افغانستان میں پھنسے صحافیوں کی مدد کیلئے پاکستان کی ویزا پالیسی میں نرمی
پاکستان نے افغانستان میں سیکیورٹی کی ابتر ہوتی صورت حال کے پیش نظر صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی مددکے لیے ویزا پالیسی میں نرمی کا اعلان کردیا۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ‘افغانستان میں تبدیل ہوتی صورت حال کے پیش نظر حکومت پاکستان نے افغانستان میں پھنسے صحافیوں اور میڈیا کارکنان کے لیے ویزا پالیسی میں نرمی کا فیصلہ کیا ہے’۔
مزید پڑھیں: طالبان نے ‘شیر ہرات’ کو حراست میں لے لیا، مزید تین صوبائی دارالحکومتوں پر بھی قبضہ
بیان میں کہا گیا کہ جو بین الاقوامی صحافی اور میڈیا کارکنان پاکستان کے راستے افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں، ان سے اپیل ہے کہ وہ پاکستان کے ویزے کے لیے درخواست دیں۔
شیخ رشید نے کہا کہ وزارت داخلہ ان بین الاقوامی صحافیوں اور کارکنان کو ترجیحی بنیادوں پر ویزا جاری کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے ویزا پالیسی میں نرمی کااعلان افغانستان میں کام کرنے والے صحافیوں اور میڈیا کارکنان کے تحفظ کے پیش نظر کیا جارہا ہے۔
پاکستان کی جانب سے صحافیوں کی مدد کے لیے اہم اعلان افغانستان میں مزید اہم شہروں پر طالبان کے قبضے کے بعد کیا گیا جہاں طالبان تیزی سے پیش قدمی کر رہے ہیں اور کابل کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
افغانستان کی صورت حال کے پیش نظر امریکا اور برطانیہ نے اپنے سفارتی عملے اور شہریوں کو نکالنے کے لیے مزید فوجی بھیجنے کا اعلان کردیا ہے۔
طالبان نے افغانستان کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہر قندھار اور ہرات میں قبضہ کرلیا ہے اور ہرات کے مشہور جنگجو کمانڈر اسمٰعیل خان کو گرفتار کرلیا ہے۔
دوسری جانب صوبہ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ میں شدید لڑائی ہوئی اور دو دہائیوں بعد طالبان نے یہاں دوبارہ قبضہ کرلیا جہاں اس دوران سیکڑوں غیرملکی فوجی بھی مارے گئے۔
طالبان نے حالیہ چند روز میں درجن سے زائد صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرلیا اور امریکی فوج کے مکمل انخلا سے محض چند ہفتے قبل ہی افغانستان کے دو تہائی حصے پر قابض ہوگئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کی طالبان سے کابل میں سفارتخانے پر حملہ نہ کرنے کی اپیل
زابل کی صوبائی کونسل کے سربراہ عطا جان حق بیان نے کہا کہ صوبائی دارالحکومت قالات بھی طالبان کے قبضے میں چلا گیا ہے اور عہدیدار علاقے سے باہر جانے کے لیے آرمی بینک کے قریب موجود ہیں۔
افغانستان کے جنوبی صوبے اورزگان سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ مقامی عہدیداروں نے صوبائی دارالحکومت ترینکوت میں ہتھیار ڈال دیے ہیں اور طالبان تیزی سے پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہزاروں شہری بھی خوف کے مارے اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئے ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو ان کے حقوق چھینے جائیں گے اور ان کے ساتھ ظلم ہوگا۔
افغان مسئلے کا حل نکالنے کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا، یورپی ممالک، پاکستان اور متعدد ایشیائی ممالک کے نمائندوں کا اجلاس جاری ہے لیکن بین الافغان مذاکرات تاحال التوا کا شکار ہیں۔
واضح رہے کہ اپریل میں امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ 11 ستمبر تک امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا مکمل ہو جائے گا جس کے ساتھ ہی 20سال تک جاری رہنے والی امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ بھی اختتام پذیر ہو جائے گی۔