خپلو شہر: قدرت سے تعلق کی بہترین مثال
فنِ تعمیر کی تدریس سے منسلک ہونے کی وجہ سے میں پائیداری کو ایک تصور، ایک اصول اور ڈیزائن کی ایک حکمتِ علمی کے طور پر اپنے طلبہ کو پڑھاتی ہوں۔ تاہم کراچی میں مجھے ایسی کیس اسٹڈیز اور مثالیں پیش کرنے میں مشکل ہوتی ہے جن سے طلبہ سیکھ سکیں۔
لفظی طور پر پائیداری کا مطلب توازن برقرار رکھنے کی صلاحیت ہے۔ یہ توازن قدرت اور انسان کی بنائی تعمیرات میں بھی ہوسکتا ہے، ثقافت اور معیشت میں یا پھر ماحول اور اقتصادی امور میں بھی ہوسکتا ہے۔ ان تینوں حوالوں سے ہمیں مشرقِ بعید اور مغرب میں کئی مثالیں نظر آتی ہیں لیکن پاکستان کے حوالے سے شہروں میں ایسی مثالیں کم ہی ہیں۔
لیکن مقامی مثالوں کی میری تلاش خپلو کے حالیہ دورے میں کسی حد تک پوری ہوگئی۔ گلگت بلتستان کے گانچھے ڈویژن میں واقع خپلو کو 14ویں صدی کے اواخر میں سید علی ہمدانی نے قراقرم سلسلے کے دامن میں بسایا تھا، سید علی ہمدانی نوربخشی (ایک صوفی سلسلہ) فرقے کے پیروکار تھے۔
یہ وادی ہوشے کے راستے ماشربرم، K6 اور K7 جانے والے ٹریکرز کا آخری پڑاؤ ہوتا ہے۔ خپلو میں مجھے جس چیز نے حیران کیا وہ یہاں موجود قدرت سے ہم آہنگ تعمیرات تھیں۔ اکثر عمارتیں مقامی طور پر دستیاب وسائل اور تعمیرات کی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے ہی تعمیر کی گئی تھیں اور ماحول سے گھلی ملی نظر آرہی تھیں۔
شمالی علاقہ جات کے کسی اور سیاحتی مقام کے برعکس یہاں قدرت کو مسخر کرنے، وسیع و عریض جنگلات کو کاٹنے اور جنگلی نباتات اور حیوانات کو قابو کرنے کی کوئی خواہش نظر نہیں آتی۔ میرے لیے خپلو گلگت بلتستان کے سرد صحرا میں ایک نخلستان تھا جہاں قدرتی مقامات، دریاؤں کی روانی اور مقامی جنگلات کی قدر کی جاتی ہے۔
2 لاکھ آبادی والے اس شہر میں نصف صدی سے زیادہ عرصے سے کوئی جرم نہیں ہوا ہے۔ یہاں جرائم کی شرح صفر ہے۔ میرے نزدیک تو یہ پائیداری کی مثال ہے کیونکہ قدرت بھی خوش ہے اور یہاں کے شہری بھی مطمئن ہیں، یوں شہر کی ساخت اور سماجی اثرات کے درمیان ایک توازن برقرار ہے۔ یہ ’توازن‘ مقامی افراد کی مہمان نوازی میں بھی جھلکتا ہے۔ انجان لوگ بھی ہم سے باتیں کرتے اور ہمیں اپنے گھر آنے کی دعوت دیتے اور پھل پیش کرتے۔ کیا ہم کراچی میں اس کا تصور کرسکتے ہیں؟
ہم نے خپلو کا دورہ جون کے مہینے میں کیا تھا اور ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہاں مختلف موسموں میں مختلف مناظر اور مختلف رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ خزاں کے موسم میں یہاں موجود سفیدے کے درخت زرد ہوجاتے ہیں اور سردیوں میں یہ علاقہ سفید چادر اوڑھ لیتا ہے جبکہ بہار کے موسم کی ابتدا میں یہاں گلابی رنگ نظر آتا ہے۔ یوں ہمیں ہم آہنگی کی ایک اور مثال نظر آتی ہے۔ یہاں کے مقامی گھر بھی قدرتی رنگا رنگی کے عکاس ہوتے ہیں اور ان پر عموماً شوخ رنگ کیے جاتے ہیں۔
فنِ تعمیر اور قدرت میں موجود ہم آہنگی
یہاں کے رہائشی تعمیرات کے لیے عموماً پتھر، کچی مٹی کی اینٹیں، ٹین کی چادریں، لکڑی اور چونے کا لیپ استعمال کرتے ہیں۔ اکثر ان سب چیزوں کو بہت ہی خام انداز میں ایک ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ اس خام حالت اور کھردری سطح کو چھپانے کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا۔ یہاں تعمیرات کے صحیح انداز کو عیاں کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی جاتی۔ درحقیقت مقامی لوگ گھروں کی تعمیر میں موجود بے قاعدگی کو دکھانے میں فخر محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق یہ فطرت میں پائے جانے والے نامیاتی اور قدرتی عناصر کی نمائندگی کرتی ہے۔
