• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
—تصویر بشکریہ: سویپرز آر سپر ہیروز

خاک میں رہنے والے 'خاکروب'

پاکستان کے تمام چھوٹے اور بڑے شہروں میں خاکروبی اور صفائی کے شعبے سے 80 فیصد غیر مسلم لوگ وابستہ ہیں۔
شائع August 3, 2021 اپ ڈیٹ August 4, 2021

خالد روزانہ جن راستوں سے گزر کر دفتر پہنچتے ہیں، انہی راستوں پر ان سے کم عمر لڑکے یا بزرگ افراد لوگوں کی پھیلائی ہوئی گندگی اور غلاظت کو صاف کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

خالد پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے مصروف ترین کاروباری علاقے صدر کے صرافہ بازار کو پار کرکے زیب النسا اسٹریٹ سے ہوتے ہوئے آئی آئی چندریگر روڈ پر اپنے دفتر پہنچتے ہیں مگر انہوں نے کبھی راستے میں رک کر سڑکوں کو صاف کرنے والے خاکروبوں سے ان کی آپ بیتی نہیں پوچھی۔

خالد جس سڑک کو پار کرکے دفتر پہنچتے ہیں، 42 سالہ اکرم مسیح دو کم سن لڑکوں کے ساتھ اسی سڑک کے گٹروں کو یومیہ بنیادوں پر صاف کرکے ان سے سونے کے ذرات نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وہ اپنے دو کم سن ساتھیوں کے ہمراہ صرافہ مارکیٹ کی حدود میں آنے والے تقریباً تمام گٹروں پر نظر رکھتے ہیں اور انہیں یومیہ نصف درجن تک گٹر بھی صاف کرنے پڑتے ہیں۔

انہیں صرافہ مارکیٹ میں کام کرتے ہوئے تقریباً دو دہائیاں ہو چکی ہیں اور گزرتی عمر کے ساتھ اب وہ کمزور ہونے لگے ہیں، اس لیے انہوں نے اپنی ہی برادری کے دو جوان جسم اپنے ساتھ کام کے لیے رکھے ہیں۔

اکرم اور ان کے دو کم سن ساتھی زیب النسا اسٹریٹ کے دونوں جانب واقع جیولری شاپس پر مشتمل صرافہ بازار کی حدود میں آنے والے نہ صرف گٹر صاف کرتے ہیں بلکہ وہ اسی علاقے کی تمام سڑکوں اور گلیوں کو بھی ساتھیوں کے تعاون سے صاف کرکے مٹی سے سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں کے ذرات نکالتے ہیں۔

اکرم اور ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ انہیں جیولری شاپس مالکان تنخواہ نہیں دیتے بلکہ انہیں صرف گٹروں کو صاف کرکے بہہ جانے والے سونے کے ذرات نکالنے کے عوض کام دیا گیا ہے، البتہ بعض دکاندار انہیں مرضی سے کچھ نہ کچھ رقم دے دیتے ہیں۔

ان کے مطابق جیولری شاپس میں زیورات کی دھلائی یا دیگر پروسیس کے وقت بعض اوقات ذرات یا سونے کی انتہائی کم مقدار پانی یا کیمیکل کے ساتھ بہہ جاتی ہے، جنہیں وہ گٹروں میں تلاش کرتے ہیں۔

ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ جب بھی کسی دکاندار کا سونا، چاندی یا دیگر قیمتی دھات بہہ جاتی ہے تو وہ انہیں آگاہ کرتے ہیں اور پھر وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اسی دکان کی لائن سے منسلک تمام گٹروں کو کھنگال کر زیورات کے ذرات نکالتے ہیں۔

اکرم 20 سال سے کراچی کے علاقے صدر کے صرافہ بازار میں کام کرتے آ رہے ہیں—فوٹو" لکھاری
اکرم 20 سال سے کراچی کے علاقے صدر کے صرافہ بازار میں کام کرتے آ رہے ہیں—فوٹو" لکھاری

اکرم اور ان کے ساتھی گٹروں کے اندر جاکر گندے پانی کو برتنوں میں نکال کر انہیں ایسے چھانتے ہیں جیسے کوئی گھریلو خاتون دال یا چاول سے کنکریاں نکالتی ہے۔

گٹروں اور غلاظت سے بھرے پانی سے پھونک پھونک کر سونا نکالنے کے عوض انہیں یومیہ فی کس ایک ہزار سے 1500 روپے تک آمدنی ہوتی ہے مگر کبھی کبھار ان کا چھکا بھی لگ جاتا ہے اور ان کی فی کس یومیہ آمدنی 10 ہزار روپے تک بھی چلی جاتی ہے مگر ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے آباؤ و اجداد بھی یہی کام کرتے تھے اور گزشتہ 50 سال میں ان کے کسی بھی رشتے دار یا ساتھی کی گٹر صاف کرنے کے دوران موت نہیں ہوئی۔

اکرم کے دو کمسن ساتھیوں میں سے بڑے ساتھی کی عمر 18 سال تک ہے جب کہ ان کا دوسرا ساتھی اس سے کم عمرہے اور ان سب کو یہ علم تک نہیں کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور انہیں حکومت سے کیا مانگنا چاہیے؟

انہوں نے کہا کہ وہ حکومت سے کچھ نہیں چاہتے، انہیں حکومت کیوں کوئی چیز دے؟ بس ان کا ایک ہی شکوہ تھا کہ انہیں سڑکوں پر گٹر صاف کرنے کے دوران پولیس تنگ نہ کرے اور ان سے گٹروں کو کھودنے کے الزام میں پیسے نہ بٹورے۔

جہاں اکرم گٹر کے پانی کو قیمتی چیز سمجھ کر ان سے زیورات کے ذرات نکالنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں، اسی سے دو گلیوں کے فاصلے پر 65 سالہ لچھمن بھی سڑکوں اور چوراہوں کو صاف کرتے ہیں۔

لچھمن کے 4 بیٹے ہیں جو ان کی طرح ماہانہ 15 سے 17 ہزار روپے کی اجرت پر یومیہ 12 گھنٹے کام کرتے ہیں۔

لچھمن اور ان کی بیوی دونوں صدر کی گلیوں کو صاف کرتے ہیں اور انہیں بھی یہ احساس تک نہیں کہ ان کے کیا حقوق ہیں اور وہ حکومت سے کس طرح کے مطالبات کر سکتے ہیں؟

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بڑی مشکلوں سے ایک بیٹے کو درزی بنایا مگر گزشتہ ڈیڑھ سال سے گاہے بگاہے کورونا کی وجہ سے نافذ ہونے والے لاک ڈاؤن نے بھی ان کے بیٹے کو ان کی طرح گلیاں اور سڑکیں صاف کرنے پر مجبور کردیا۔

لچھمن حفاظتی لباس کے بغیر صدر کی سڑکوں کو صاف کرتے ہیں، وہ اور ان کی عمر رسیدہ اہلیہ ضلع جنوبی کے لیے یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔

لچھمن اور ان کی اہلیہ ٹھیکیداری سسٹم کے تحت کام کرتے ہیں اور انہیں دیہاڑی کے حساب سے ماہانہ 17 ہزار روپے تک ملتے ہیں لیکن اگر وہ کسی بھی مسئلے کی وجہ سے کچھ دن کام پر نہیں جا پاتے تو ان کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔

حفاظتی آلات کے بغیر کورونا کی وبا میں کام کرنے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر لچھمن نے بتایا کہ شکر ہے کہ انہیں کورونا نہیں ہوا اور ساتھ ہی انہوں نے حیران کن دعویٰ کیا کہ ان سمیت ان کے اہل خانہ اور رشتے داروں کو کبھی کوئی بڑی بیماری نہیں ہوئی، البتہ کبھی کبھی ہلکا بخار ہوجانے پر وہ میڈیکل اسٹور سے دوا خرید کر ایک دو دن آرام کرتے ہیں مگر آج تک کبھی ڈاکٹر کے پاس نہیں گئے۔

لچھمن کی طرح حفاظتی آلات کے بغیر کام کرنے والوں میں 30 سالہ شہباز بھی ہیں، تاہم خوش قسمتی سے انہیں بھی کورونا نہیں ہوا۔

شہباز ایک نجی دفتر میں صفائی کا کام کرتے ہیں، وہ کم عمری سے ہی یہی کام کر رہے ہیں اور ان کے خاندان کے تقریباً تمام افراد اسی پیشے وابستہ ہیں۔

کرائے کے گھر پر رہنے والے شہباز کے مطابق ان کے بھائی اور والد سمیت ان کے چچا اور کزن بھی اسی پیشے سے وابستہ ہیں اور تمام مجبوری کےتحت ٹھیکیداری سسٹم میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔

شہباز کے مطابق کورونا کے لاک ڈاؤن کے دوران جب ان کے دفتر کے تقریباً 70 فیصد لوگ گھر چلے گئےتھے، تب بھی وہ دفتر آکر کام کرتے تھے اور اسی دوران ان کے ساتھ کام کرنے والے بعض سوئپرز کو ملازمت سے بھی نکال دیا گیا۔

شہباز کے خاندان کے نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی صفائی کا کام کرتی ہیں، جن میں سے بعض نجی دفاتر اور کچھ گھروں میں کام کرتی ہیں۔

شہباز اور لچھمن جیسے لاکھوں افراد پاکستان میں نجی و سرکاری دفاتر سمیت گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کرتے ہیں، محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر طرح کے سینیٹری ورکرز، سوئپرز، کلینرز، سیور مینز اور گھروں میں صفائی و ستھرائی کا کام کرنے والے ورکرز کی تعداد 15 لاکھ تک ہے۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ہوم بیسڈ اور فارمل جاب کرنے والے ورکرز کی تعداد 12 لاکھ تک ہے۔

پاکستان بھر میں گٹروں اور سڑکوں کی صفائی سمیت انڈسٹریز اور دفاتر میں واش رومز کی صفائی پر مامور افراد میں سے 80 فیصد لوگ غیر مسلم ہیں اور ایسا کام کرنے والوں میں مسیحی اور ہندوؤں کی اکثریت ہے، تاہم یہی کام مسلمان بھی کرتے ہیں۔

ملک کے دیگر صوبوں کی طرح سندھ میں بھی مسلمان سینیٹری ورکرز بھرتی کیے گئے ہیں اور بڑے شہروں کے مقابلے میں عام طور پر چھوٹے شہروں میں زیادہ تر مسلمان خاکروب ہیں۔

سندھ کے چھوٹے اور درمیانے شہروں میں اوسطًا 30 سے 50 کے درمیان سینیٹری ورکرزہیں جن میں سے نصف تعداد مسلمانوں کی ہوتی ہے اور سب کے سب خاکروب مذہبی تفریق کے بغیر لوگوں کی تضحیک کا شکار بنتے ہیں۔

لوگوں کے ناروا سلوک کا نشانہ بننے والے خاکروبوں میں سندھ کے شہر دادو کے 70 سالہ محمد مٹھل بھی ہیں۔

مٹھل کے مطابق لوگ ان سے کسی قسم کا میل جول نہیں رکھنا چاہتے—فوٹو: انڈیپینڈنٹ اردو
مٹھل کے مطابق لوگ ان سے کسی قسم کا میل جول نہیں رکھنا چاہتے—فوٹو: انڈیپینڈنٹ اردو

محمد مٹھل شیخ کے مطابق ان سمیت تمام مسلمان سینیٹری ورکرز کو عام لوگ اپنی شادیوں سمیت دیگر اہم تقاریب میں شرکت کی دعوت تک نہیں دیتے۔

جہاں سینیٹری ورکرز لوگوں کے ناروا رویوں کا شکار رہتے ہیں، وہیں یہ لوگ گندگی میں کام کرنے سے کئی ذہنی و جسمانی بیماریوں کا شکار بھی رہتے ہیں۔

حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں 20 سال سے سینیٹری ورکر کے طور پر کام کرنے والے زاہد سہوترا کے مطابق خاکروب مختلف بیماریوں کا شکار رہتے ہیں اور خاص طور پر غیر مسلم سینیٹری ورکرز زیادہ نشانہ بنتے ہیں کیونکہ وہ گٹر اور نالوں کی صفائی کا کام زیادہ کرتے ہیں۔

ان کے مطابق سیاسی بنیادوں پر سیکڑوں گھوسٹ ملازمین بھرتی کیے گئے ہیں جن کے کام نہ کرنے کی وجہ سے ان جیسے افراد پر دباؤ پڑتا ہے اور وہ دن رات کام کرکے سانس کی بیماریوں سمیت دیگر اعصابی امراض کا شکار بن رہے ہیں۔

مسلمان خاکروبوں کی جانب سے کام کرنے سے انکار کے حوالے سے ہی سپریم کورٹ نے 2018 میں کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) کو حکم دیا تھا کہ تمام مسلمان سینیٹری ورکرز کو ملازمت سے فارغ کیا جائے۔

اس وقت ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن (ڈی ایم سی) سینٹرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان کے پاس 1200 سینٹری ورکرز ہیں، جن میں سے 200 ورکرز مسلمان ہیں اور عدالت نے مذکورہ تمام ملازمین کو فارغ کرنے کا حکم دیا تھا۔

اگرچہ عدالت نے کام نہ کرنے والے خاکروبوں کا برطرف کرنے کا حکم دیا تھا، تاہم اب بھی کراچی سمیت صوبے بھر میں صفائی و ستھرائی کے کاموں پر تقریباً 20 فیصد تک مسلمان ملازمین مامور ہیں۔

منی پاکستان کہلانے والے کراچی میں اس وقت اندازاً 25 ہزار کے قریب سینیٹری ورکرز اور سوئپرز کام کر ہے ہیں، جن میں سے 80 فیصد تک غیر مسلم ہیں۔

اب کراچی میں کچرہ اٹھانے والی گاڑیوں کی تعداد کافی بڑھ چکی ہے—فوٹو: ذوفین ابراہیم/ ڈان
اب کراچی میں کچرہ اٹھانے والی گاڑیوں کی تعداد کافی بڑھ چکی ہے—فوٹو: ذوفین ابراہیم/ ڈان

کراچی میں 6 اضلاع کی انتظامیہ سمیت سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ، میٹروپولیٹین کارپوریشن کے علاوہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے 19 مختلف ادارے اور 6 آرمی کنٹونمنٹ بورڈز صفائی کے انتظامات دیکھتے ہیں جب کہ ہسپتالوں، انڈسٹریز، تعلیمی اداروں، نجی کمپنیوں، ہوٹلز، دکانوں، مارکیٹوں، شاپنگ مالز، رہائشی عمارتوں اور گلی محلوں میں بھی نجی سطح پر سینیٹری ورکرز اور سوئپرز کام کرتے ہیں جن کی تعداد سرکاری اداروں کے ورکرز سے بہت زیادہ ہوگی۔

سینیٹری ورکرز اور سوئپرز کے تازہ اعداد و شمار دستیاب نہ ہونے کی وجہ ان کی درست تعداد نہیں ہوسکی، تاہم 2015 تک کراچی میں صرف سینیٹری ورکرز کی تعداد 19 ہزار تک تھی۔

محقق سارہ سنگھا کی دلت کرسچینز اینڈ کاسٹ کانشیئس نیس ان پاکستان (Dalit Christians and Caste Consciousness in Pakistan) نامی تحقیقی رپورٹ کے مطابق 2015 میں کے ایم سی) کے ماتحت تمام ٹاؤنز اور اداروں میں 19 ہزار سینیٹری ورکرز کام کر رہے تھے، جن میں سے 80 فیصد مسیحی تھے۔

مذکورہ تحقیقی مقالے کے مطابق لاہور میں سینیٹری ورکرز کی تعداد 8 ہزار کے قریب تھی اور وہاں بھی 80 فیصد خاکروب مسیحی تھے۔

دارالحکومت اسلام آباد میں 6 سال قبل سینیٹری ورکز کی تعداد 1500 تک تھی جب کہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک ہزار سے بھی کم سینیٹری ورکرز تھے جن میں سے محض 111 ورکرز مسلمان تھے۔

اسی رپورٹ میں بتایا گیا گیا تھا کہ پاکستان میں جہاں 80 فیصد سینیٹری ورکرز کا تعلق مسیحی اور ہندو برادری سے تھا، وہیں حیران کن طور پر دونوں برادریوں کی نچلی ذات کے افراد مذکورہ کام سر انجام دے رہے تھے۔

عام طور پر چہڑا قبیلے سے تعلق رکھنے والے مسیحی اور دلت قبیلے سے تعلق رکھنے والے ہندو افراد پاکستان میں سینٹری ورکرز اور سوئپرز کا کام سرانجام دیتے ہیں، تاہم بھیل اور میگھواڑ قبیلے کے ہندو بھی یہی کام سر انجام دیتے ہیں۔

مذکورہ مقالے کے مطابق حفاظتی آلات کی عدم دستیابی کے باعث پاکستان بھر میں 1998 سے 2007 تک 70 سیورمین گٹروں کو صاف کرنے کے دوران حادثاتی طور پر انتقال کرگئے۔

یونیورسٹی آف گجرات، فیصل آباد اور لاہور یونیورسٹیز کے 11 محقیقن کی جانب سے 2015 میں ہی پاکستان کے 8 بڑے شہروں میں گندگی اور ویسٹ منیجمنٹ کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق ملک کے بڑے شہروں میں ہر دو ہزار افراد کے لیے محض تین سینیٹری ورکرز دستیاب ہیں۔

منیجمنٹ آف میونسپل سولڈ ویسٹ جنریٹڈ (Management of municipal solid waste generated) کے نام سے طویل تحقیق میں کراچی، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان، فیصل آباد، گوجرانوالہ، کھاریاں اور لالہ موسیٰ میں ویسٹ منیجمنٹ کے اعداد و شمار سامنے لائے گئے تھے۔

تحقیق میں بتایا تھا کہ 2015 تک کراچی میں یومیہ 8 ہزار کچرا پیدا ہوتا تھا، جس کو ٹھکانے لگانے کے لیے 11 ہزار 200 سینٹری ورکرز شہر کے تمام ٹاؤنز اور ویسٹ منیجمنٹ اداروں میں خدمات سر انجام دے رہے تھے۔

سندھ کے دارالحکومت کراچی میں اب 13 ہزار ٹن تک کچرا ہوتا ہے—فوٹو: ذوفین ابراہیم/ ڈان
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں اب 13 ہزار ٹن تک کچرا ہوتا ہے—فوٹو: ذوفین ابراہیم/ ڈان

رپورٹ کے مطابق کراچی میں کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے 6 سال قبل 4080 کے قریب کچرا کنڈیاں تھیں اورشہر میں 567 گاڑیاں کچرے کو ڈمپ اسٹیشن تک پہنچانے کا کام سر انجام دے رہی تھیں۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق 2015 تک ملتان میں 4500 سینیٹری ورکرز اور 200 گاڑیاں کام کر رہی تھیں، فیصل آباد میں 3200، کھاریاں میں محض 92، راولپنڈی میں 4 ہزار، لالہ موسیٰ میں محض 15، لاہور میں 5500 اور گوجرانوالہ میں 1130 سینیٹری ورکرز خدمات سر انجام دے رہے تھے۔

اگرچہ بعض اداروں اور تحقیقی رپورٹس میں کراچی میں سینیٹری ورکرز کی تعداد 2015 تک 12 سے 19 ہزار تک بتائی گئی ہے، تاہم گزشتہ 6 سال میں ان کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

سندھ میں سینیٹری ورکرز کی تعداد کے حوالے سے جب محکمہ بلدیات کے وزیر سید ناصر حسین شاہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کے باوجود فون نہیں اٹھایا جب کہ ان کے ترجمان فدا حسین بالادی بھی وعدے کے باوجود اعداد و شمار فراہم نہیں کرسکے۔

وزیر بلدیات اور ان کے ترجمان سے نہ صرف اعداد و شمار مانگے گئے تھے بلکہ ان سے سینیٹری ورکرز کی تنخواہوں اور سوشل سیکیورٹی سے متعلق بھی سوالات کیے گئے تھے مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

خاکروبوں کی سوشل سیکیوٹی اور انہیں لوگوں کے ناروا سلوک سے بچانے کے حوالے سے سید ناصر حسین شاہ نے گزشتہ برس جنوری میں کراچی کے نجی ہوٹل میں ہونے والی ایک کانفرنس میں کہا تھا کہ ان کی وزارت نے سندھ حکومت کو سینیٹری ورکرز کے عہدوں کے نام تبدیل کرکے انہیں ہیلتھ ورکر یا ہیلتھ ہیلپر کے نام دینے کی تجویز بھی دی ہے جب کہ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ سالوں سے کنٹریکٹ یا یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ان ورکرز کو آج تک ریگولر نہیں کیا گیا اور جب ریگولر ملازمین کو بھرتی کرنے کی باری آتی ہے تو پرانے لوگوں کو نظر انداز کرکے نئی بھرتیاں کی جاتی ہیں۔

سالہا سال سے کام کرنے والے خاکروبوں کو ریگولر نہ کرنے اور انہیں انتہائی کم اجرت پر 12 سے 16 گھنٹے تک کام کرنے پر مجبور کرنے کے حوالے سے سماجی رہنما پربھو ستیانی نے بتایا کہ سینیٹری ورکرز کسی بھی سوشل سیکیورٹی کے بغیر انتہائی کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔

پربھو ستیانی نے 2019 میں سندھ میں سینیٹری ورکرز کی حالت زار پر ایک فلاحی منصوبے پر کام کیا تھا اور اس دوران انہوں نے حیدرآباد سمیت دیگر شہروں میں خاکروبوں کو حفاظتی لباس اور آلات فراہم کرنے سمیت انہیں سوشل سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے کئی سیمینارز بھی منعقد کرائے تھے۔

اسی حوالے سے سینٹر فار لا اینڈ جسٹس (سی ایل جے) کے تحت چلنے والے پروجیکٹ سوئپر آر سپر ہیروز کی شیم اینڈ اسٹگما ان سینیٹیشن (Shame and Stigma in Sanitation) نامی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خاکروبی پیشے سے وابستہ افراد سماجی تضحیک کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ ہیلتھ اور سوشل سیکیورٹی کی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔

پربھو ستیانی نے 2019 اور 2020 میں خاکروبوں کی بہتری کے منصوبے پر کام کیا تھا—فوٹو: فیس بک
پربھو ستیانی نے 2019 اور 2020 میں خاکروبوں کی بہتری کے منصوبے پر کام کیا تھا—فوٹو: فیس بک

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تضحیکی رویوں اور انتہائی کم اجرت کے باوجود حفاظتی لباس اور آلات کے بغیر لوگوں کی غلاظت اور گندگی کو صاف کرنے والے خاکروب عام طور پر سانس اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور انہیں کوئی ہیلتھ انشورنس بھی نہیں دی جاتی۔

رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں 1988 سے 2012 تک 70 سینیٹری ورکرز اور سیورمین کام کے دوران ہلاک ہوئے جب کہ 2011 سے 2019 تک پاکستان بھر میں بند گٹروں کو کھولنے کی کوشش کے دوران بھی 16 گٹرمین ہلاک ہوئے جن میں سے 8 پنجاب، 7 سندھ اور ایک اور اسلام آباد میں چل بسا۔

عرفان2017 میں گٹر کھولنے کے دوران بے ہوشی کے بعد چل بسے تھے—فائل فوٹو: فیس بک
عرفان2017 میں گٹر کھولنے کے دوران بے ہوشی کے بعد چل بسے تھے—فائل فوٹو: فیس بک

بند گٹر کو کھولنے کی کوشش کے دوران زندگی کی بازی ہارنے والے سپر ہیروز میں عمرکوٹ کے 29 عرفان مسیح بھی تھے جو 2017 میں چل بسے اور ان کی موت نے عالمی ضمیر کو بھی جنجھوڑا۔

عرفان مسیح بند گٹر کو کھولنے کے دوران بے ہوش ہوگئے تھے۔ جس کے بعد انہیں فوری طور پر مقامی ہسپتال پہنچایا گیا مگر وہاں بر وقت طبی امداد نہ ملنے اور ڈاکٹرز کی مبینہ غفلت کے باعث چل بسے۔

عرفان مسیح کی موت نے نہ صرف سندھ اور پاکستان بلکہ پوری دنیا کے میڈیا کی توجہ حاصل کی تھی، کیوں کہ ان کے جسم پر گٹر کی گندگی ہونے کی وجہ سے مبینہ طور پر ہسپتال کے عملے نے انہیں فوری طبی امداد نہیں دی تھی۔

عرفان مسیح جب شہر کی گندگی کو دور کرنے کی کوشش کے دوران زندگی کی بازی ہار بیٹھے تھے تب ان کے والد نذیر مسیح کراچی میں تھے اور انہیں فون پر بتایا گیا کہ ان کے جوان بیٹے اب نہیں رہے۔

بیٹے کی موت کے چار سال بعد انہوں نے عرفان کی موت کے دن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں اس بات کا افسوس رہے گا کہ جب ان کا بیٹا موت سے زندگی کی طرف آنے کی جنگ لڑ رہا تھا تو وہ اس کے پاس موجود نہیں تھے۔

نذیر کے مطابق حقیقت تو یہ ہے کہ انہیں آج تک صحیح طرح سے یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کے بیٹے کے ساتھ کیا ہوا تھا اور انہیں کس نے موت کی طرف دھکیلا؟

وہ بتاتے ہیں کہ بیٹے کی موت کے تین دن بعد انہیں معلوم ہوا کہ عرفان کی موت کی بات دنیا پھر میں پھیل گئی ہے اور کراچی میں سے کسی بڑے سرکاری افسر کے فون آنے کے بعد ہی پولیس نے ان کے بیٹے کی موت کا مقدمہ دائر کیا۔

انہیں آج تک یہ بھی معلوم نہیں کہ کس اعلیٰ افسر نے پولیس کو فون کرکے ان کے بیٹے کے قتل کا مقدمہ دائر کرنے کا کہا تھا، البتہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ میڈیا میں خبریں آنے کے بعد ہی کراچی سے فون آیا، جس کے بعد ان کی مدعیت میں مقدمہ دائر کیا گیا، تاہم تین سال تک کیس چلنے کے بعد انہوں نے تمام نامزد ملزمان کو معاف کرکے کیس ختم کردیا۔

نذیر کے مطابق تین سال تک وہ عدالتوں اور تھانے کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک گئے تھے اور انہیں احساس ہو چلا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں عرفان کے قاتلوں کو سزا ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکیں گے اس لیے انہوں نے سوچا کہ بہتر یہی ہے کہ ملزمان کو معاف کرکے معاملہ خدا کے سپرد کردیا جائے۔

نذیر مسیح کے مطابق ان کے جوان بیٹے کی موت کے بعد سندھ حکومت کے مختلف وزرا نے ان کے لیے مراعات کا اعلان کیا اور چھوٹے بیٹے کو سرکاری نوکری دینے کا وعدہ بھی کیا گیا تاہم آج تک ان کے بیٹے کو نوکری نہ مل سکی۔

ان کے مطابق بیٹے کی موت کے تین سال بعد گزشتہ برس انہیں سندھ حکومت نے 12 لاکھ روپے کی امداد دی مگر اب تک ان کے اکلوتے بیٹے کو تاحال نوکری نہیں دی گئی اور اب وہ خود 67 برس کے ہوچکے ہیں، اس لیے انہیں چھوٹے بیٹے کی فکر رہتی ہے۔

نذیر مسیح کے آباؤ و اجداد پنجاب سے تعلق رکھتے تھے جو روزگار کے سلسلے میں سندھ منتقل ہوئے اور ابتدائی طور پر کراچی میں رہے، بعد میں نذیر 1980 کے بعد عمر کوٹ منتقل ہوگئے تھے۔

نذیر مسیح عمر کوٹ میونسپل کمیٹی کے کرائے کے گھر میں مقیم ہیں اور 67 سال عمر ہوجانے کے باوجود وہ نجی اسکول میں صفائی کا کام کرتے ہیں اور گزشتہ ڈیڑھ سال سے کورونا کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش کے باعث وہ بے روزگار ہیں۔

کورونا کی وجہ سے کاروبار زندگی معطل رہنے کی وجہ سے نہ صرف نذیر بے روزگار ہوئے بلکہ کراچی کے علاقے لائنز ایریا میں رہنے والے نوجوان پپو سمیت ہزاروں سوئپرز نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

پپو صدر میں موجود موبائل مارکیٹ کے ایک شاپنگ پلازہ میں چند دیگر ساتھیوں کے ہمراہ صفائی کرتے تھے مگر کورونا کی پہلی لہر اور طویل وقت تک رہنے والے لاک ڈاؤن کے باعث ان کی اور ان کے ساتھیوں کی ملازمت چلی گئی۔

میری جیمز گل سویپر آر سپر ہیروز کی سربراہ ہیں—فوٹو: توئٹر
میری جیمز گل سویپر آر سپر ہیروز کی سربراہ ہیں—فوٹو: توئٹر

کورونا کی وبا کے دوران سوئپرز اور سینیٹری ورکرز کے ساتھ دو طرح کے المیے دیکھنے کو ملے، ایک طرف تو بہت زیادہ افراد کی نوکری ختم ہوگئی اور دوسری طرف ایسے افراد کو وبا کے باوجود حفاظتی آلات کے بغیر خوف کے سائے میں کام کرنا پڑا۔

کراچی میں بہت سارے نجی دفاتر، بینکوں، فلاحی اداروں اور ہسپتالوں میں کام کرنے والے سوئپرز کو حفاظتی آلات کے بغیر وبا کے دوران بھی کام سر انجام دینا پڑا، سوئپر آر سپر ہیروز کی سربراہ مسز میری جیمز گل کے مطابق پنجاب کے کئی کورونا سینٹرز میں خاکروبوں سے نہ صرف صفائی و ستھرائی کا کام لیا گیا بلکہ ان سے پیرا میڈیکل اسٹاف کی خدمات بھی لی گئیں۔

میری گل نے بتایا کہ تاہم خوش آئندہ بات یہ ہے کہ انہوں نے لاہور سمیت پنجاب کے کئی شہروں کے قرنطینہ اور کورونا سینٹرز پر کام کرنے والے سینیٹری ورکرز کے کورونا میں مبتلا ہونے کی خبر نہیں سنی۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی تنظیم نے پنجاب کے کئی شہروں کے کورونا سینٹرز کی نگرانی کی مگر خوش قسمتی سے کہیں بھی کسی سینیٹری ورکرز کے کورونا میں مبتلا ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔

خاکروبوں کے کورونا میں مبتلا ہونے اور انہیں وبا سے متعلق حفاظتی اقدامات کے حوالے سے معلومات پر عالمی تنظیم واٹر ایڈ کی جانب سے مئی اور جولائی 2020 کے دوران کیے جانے والے سروے سے معلوم ہوا کہ زیادہ تر خاکروبوں نے وبا کے دوران نہ صرف کام کیا بلکہ انہوں نے اضافی کام بھی کیا۔

عالمی تنظیم نے چاروں صوبوں گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سینیٹری ورکرز، سوئپرز، ویسٹ منیجمنٹ ورکرز اور ہیلتھ ورکرز سے انٹرویوز کیے۔

انٹرویو دینے والے 89 فیصد سینیٹری ورکرز اور سوئپرز سمیت ہیلتھ ورکرز کا کہنا تھا کہ انہیں لاک ڈاؤن میں وبا کے دوران دگنا کام کرنا پڑ رہا ہے اور انہیں کوئی اضافی مراعات بھی نہیں دی جا رہیں۔

تنظیم نے تمام افراد سے کورونا سے متعلق احتیاطی تدابیر کے حوالے سے بھی سوالات کیے، جس پر 46 فیصد ورکرز نے بتایا کہ انہیں کم از کم تین ایسے طریقوں کا علم ہے جنہیں اختیار کرنے سے وہ وبا سے محفوظ رہ سکتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ انہیں علم ہے کہ فیس ماسک پہننے، دستانے استعمال کرنے اور سماجی فاصلہ اختیار کرنے سے وہ محفوظ رہ سکتے ہیں، اسی طرح 30 فیصد ورکرز نے بتایا کہ انہیں کم از کم دو ایسے ذرائع کا علم ہے جن سے کورونا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

مجموعی طور پر 83 فیصد مرد جب کہ 17 فیصد خواتین ورکرز نے عالمی تنظیم کے سوالوں کے جوابات دیے، اسی طرح جوابات دینے والے ورکرز میں 59 فیصد مسلمان، 35 فیصد مسیحی اور 6 فیصد ہندو تھے۔

عالمی تنظیم نے جن ورکرز کے انٹرویوز کیے ان میں سے زیادہ تر لوگ گھروں میں سوئپرز اور کلینرز کا کام کرنے والے افراد شامل تھے، دوسرے نمبر پر گلی محلوں سے کچرا ٹھانے والے افراد جب کہ تیسرے نمبر پر ہسپتالوں اور دفاتر میں صفائی کے کام سر انجام دینے والے ورکرز شامل تھے۔

ملک میں عام طور پر گٹر صاف کرنے والوں کی اموات ہوتی ہیں—فوٹو: سوئپرز آر سپر ہیروز
ملک میں عام طور پر گٹر صاف کرنے والوں کی اموات ہوتی ہیں—فوٹو: سوئپرز آر سپر ہیروز