو افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد افغانستان کی صورت حال حیران کن طور پر اور ڈرامائی انداز میں تبدیل ہوئی اور بلآخر آج 15 اگست 2021 کو تقریباً 20 سال کے بعد طالبان کابل میں دوبارہ داخل ہوگئے ہیں، جہاں سے امریکا نے انہیں بے دخل کیا تھا۔

اس ساری صورت حال میں لوگوں کے ذہن میں ایک سوال شاید اب بھی موجود ہے کہ 20 سال افغانستان میں جنگ کے بعد کامیابی کس نے حاصل کی، امریکا، اس کے اتحادی ممالک اور افغان حکومت نے یا طالبان جنگجوؤں نے، جنہوں نے 20 سال تک اپنی عسکری کارروائیاں جاری رکھیں اور ٹیکنالوجی کے حامل ممالک کو اپنی زمین سے جانے پر مجبور کردیا۔

اس رپورٹ میں حالیہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے طالبان کے جنم سے ان کے اقتدار تک پہنچنے، 9/11 حملوں اور اس کے بعد افغانستان میں پرتشدد واقعات کے بعد امریکی انخلا تک تمام چیزوں پر ایک مختصر نظر ڈالی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان کی قیادت میں کون لوگ شامل ہیں؟

طالبان، پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی 'طالبعلم' کے ہیں، افغانستان کی 55 فیصد آبادی پشتو زبان بولتی اور سمجھتی ہے، طالبان کی بنیاد 90 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں ملا عمر نے اپنے آبائی علاقے قندھار میں 50 طالبعلموں کی مدد سے رکھی تھی، یہ تمام وہ لوگ تھے جنہوں نے 1989 سے 1979 تک سوویت یونین کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔

سوویت یونین کے عہد میں کیا ہوا؟

کونسل آن فارن ریلیشن کے مطابق دسمبر 1979 میں سوویت یونین کے ٹینک اور فوجی، امو دریا اور افغانستان کے قریب اترے جس کا مقصد ملک میں ہوئی بغاوت کے بعد استحکام پیدا کرنا تھا لیکن سوویت یونین کو مقامی سطح پر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

باراک اوباما — فائل فوٹو: اے ایف پی
باراک اوباما — فائل فوٹو: اے ایف پی

یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مقامی افراد اور مجاہدین پر مشتمل گروپ نے امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی مدد سے سوویت یونین کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور جلد ہی دیگر اسلامی ممالک سے لوگ بھی ان کی جدوجہد میں شامل ہو گئے جس کے بعد القاعدہ کے نام سے ایک گروپ کا قیام عمل میں آیا۔

یہ بھی پڑھیں: افغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑ گئے، طالبان دارالحکومت کابل میں داخل

اس گوریلا جنگ کے نتیجے میں 1989 میں سوویت افواج واپس لوٹ گئیں جس کے بعد مجاہدین نے سوویت یونین کی حمایت یافتہ حکومت کو ہٹا کر عبوری حکومت قائم کر لی۔

افغانستان میں طالبان حکومت کا قیام

سوویت یونین کے جانے کے بعد افغانستان میں مقامی قبائلیوں اور وار لاڈز میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور نومبر 1994 میں طالبان قندھار میں داخل ہو گئے تاکہ ملک میں جرائم کا خاتمہ کیا جائے اور دو سال بعد ستمبر 1996 میں دارالحکومت کابل کا کنٹرول بھی سنبھال لیا اور صدر برہان الدین ربانی کو اقتدار سے بے دخل کردیا جنہیں وہ پشتون مخالف اور کرپٹ تصور کرتے تھے۔

طالبان نے افغانستان کو امارات اسلامی قرار دیا اور ملک کے 90 فیصد سے زائد پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ملا عمر کو امیر المومنین بنانے کا اعلان کیا گیا اور اسلامی قوانین لاگو کردیے گئے۔

طالبان کے 5 سالہ دور اقتدار کے درمیان ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی، خواتین سے ناروا سلوک اور ان کے تعلیم کے حصول پر پابندی، سماجی ذمے داریوں سے پہلو تہی برتنے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے لیکن طالبان قیادت نے ان تمام تر الزامات کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے مسترد کیا۔

مزید پڑھیں: طالبان کا افغان حکومت اور اتحادی افواج کے ملازمین کیلئے عام معافی کا اعلان

1999 میں القاعدہ کو پناہ دینے کے الزام میں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے اس وقت کی طالبان سے تعلق رکھنے والی افغان قیادت پر پابندیاں عائد کردی تھیں اور امریکا میں ہوئے 9/11 (11 ستمبر 2001) کے حملوں کے بعد ان پابندیوں میں توسیع کردی گئی۔

امریکا میں 4 طیاروں سے حملے

یاد رہے کہ 11 ستمبر کو القاعدہ کے شدت پسندوں نے 4 امریکی طیاروں کو اغوا کرنے کے بعد ان کی مدد سے امریکا کی اہم تنصیبات پر حملہ کیا تھا، حملے میں ملوث 19 دہشت گردوں کو افغانستان میں تربیت فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

اس حملے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے ملا عمر سے اسامہ بند لادن سمیت حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث تمام افراد کو امریکا کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن ان کے انکار کے بعد امریکا نے افغانستان کے خلاف جنگ کے منصوبے پر عملدرآمد کیا۔

اسامہ بن لادن — فائل فوٹو: اے ایف پی
اسامہ بن لادن — فائل فوٹو: اے ایف پی

اکتوبر 2001 میں امریکا نے افغانستان پر چڑھائی کرتے ہوئے اس وقت کی طالبان حکومت کو اقتدار سے بے دخل کردیا تھا اور اس موقع پر عبدالرشید دوستم اور حامد کرزئی جیسے قبائلی عمائدین اور طالبان مخالف عناصر نے امریکا کی بھرپور مدد کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کی طالبان سے کابل میں سفارتخانے پر حملہ نہ کرنے کی اپیل

6 دسمبر کو قندھار بھی امریکی اور اتحادی افواج کے قبضے میں چلا گیا تھا اور حامد کرزئی کو عبوری بنیادوں پر افغانستان کی قیادت سونپ دی گئی تھی جبکہ اس دوران ملا عمر کے ساتھ ساتھ اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کی تلاش بھی بڑے پیمانے پر شروع کردی گئی۔

طالبان کے افغانستان سے اخراج کے باوجود طالبان اور اتحادی فورسز کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں تاہم جلد ہی امریکا کی زیر قیادت عالمی اتحادی افواج نے ملک کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا اور ملک میں بحالی کا عمل شروع ہوا۔

2004 میں افغانستان میں ایک جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا اور حامد کرزئی صدر منتخب ہوئے لیکن اس نئی حکومت کو بھی وقفے وقفے سے طالبان کے حملوں کا سامنا رہا جبکہ کئی مرتبہ ان پر قاتلانہ حملے بھی ہوئے۔

2005 میں طالبان نے ملک میں پھر سے سر اٹھانا شروع کیا اور امریکی فوج سے براہ راست تصادم کے بجائے خود کش حملوں اور آئی ای ڈیز کے ذریعے اتحادی افواج کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی اپنائی اور اس نئی حکمت عملی کے ساتھ ہی ملک میں امریکا مخالف جذبات کو ہوا ملی کیونکہ عوام کا ماننا تھا کہ کئی سال گزرنے کے باوجود امریکا اور اتحادی افواج نے ملکی دفاع کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے اور انہیں شدت پسندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

مزید پڑھیں: ملکی سیکیورٹی اور مسلح افواج کی محازوں پر واپسی اولین ترجیح ہے، اشرف غنی

افغان قیادت نے ملک میں بڑھتے ہوئے حملوں کے پیش نظر پاکستان پر الزامات عائد کرنا شروع کردیے لیکن وہ اپنے ان دعوؤں کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی اور افغان قیادت کے ان بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر امریکا نے پاکستان میں ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کردیا۔

2009 میں امریکی صدر باراک اوبام نے اقتدار میں آتے ہی 36 ہزار امریکی اور 32 ہزار نیٹو فورسز کے ہوتے ہوئے مزید 17 ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا اور شدت پسندوں سے لڑنے کے بجائے افغان عوام کے تحفظ کی حکمت عملی اپنائی اور پہلی مرتبہ افغان حکومت کی جانب سے طالبان قیادت کو مذاکرات کی پیشکش کی گئی۔

ابھی نئی امریکی حکمت عملی کو ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل ڈیوڈ میک کرنین کی رپورٹ منظر عام پر آ گئی جس میں امریکی انتظامیہ کو خبردار کیا گیا تھا کہ اگر فوج کی تعداد میں اضافہ نہ کیا گیا تو امریکا ایک سال کے اندر ہی یہ جنگ ہار جائے گا اور اس کے نتیجے میں نومبر 2010 میں مزید 30 ہزار اضافی دستے افغانستان بھیجے گئے۔

کرزئی نے اگست 2009 میں دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونے کے بعد طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی جسے انہوں نے مسترد کردیا اور افغان صدر کی متعدد پیشکشوں کے باوجود ملاعمر ان سے ملاقات پر راضی نہ ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ نے افغانستان سے امریکی انخلا کو غلطی قرار دے دیا

پاکستان نے 2010 میں طالبان سے مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ساتھ طالبان کے اہم رہنما ملاعبدالغنی برادر کو پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے حراست میں لے لیا۔

امریکی کارروائی میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت

امریکا میں 9/11 حملے کے تقریباً 10 سال بعد 2 مئی 2011 کو صورتحال نے اس وقت ڈرامائی موڑ لیا جب امریکا نے پاکستان کے علاقے ایبٹ آباد میں کارروائی کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو قتل کرنے اور لاش سمندر بُرد کرنے کا دعویٰ کیا۔

ملا عبدالغنی برادر دیگر طالبان عہدیداروں کے ہمراہ — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
ملا عبدالغنی برادر دیگر طالبان عہدیداروں کے ہمراہ — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

اسامہ بند لادن کے قتل کے ایک ماہ بعد امریکی سیکریٹری آف ڈیفنس رابرٹ گیٹس نے پہلی مرتبہ طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا انکشاف کیا اور اس کے بعد اوباما نے افغانستان سے امریکی فوج کے مرحلہ وار انخلا کا منصوبہ پیش کیا جس کے تحت 2014 تک تمام افواج کا انخلا مکمل ہو جانا تھا۔

تاہم انخلا کے عمل اور مذاکراتی عمل کو اس وقت دھچکا لگا جب سابق افغان صدر برہان الدین ربانی ایک خودکش حملے میں مارے گئے۔

مزید پڑھیں: دوحہ: افغانستان پر اقوام متحدہ، پاکستان سمیت دیگر ممالک کے مذاکرات شروع

اس کے بعد طالبان اور افغان حکومت میں معاہدہ طے پایا، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ امریکا اور اتحادی افواج کا 2014 میں انخلا مکمل ہو جائے گا اور کچھ دستے افغان فوج کی تربیت کے لیے یہاں موجود رہیں گے۔

2014 حامد کرزئی کی جگہ اشرف غنی نے صدارت کا منصب سنبھالا اور امریکا کے ساتھ اس دوطرفہ سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کیے جس پر دستخط سے حامد کرزئی نے انکار کردیا تھا، مذکورہ معاہدے میں طے پایا تھا کہ 28 دسمبر 2014 تک افغانستان سے 14 ہزار امریکی اور نیٹو فوجی واپس لوٹ جائیں گے۔

اوباما کے جانے کے بعد نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور امریکی دستوں کو وطن واپس بلانے کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔

اسی دوران طالبان کی جانب سے بانی سربراہ ملا عمر کی موت کا اعلان کیا گیا جس کے بعد ملا اختر منصور کو طالبان کا نیا سربراہ مقرر کردیا گیا لیکن وہ بھی زیادہ عرصہ اس نشست پر براجمان نہ رہ سکے اور امریکی ڈرون کا نشانہ بن گئے جس کے بعد طالبان شوریٰ نے ہیبت اللہ اخونزادہ کو اپنا نیا سربراہ بنایا جو تاحال اس نشست پر اپنی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں۔

افغان امریکا امن معاہدہ، امریکی افواج کے انخلا کا اعلان

ان کے دور حکومت میں قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر میں امریکی اور طالبان نمائندوں میں مذاکرات کا آغاز ہوا اور پاکستان نے اس افغان امن عمل میں سہولت کار اور ثالث کا کردار ادا کیا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 4 سالہ دور حکومت کے آخری سال بالآخر مارچ 2020 میں امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ طے پایا کہ امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا کا عمل اسی سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ملک کا دفاع افغان سیکیورٹی فورسز پر منحصر ہے، امریکا

بعد ازاں نئے صدر جو بائیڈن نے بھی اقتدار میں آتے ہی اولین بنیادوں پر افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کا فیصلہ کیا اور اعلان کیا کہ 11 ستمبر 2021 تک افغانستان سے تمام امریکی دستے وطن واپس لوٹ جائیں گے، یہ وہ دن تھا جب 9/11 کے حملے کو 20 سال مکمل ہوں گے۔

امریکی صدر نے رواں سال جولائی میں اعلان کیا تھا کہ وہ امریکیوں کی ایک اور نسل کو افغانستان نہیں بھیجنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے مکمل انخلا کا اعلان کرتے ہوئے اس کے لیے 31 اگست کی تاریخ کو حتمی قرار دیا تھا۔

اشرف غنی — فائل فوٹو: رائٹرز
اشرف غنی — فائل فوٹو: رائٹرز

اس اعلان کے بعد افغانستان کی صورت حال ڈرامائی انداز میں تبدیل ہوئی اور طالبان نے افغان افواج پر اپنا دباؤ بڑھا دیا جس کے ساتھ ہی رواں ماہ کے آغاز میں طالبان نے افغانستان کے شمالی حصوں کے اہم صوبوں پر قبضے کا آغاز کیا اور انتہائی مختصر وقت میں 15 اگست کو ملک کے مرکزی دارالحکومت کابل کو گھیرنے میں لے لیا۔

طالبان نے کابل کے مضافات میں پہنچ کر ہر خاص و عام کے لیے معافی کا اعلان کیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ ان کے جنگجو اس وقت تک کابل میں داخل نہیں ہوں گے جب تک ان کی اور افغان حکومت کی قیادت کے درمیان مذاکرات کامیاب نہیں ہوجاتے کیوں کہ وہ کابل کو پُر امن طریقے سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

15 اگست کی شام افغان حکومت کی جانب سے یہ خبریں سامنے آئیں کہ صدر اشرف غنی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ملک چھوڑ کر چلے گئے، جس کے بعد طالبان قیادت نے اپنے جنگجوؤں کو دارالحکومت کابل میں داخلے اور شہر کی سیکیورٹی سنبھالنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے انتظامی امور بھی ہاتھ میں لینے کا حکم دے دیا۔

اس طرح طالبان نے 20 سال بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں کو دارالحکومت کابل سے بے دخل کردیا جس طرح 2001 میں یہاں سے ان کے اقتدار کو ختم کیا گیا تھا۔