شہر کا مجموعی ڈھانچہ بھی نفاست کی کمی کا اظہار کرتا ہے۔ یہاں گاڑیوں کے لیے کوئی چوڑی سڑکیں موجود نہیں ہیں، بلکہ یہاں کی پُرسکون گلیاں زمین کی ساخت اور اونچائی میں ہونے والی تبدلیوں کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی ہیں۔ یہاں کی عمارتیں اس علاقے میں موجود قدرتی آبی ذخائر سے بھی ہم آہنگ ہیں۔ یہاں سیوریج کا کوئی نظام موجود نہیں ہے اور شہر بھر کا سیوریج قدرتی کشش ثقل پر منحصر ہے۔
شاید کوئی یہ سمجھے کہ یہ پُرسکون شہر صوبائی دارالحکومت اسکردو سے دُور ہونے یا دشوار گزار راستوں کی وجہ سے عالمگیریت کے اثرات سے بچا ہوا ہوگا لیکن یہ تاثر اس وقت ٹوٹ جاتا ہے جب آپ کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں شرح خواندگی 90 فیصد ہے۔ میں ایک تقریری مقابلے میں شرکت کے لیے لڑکوں کے ایک سرکاری سیکنڈری اسکول گئی۔ وہاں کے طلبہ نے جس طرح کی گہری معلومات اور اعتماد کا مظاہرہ کیا اس سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ دنیا سے کس قدر جڑے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے کتنی معلومات رکھتے ہیں۔
اسکول کی عمارت ایک بڑے صحن کے گرد تعمیر تھی، وہاں کئی درخت لگے ہوئے تھے۔ اطراف میں اسکول کی مختلف عمارتیں تعمیر تھیں جو زمین کی قدرتی ساخت کو مدِنظر رکھتے ہوئے تعمیر کی گئی تھیں۔ وہ تمام عمارتیں مقامی طور پر دستیاب پتھروں سے تعمیر شدہ تھیں، ان کی صرف ایک ہی منزل تھی اور علاقے میں ہونے والی برف باری کی وجہ سے ان کی چھتوں میں ایک جانب ڈھلوان تھی۔ اسکول کی عمارت میں استعمال ہونے والے سامان کی وجہ سے اس میں ایک قدرتی خوبصورتی نظر آرہی تھی اور اس کی مرمت بھی آسان تھی۔
جنت کا باغ
ایک سیاحتی مقام ہونے کی وجہ سے خپلو اپنے قلعے اور 800 سال پرانی چقچن مسجد کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ دونوں تعمیرات قدرت کو مسخر کرنے کے بجائے اس کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی خواہش کا اظہار ہیں۔
ان دونوں تعمیرات میں استعمال ہونے والا سامان انہیں ماحول سے الگ تھلگ کرنے کے بجائے علاقے کے قدرتی ماحول کا حصہ بنا دیتا ہے۔ یہاں تک کے 2005ء میں آغا خان کلچرل سروس کے تحت شروع کیے جانے والے خپلو قلعے کی بحالی کے منصوبے میں بھی اس بات کا خیال رکھا گیا کہ بحالی کے کام میں قدرتی اشیا ہی استعمال کی جائیں۔
برطانوی سیاحوں کی تاریخی یادداشتوں میں اسے ’مقامی پہاڑوں کا قلعہ‘ کہا گیا جبکہ خپلو کو ’جنت کا باغ‘ اور ’خطے کا سب سے خوبصورت نخلستان‘ کہا گیا ہے۔ یہاں سے گزرنے والا دریائے شیوک اس کی خوبصورتی میں مزید اضافے کا سبب بنتا ہے۔ دریا کے کنارے بنے اکثر گھر اب ریسٹ ہاؤس اور ہوٹلوں میں تبدیل ہوچکے ہیں، یہ اس ریسٹ ہاؤس کی طرح ہی ہیں جس میں ہم ٹھہرے ہوئے تھے۔
خپلو کا قلعہ
خپلو کا قلعہ 19ویں صدی میں ایک بالکل ہموار زمین پر تعمیر ہوا، اس کے قریب ہی ایک اور قلعہ بھی واقع تھا جو ایک پہاڑی پر تعمیر کیا گیا تھا۔ پتھر اور لکڑی سے بنا یہ قلعہ مستطیل شکل کا ہے۔ قلعے کے سامنے کی جانب ایک تین منزلہ بالکنی موجود ہے جو لکڑی سے بنی ہے۔ یہاں مختلف طرح کے نقش و نگار تراشے گئے ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تبتی، فارسی اور کشمیری روایات کے حامل ہیں۔
تراشی ہوئی لکڑی کے ستون، چھتے ہوئے برآمدے اور لکڑی کی جافریاں بھی قلعہ کی آرائش میں اضافہ کرتی ہیں۔ یہ چیزیں اس بات کا اظہار ہے کہ اس قلعے کی تعمیر میں مقامی مزدوروں نے حصہ لیا تھا ساتھ ہی یہ مقامی اشرافیہ اور مزدور طبقہ کے درمیان موجود تعلق کا بھی مظہر ہے۔
