مذہبی تقاریب بھی اب ٹیکنالوجی سے دُور نہیں رہ سکتیں
کراچی کے ریگل چوک کی اطراف موجود دکانوں میں ان دنوں ڈش انٹینا کی مانگ بہت بڑھ چکی ہے۔ شاید محرم کے مہینے میں اس قسم کا رجحان خلافِ توقع ہو لیکن مارکیٹ یہ بتارہی ہے ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ہمارے سماجی برتاؤ میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔
ایک نوجوان شیعہ بینکر سید مرتضیٰ نے بتایا کہ ’یہاں ایسے ڈش نیٹ ورک دستیاب ہیں جن پر عراق اور ایران کے چینلز آتے ہیں۔ ان چینلز میں اسلامک ریپبلک آف ایران براڈکاسٹنگ (آئی آر آئی بی)، عراق کا کربلا ٹی وی اور برطانیہ سے چلنے والا عراق کا اہل البیت چینل زیادہ مقبول ہیں۔ یہ چینل ویسے تو سال بھر ہی دستیاب ہوتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ یہ محرم میں خصوصی حیثیت رکھتے ہیں۔
وہاں کی زبان سے ناواقفیت کے باوجود عقیدت مند اس مہینے میں ایران اور عراق سے نشر کی جانے والی تقریبات دیکھنے کے لیے پُرجوش ہیں۔
عزاداری ڈاٹ کام جیسی ویب سائٹس پر آن لائن مجالس اور سوز خوانی کی تقریبات دستیاب ہوتی ہیں۔ سید مرتضیٰ کے مطابق ’ضروری نہیں ہے کہ یہ لائیو ہوں لیکن یہ تازہ ضرور ہوتی ہیں جنہیں لوگ اپنے گھروں میں چلا سکتے ہیں‘۔
لیکن یہ پہلی بار نہیں ہورہا کہ مذہبی تقاریب پر بھی ٹیکنالوجی اپنے اثرات چھوڑ رہی ہو یا یہ صرف گھروں میں رہتے ہوئے ہی استعمال ہورہی ہو۔ امام بارگاہوں اور مجالس میں جانے والے ایسے کئی لوگ تھے اور اب بھی ہیں جو مائیکرو فونز، اسپیکر، اور بڑی اسکرینوں پر لائیو نشریات کا اہتمام کرتے ہیں۔
سید مرتضیٰ کے مطابق ’بڑی امام بارگاہوں میں جگہ کی قلت ہوسکتی ہے۔ ہم نے اکثر باہر صحن میں یا اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر درس سنے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ کام 1990ء کی دہائی میں شروع ہوا تھا۔ ہم امام بارگاہوں کے اطراف میں خالی پلاٹ میں گاڑیاں کھڑی کردیتے تھے۔ لیکن ہاں اب لائیو کوریج کو دیکھنے کے لیے ہمارے پاس گاڑیوں میں بھی اسکرینیں آگئی ہیں۔
اب ایسے کئی واٹس ایپ گروپ بھی موجود ہیں جو کچھ مولانا اور علما چلاتے ہیں۔ اب واٹس ایپ پر اپنے پسندیدہ مذہبی اسکالر کو تلاش کرنا بہت آسان ہے۔ اسی طرح ان اسکالرز کے اب اپنے فیس بک پیج اور یوٹیوب چینلز کے ساتھ ساتھ ڈی وی ڈیز بھی موجود ہیں۔ تو اگر آپ انٹرنیٹ تک رسائی رکھتے ہیں تو آپ کو محرم بھر کے لیے ویڈیو کلپس مل سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر سید مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ ’آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے مولانا کمیل مہدوی باقاعدگی سے پاکستان آتے تھے لیکن چونکہ وہ گزشتہ 2 سال سے پاکستان نہیں آ پارہے تو ان کو سننے والے میلبرن سے آنے والی براہِ راست نشریات کے ذریعے انہیں سنتے ہیں‘۔
مجھے اپنا بچپن یاد آگیا جب پاکستان میں صرف ایک ٹی وی چینل ہوا کرتا تھا۔ مجھے اسلامی سال کے پہلے ماہ کے ابتدائی 10 دنوں میں جنگِ کربلا کے سوگ کے دوران پیش کی جانے والی نشریات یاد ہیں۔
