پاکستان میں صرف نام کی جمہوریت ہے، حامد میر
لندن: جیو کے آف ایئر ہونے والے شو کیپیٹل ٹاک کے میزبان حامد میر نے ایک انٹرویو کے دوران پاکستان میں آزادی صحافت کے لیے سکڑتی جگہ اور صحافیوں کے لیے بڑھتے ہوئے 'خوف کے ماحول' پر تنقید کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے یہ انٹرویو برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے شو ہارڈ ٹاک کے میزبان اسٹیفن سکر کو اسلام آباد سے دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان میں جمہوریت ہے لیکن کوئی جمہوریت نہیں، پاکستان میں آئین ہے لیکن کوئی آئیں نہیں اور میں پاکستان میں سینسر شپ کی زندہ مثال ہوں'، انہوں نے یہ بات میزبان کے اس سوال کے جواب میں کہی کہ کیا پاکستانی ریاست آزاد صحافت کو خاموش کرارہی ہے۔
انٹرویو میں بی بی سی کے میزبان نے حامد میر کا تعارف ایک ایسے ہائی پروفائل صحافی کے طور پر کرایا جسے سلسلہ وار دھمکیوں کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حامد میر کی متنازع بیان پر معذرت، ’فوج کو بدنام کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا‘
اسٹیفن سکر نے کہا کہ نوے کی دہائی میں حامد میر کو اغوا کر کے تفتیش کی گئی جس کے بعد انہوں نے 2 قاتلانہ حملوں کا سامنا کیا اور صحافیوں کے خلاف دھمکیوں اور حملوں کے بارے میں تقریر کرنے پر جون 2021 سے حامد میر کا کالم اور شو ان کے آجروں نے بند کر رکھا ہے۔
میزبان کا کہنا تھا کہ 'ان (حامد میر) کا کہنا ہے کہ سایہ دار قوتیں جو عوامی نظریہ سے باہر کام کر رہی ہیں پاکستان میں بہت زیادہ طاقت رکھتی ہیں اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اسٹیفن سکر نے حامد میر پر نام لینے کے لیے زور دیا اور پوچھا کہ یہ کون سی قوتیں ہیں جو صحافیوں کو خاموش کروارہی ہیں لیکن حامد میر نے نام لینے سے گریز کیا اس کے بجائے انہوں نے کہا کہ ماضی میں انہوں نے اپنے اوپر حملہ کرنے کے الزام میں ایک انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ کا نام لیا تھا لیکن وہ شخص حملے کی تحقیقات کرنے والے اعلیٰ سطح کے کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوا۔
میزبان نے دریافت کیا کہ کیا صحافیوں بشمول اسد طور پر حملے کے پسِ پردہ انٹیلیجنس ایجنسیز ہیں؟ جس پر حامد میر نے کہا کہ یہ دستاویزی حقائق ہیں اور ریاستی اداروں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں پر بارہا صحافیوں پر حملوں اور اغوا کے الزام لگائے جاتے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: جیو نے حامد میر کو آف ایئر کرنے کے حوالے سے اپنا مؤقف واضح کردیا
اسٹیفن سکر نے حامد میر کی توجہ غداری کے 6 مقدمات کی جانب دلاتے ہوئے یاد دلایا کہ اگر انہیں مجرم قرار دیا گیا تو انہیں عمر قید ہوسکتی ہے۔
اس پر حامد میر نے کہا کہ 'میں عمر قید کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں کیوں کہ اگر وہ مجھے مجرم قرار دیں گے تو پوری دنیا کو معلوم ہوگا کہ پاکستان میں ہو کیا رہا ہے، میں پاکستان میں سینسرشپ کی زندہ مثال ہوں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر کسی کو معلوم ہے کہ حامد میر کے ساتھ کیا ہوا اور اس پر کیوں پابندی لگائی گئی اور ہر کسی کو ان لوگوں کے نام معلوم ہیں جو میں لینا نہیں چاہتا۔
حامد میر نے کہا کہ صحافی پاکستان میں قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں 'اگر صحافی سوال کررہا ہے تو اس کی آواز خاموش کروانے کی کوشش نہ کریں'۔
یہ بھی پڑھیں: حامد میر کے خلاف بغاوت کی کارروائی کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر
اسٹیفن سکر نے پوچھا کہ ایک جانب ایسا لگتا ہے کہ انہیں یقین سے معلوم ہے کہ صحافیوں پر حملے کا کون ذمہ دار ہے اور دوسری جانب وہ واشنگٹن پوسٹ میں آرٹیکل لکھتے ہیں جس میں کسی کا نام نہیں لیا گیا۔
جس پر صحافی نے کہا کہ وہ پیچھے نہیں ہٹ رہے، آرٹیکل گوجرانوالہ میں ان کے خلاف دائر ایک مقدمے کےحوالے سے تھا جس میں ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ سینئر جنرل کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ تو میں واضح کردوں کہ میں نے کبھی کسی کا نام نہیں لیا، میرے خیال میں میرا لہجہ بہت سخت تھا اور شاید کچھ لوگ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے تھے کہ میں پورے ادارے پر الزام لگارہا ہوں، اس لیے میں اپنی پوزیشن واضح کردوں کہ میں پورے ادارے پر الزام نہیں لگارہا تھا صرف کچھ افراد کی بات کررہا تھا جو میڈیا کو آواز خاموش کرانے کی کوشش کررہے تھے۔
بی بی سی کے میزبان نے سوال کیا کہ کیا وہ اپنے آجروں سے مایوس ہوئے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے جس پر حامد میر نے کہا کہ ’جی میں مایوس ہوا لیکن میں صورتحال سمجھ سکتا ہوں‘۔
اسٹیفن سکر نے پوچھا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان ذاتی طور پر انہیں آف ایئر کرانا چاہتے تھے اور اس کی کوشش بھی کی جس پر حامد میر نے کہا کہ ’وزیراعظم مجھ پر پابندی کے براہِ راست ذمہ دار نہیں ہیں، میرے خیال میں وہ مجھے آف ایئر کروانا چاہتے تھے لیکن ماضی کے وزرائے اعظم کی طرح وہ بہت زیادہ طاقتور وزیراعظم نہیں ہیں وہ بے بس ہیں اور میری مدد نہیں کرسکتے‘۔