ہاتھ سے کی گئی اس سجاوٹ اور یہاں کے دروازوں اور کھڑکیوں کو بحال شدہ شکل میں برقرار رکھا گیا ہے۔ کمروں کی نیچی چھتیں ایک طرح سے عاجزی کا احساس دلاتی ہیں قلعے میں موجود کمروں خاص طور پر بالائی منزلوں کے کمروں جو اشرافیہ کے زیرِ استعمال تھے، وہاں داخل ہونے کے لیے کسی حد تک جھکنا پڑتا ہے۔
اس وقت قلعے میں یابگو خاندان کی اولادیں رہتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ قلعے کے لیے جگہ کا انتخاب اس بنیاد پر کیا گیا تھا کہ پہاڑ سے لڑھکنے والا پتھر کہاں پر آکر رکتا ہے۔ تعمیرات کے لیے زمین منتخب کرنے کی اس تکنیک سے مجھے زمین کے انتخاب کا فینگ شوئی طریقہ یاد آگیا۔ اس طریقے میں بھی عمارت کے مختلف کمروں کی تعمیر کے وقت قدرتی ماحول کو مدِنظر رکھا جاتا تھا۔ مزید تحقیق کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ یابگو حکمرانوں کا تعلق دراصل چینی ترکستان سے ہے جسے آج سنکیانگ ریاست کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے یہ بھی قدرت کا اس قدر احترام کرتے ہیں۔
قلعے کے اندر ایک باغ بھی موجود ہے اور رہائشی کمرے مرکزی چار منزلہ عمارت میں ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹور، باورچی خانے اور اسطبل جیسی عمارتیں بھی موجود ہیں۔ مرکزی باغ کا نقشہ مغل چہار باغ جیسا ہے اور چھوٹے باغیچوں میں تالابوں اور فواروں کی صورت میں پانی کا بہت استعمال کیا گیا ہے۔
چقچن مسجد
چقچن مسجد کی تعمیر سید علی ہمدانی سے منسوب ہے۔ انہوں نے اس علاقے میں سب سے پہلے اسلام کی تبلیغ کی تھی۔ وہ 14ویں صدی کے اواخر میں خپلو آئے تھے۔ سیڑھیاں چڑھ کر مسجد کے مرکزی ہال تک پہنچا جاسکتا ہے جس کی سجاوٹ کے لیے لکڑی پر نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پورے گلگت بلتستان میں یہ باقی رہ جانے والی سب سے پرانی عمارت ہے۔ یہاں ایک آستانہ بھی موجود ہے اور اس مسجد کی بحالی کا کام بھی آغا خان ٹرسٹ فار کلچر، پاکستان نے کیا ہے۔
میں نے اس مسجد کے حوالے سے ایک خاص بات یہ محسوس کی اور وہ یہ کہ بحیثیت ایک عورت میرے مسجد میں داخلے اور نماز پڑھنے پر کسی نے اعتراض نہیں کیا خاص طور پر اس وقت جب مقامی نمازیوں کے نماز پڑھنے کا وقت تھا۔
مقامی افراد کا یہ رویہ اور برداشت خپلو کی سڑکوں پر بھی دیکھنے کو ملا جہاں مقامی افراد نے مسکراہٹوں سے ہمارا استقبال کیا اور یوں ہی ہم سے باتیں کیں۔ اس مقام کا یہ توازن معاشرتی استحکام کی وجہ بنتا ہے جو ’پائیداری‘ کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لانے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ایک عمومی برابری کی بھی وجہ بنتا ہے۔
ہم نے خپلو کے قلعے کے نزدیک واقع اسپورٹس گراؤنڈ کا بھی دورہ کیا، اگرچہ وہ پولو گراؤنڈ کے نام سے مشہور ہے تاہم وہاں کئی دیگر کھیلوں کا بھی انعقاد ہوتا ہے۔ ہمارے ڈرائیور نے ہمیں بتایا کہ موسم کے بدلنے کے ساتھ یہاں کھیل بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یہاں کبھی پولو، کبھی فٹبال اور کبھی کرکٹ کھیلی جاتی ہے تو کبھی اسکینگ کی جاتی ہے۔ یہاں کئی کھلاڑی اور تماشائی رہتے ہیں اور موسم کے ساتھ جیسے جیسے اس علاقے کا منظر تبدیل ہوتا ہے ویسے ویسے اس میدان کا منظر بھی تبدیل ہوجاتا ہے اور یوں ہمارے سامنے قدرت سے ایک اور تعلق سامنے آتا ہے۔
یہ مضمون 08 اگست 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں