کمشنر نے رنگ روڈ منصوبے کیلئے ’لینڈ ایکوزیشن‘ منسوخ کردی
راولپنڈی: کمشنر سید گلزار حسین شاہ نے راولپنڈی اور اٹک میں راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کی تعمیر کے لیے اراضی کے حصول (لینڈ ایکوزیشن) کو منسوخ کردیا اور ضلعی انتظامیہ سے زمینداروں کو ادا کیے گیے 2 ارب 45 کروڑ روپے کی وصولی کے لیے ٹیمیں بنانے کی ہدایت کردیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رنگ روڈ منصوبے میں بدعنوانی کا الزام زمین کے حصول کو منسوخ کرنے کا باعث بنا۔
مزید پڑھیں: راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل کی نئی تحقیقات کا حکم
صوبائی حکومت کی اعلیٰ ترین سطح پر کی گئی انکوائری سے یہ بات سامنے آئی کہ رنگ روڈ کے اصل منصوبے میں تبدیلیاں کی گئی ہیں تاکہ سڑک کے نئے انفرا اسٹرکچر بنائے جائیں جن کا مقصد مبینہ طور پر بعض پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز کو فائدہ پہنچانا تھا جس سے منصوبے کی لاگت میں 25 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
جب تنازع مزید بڑھا تو وزیراعظم کے معاون خصوصی سید ذوالفقار بخاری نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جبکہ وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے بدعنوانی کے الزامات کو مسترد کردیا اور الزامات ثابت ہونے پر سیاست چھوڑنے کا دعویٰ کیا۔
پنجاب حکومت نے اس منصوبے کا پی سی ون بنایا اور اسے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی بجائے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے پنجاب پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ بورڈ کو منظوری کے لیے بھیجا گیا۔
دوسری جانب پنجاب کی آڈٹ ٹیم نے نشاندہی کی کہ اس منصوبے میں زمین حاصل کرنے کے لیے اراضی کے مالکان میں 2.4 ارب روپے تقسیم کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: رنگ روڈ اسکینڈل: وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری مستعفی
کمشنر سید گلزار حسین شاہ نے اپنے حکم میں کہا کہ لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894 کے سیکشن 48 (1) کے تحت راولپنڈی اور اٹک اضلاع میں اراضی کے حصول کے لیے مالکان کو ادا کی گئی رقم واپس لی جائے گی۔
انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ کمشنر نے انتظامیہ سے کہا تھا کہ وہ زمینداروں سے پیسے کی وصولی کے لیے کام شروع کرے اور اس سلسلے میں ٹیمیں تشکیل دیں۔
انہوں نے کہا کہ راولپنڈی ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے کہا گیا تھا کہ وہ انتظامیہ کو ادائیگی کا ریکارڈ فراہم کرے، اسکینڈل کے بعد اعداد و شمار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے بچنے کے لیے ریکارڈ کو سیل کردیا گیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ لیکن رقم کی وصولی کے لیے پنجاب بورڈ آف ریونیو کو پہلے زمین کے حصول کو ڈی نوٹیفائی کرنا چاہیے کیونکہ وہ پہلے ہی گزٹ میں مطلع کر چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک طویل عمل تھا اور اس بات کے امکانات تھے کہ اگر انتظامیہ پیسے واپس لینے کے لیے منتقل ہوئی تو زمیندار عدالتوں میں جائیں گے۔
مزیدپڑھیں: رنگ روڈ اسکینڈل: زلفی بخاری نے کمشنر راولپنڈی کو ہتک عزت کا نوٹس بھیج دیا
انہوں نے کہا کہ زیادہ تر لوگوں نے پہلے ہی نئی کاروں یا پلاٹوں کی خریداری پر پیسہ استعمال کیا تھا۔
11 ہزار 300 کنال اراضی کے لیے 2 ارب 43 کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی تھی جس میں راولپنڈی میں 6 ہزار 600 کنال اور اٹک میں 4 ہزار 700 کنال زمین شامل ہے۔
انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ یہ رقم راولپنڈی کے ایک ہزار 100 اور اٹک میں 500 زمینداروں کو دی گئی۔
ڈپٹی کمشنر عامر عقیق خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تسلیم کیا کہ ضلعی انتظامیہ کو احکامات مل گئے ہیں اور رقم واپس لینے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر محکمہ مال کی ٹیموں کی مدد سے زمینداروں سے رقم کی وصولی کا عمل شروع کرے گا۔