ہمارے سنی گھرانے میں بھی کسی حد تک سوگ کا ہی سماں ہوتا تھا۔ ہم رات کا کھانا جلد کھالیتے تھے جس کے بعد ہم بچے تو سو جاتے تھے اور ہماری والدہ ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتی تھیں۔ وہ ٹی وی تھا تو رنگین لیکن اس پر چلنے والا مواد عموماً سیاہ و سفید ہی ہوتا تھا۔ ٹی وی پر داستانِ کربلا سنتے ہوئے والدہ کی آنکھیں بھیگ جاتیں اور بلآخر ان سے آنسو جاری ہوجاتے۔ ہر روز داستان بیان کرنے والا عاشورہ تک کے حالات بیان کرتا۔ میری والدہ عاشورہ کے دن شام غریباں کی مجلس کا انتظار کرتی تھیں۔ ان کے پسندیدہ ذاکرین میں کچھ نام شاید آپ کے لیے بھی شناسا ہوں۔ مثال کے طور پر علامہ رشید ترابی اور نوحے اور سلامِ آخر پڑھنے والے سید ناصر جہاں۔
لیکن ظاہر ہے کہ شیعہ گھرانوں میں حالات مختلف ہوتے ہیں۔ میرے ایک دوست عباس حسین نے مجھے بتایا کہ ’محرم اور خاص طور پر ابتدائی 10 روز محض ایک مذہبی تجربے سے بڑھ کر ہوتے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ان دنوں صرف درس نہیں بلکہ دیگر سماجی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں، اور وبا کی وجہ سے گزشتہ 2 سالوں میں ان میں بھی کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو تبدیلی 2000ء کی دہائی سے ہی آنا شروع ہوچکی تھی جب 2005ء اور 2006ء میں کیبل ٹی وی کے آنے بعد اکثر پروگرامات براہِ راست نشر ہونا شروع ہوئے۔ کیبل ٹی وی فراہم کرنے والوں نے محرم کے دنوں کے لیے علیحدہ چینل مختص کردیے اور اس مہینے کے لیے خصوصی پیکج بھی متعارف کروائے۔ انٹرنیٹ کی سہولت کی وجہ سے بھی لوگوں کو دنیا کے کسی بھی کونے سے اپنے پسندیدہ ذاکر کی براہِ راست نشریات سننے میں مدد ملی‘۔
عباس کے مطابق، ’لیکن اب بھی ہماری برادری کے معمر افراد جو کہ روایات کو پسند کرتے ہیں وہ اس تبدیلی سے خوش نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی وبا کے دوران ٹیکنالوجی کے استعمال میں کچھ ہی اضافہ ہوا جبکہ اس دوران سماجی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کی جارہی تھی اور لوگوں کو آپس میں فاصلہ برقرار رکھنے اور ایس او پیز پر عمل کرنے کو کہا جارہا تھا۔ ہمارے بڑوں نے محرم کے حوالے سے ہماری پرورش مختلف روایات کے تحت کی ہے، ان میں دورے کی مجلس بھی شامل ہے، جس میں لوگ اپنے علاقوں کے مختلف گھروں میں ہونے والی مجالس میں شرکت کرتے تھے اور تبرک وصول کرتے تھے‘۔
عباس نے بتایا کہ ’اگر کسی علاقے میں 30 گھروں میں مجالس ہوتی تھیں تو اب ان میں سے 15 گھروں میں مجالس زوم یا اسکائپ کے ذریعے ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے بزرگ افراد سمجھتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی مجالس کے دوران بننے والے تعلقات اور رابطوں کو ختم کر رہی ہے۔ اسی وجہ سے برادری کے کئی افراد لوگوں کو آن لائن پروگرامات منعقد کرنے سے منع کر رہے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس طرح ان کے سماجی رابطے کمزور ہوجائیں گے۔
’لیکن کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جن کو سراہا جاتا ہے۔ ان میں وادی حسین قبرستان میں موجود اپنے پیاروں کی قبروں کو ورچوئل طریقے سے دیکھنا بھی شامل ہے۔ شہر میں پہلے کئی بڑے قبرستان ہوا کرتے تھے لیکن اب وہ بھر چکے ہیں۔ وادی حسین قبرستان کراچی کے مضافات میں واقع ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی بھی وہاں کس بھی وقت جاسکے، اسی وجہ سے وہاں ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کیمرے اور سولر لائٹیں لگائی گئی ہیں جس کی مدد سے لوگ اپنے پیاروں کی قبروں کو دیکھ سکتے ہیں۔‘
بھلے اس کے نتائج مثبت ہوں یا منفی لیکن ہماری زندگی میں باقی چیزوں کی طرح مذہبی تقاریب بھی ٹیکنالوجی سے دُور نہیں رہ سکتیں۔
یہ مضمون 15 اگست 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں